مطیع اللہ جان اور محسن نقوی: نشئی کون؟

محمد حنیف

ہم کراچی کے کنکریٹ جنگل کے باسیوں کو اسلام آباد ہمیشہ سے نشے میں ڈوبا ہوا شہر لگتا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کا، سبزے کا سرور، شام کو سرسراتی ہوا کی سرگوشیاں۔ زندگی میں دو، چار دفعہ ہی شامیں گزارنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ حکمران اور اُن کے حواری کیسے رہتے ہیں۔

دعوت کسی مشہور صحافی کے گھر میں ہو یا کسی غیرملکی ڈپلومیٹ کی کوٹھی میں، مے نوشی کا ایسا جامع اور متنوع انتظام جو ہم نے صرف فلموں میں دیکھ رکھا ہے۔ پینے والوں سے زیادہ نہ پینے والوں پر حیرانی کہ انھیں مے نوشوں کی صحبت سے کوئی شکایت نہیں۔

زندگی میں پہلی دفعہ بغیر برف پانی کے وہسکی پینے والے اور اورنج جوس پینے والوں کو ہم پیالہ دیکھا اور جب قہقہے اٹھیں تو پتہ نہ چلے کہ کون زیادہ ٹُن ہے۔

اسلام آباد میں سب سے بڑا اور بنیادی نشہ طاقت کا ہے، جن کے پاس اصلی طاقت ہے اُن کے دھت ہونے کی وجہ تو سمجھ آتی ہے لیکن طاقت کی قربت کا نشہ اس سے بھی تیز اور دیرپا ہے۔

اگر طاقت رکھنے والے شرابی ہیں، تو طاقت کی قربت رکھنے والے ہیرونچی۔ بے بس، لاچار، عادت اور پیشے سے مجبور، بس ایک پُڑی اور اس کے بعد وہ اپنے آپ کو بادشاہ گر سمجھنے لگتے ہیں۔

مطیع اللہ جان کو نشہ کرنے اور نشہ آور مواد آئس رکھنے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن کے ازلی دشمن بھی گواہیاں دے رہے ہیں کہ وہ بیچارہ تو سگریٹ بھی نہیں پیتا لیکن مطیع اللہ جان ایک اور طرح کا نشہ کرتا ہے، رپورٹنگ والا نشہ۔۔

شہر میں گولی چلتی ہے تو سب سے چھوٹا اور ماٹھا رپورٹر بھی ہسپتال کی طرف بھاگتا ہے، ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی گنتی کرتا ہے۔ مطیع اللہ جان یہی نشہ کرنے ہسپتال پہنچا تھا، اٹھا لیا گیا۔ مطیع اللہ جیسے نشیئوں کے لیے کچھ سال پہلے کسی نے ایک گیت بھی گایا تھا

پتہ نہیں وہ کون سا نشہ کرتا ہے،
یار میرا سب سے وفا کرتا ہے۔۔

مطیع اللہ کو گرفتار اور نشہ کرنے کا الزام لگانے والا بھی ہماری صحافی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔

بعض لوگ نشہ نہ بھی کرتے ہوں تو اُن کی شکل و صورت اور حرکات سے لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ یہ بندہ ضرور کچھ نہ کچھ کرتا ہوگا۔

محسن نقوی کی جب پہلی جھلک دیکھی تھی تو ایک دوست نے کہا کہ پتہ نہیں یہ ہمارے عسکری بھائی اب کس کو اٹھا لائے ہیں۔ بعد میں دوستوں نے بتایا کہ وہ انتہائی نفیس آدمی ہیں، فخرِ صحافت ہیں کیونکہ ہم سب کی طرح اپنے کریئر رپورٹنگ سے یعنی ہلاک و زخمیوں کی گنتی سے شروع کیا تھا لیکن اتنی محنت کی کہ اب کئی چینلوں کے مالک ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں کئی سینیئر صحافی حکومت کا حصہ بنتے رہے ہیں، کچھ صحافت حکومت ساتھ ساتھ بھی کرتے رہے ہیں اور بعض کا ہر کالم، ہر تجزیہ، ہر ٹویٹ نوکری کی درخواست ہوتی ہے لیکن شاید ہی کسی صحافی سے حکمران بنے شخص کے کندھوں پر اتنی بھاری ذمہ داری ہو، جتنی محسن نقوی کے کندھوں پر۔

کون ہے ایسا ماں کا جنا، جس کا مشن یہ ہو کہ پاکستان سے عمران خان اور اس کے عاشقوں کا قلع قمع کرنا ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کی کرکٹ کو بھی کامیابیوں سے ہمکنار کرنا ہے۔

تو ان کے چہرے پر ہر وقت جو خشمگی طاری رہتی ہے، باتیں کبھی بے ربط ہو جاتی ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون سا نشہ کرتا ہے، تو جواب یہ ہے کہ وہ ایک پاکباز انسان ہیں، صرف اپنی لامتناہی ذمہ داریوں کے بوجھ کا عکس اُن کے چہرے پر آ گیا۔

اسلام آباد کی پولیس عام طور پر رات گئے پارٹیوں سے لوٹنے والے مے نوشوں کو کچھ نہیں کہتی، کبھی کوئی موٹر سائیکل یا کھٹارہ گاڑی والا نظر آ جائے تو روک کر منھ ضرور سونگھتے ہیں۔

وزیر داخلہ محسن نقوی کابینہ کے سب سے طاقتور وزیر ہیں۔ اگر انھیں ’نشئی کون‘ والا ٹیسٹ کرنا ہے تو ایک ناکے سے مطیع اللہ جان کو گزرنے دیں، اُن کے سفید بال، دبنگ لہجہ اور نشہ نہ کرنے والا اعتماد دیکھ کر حوالدار اُن کو جانے دے گا۔

وزیر داخلہ خود ایک موٹر سائیکل پر بیٹھ کر دیکھیں، ناکے پر روک کر منھ تو سونگھا جائے گا ہی، یہ بھی پوچھا جائے گا کہ بتا اوئے چرس کہاں چھپائی ہے تُو نے۔۔

صحافت کے ابتدائی دنوں میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ صحافی کو خود خبر نہیں بننا چاہیے لیکن صحافی جیل میں بند ہوگا تو خبر تو بنے گی اور اگر جیل بھیجنے والا بھی صحافی برادری سے تعلق رکھتا ہو تو دو خبریں بنیں گی۔

میرا برادری میں وہی مقام ہے جو کمی کمین کا ہوتا ہے، پھر بھی میں صحافی برادری کی طرف سے قوم سے معافی مانگتا ہوں کہ ہماری برادری میں کچھ لوگ نشہ کرتے ہیں لیکن وہ والا نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close