بحیرہ قطب شمالی کی سمندری برف (Arctic Sea Ice) سمندر کے پانی سے بننے والی برف ہے جو قطب شمالی کے علاقے میں سطح پر جم جاتی ہے۔ یہ برف سمندری پانی کے سرد درجہ حرارت کے باعث بنتی ہے اور سال بھر مختلف مقدار میں موجود رہتی ہے، موسم گرما میں یہ کم ہو جاتی ہے اور موسم سرما میں زیادہ۔۔
لیکن اب بین الاقوامی سائنس دانوں کے ایک گروپ نے خبردار کیا ہے کہ 2027 کے موسم گرما تک آرکٹک (بحیرہ قطب شمالی) کی تقریباً ساری سمندری برف پگھل سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس سمندری برف کی موسمیاتی اور ماحولیاتی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کو انتباہی طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندری برف، منجمد سمندری پانی جو سمندر کی سطح پر تیرتا ہے، دہائیوں تک سکڑنے اور پتلا ہونے کے بعد بحیرہ قطب شمالی کے علاقے میں تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور یہ وہ علاقہ ہے، جو دنیا کے سب سے تیزی سے گرم ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔
درجہ حرارت میں اضافہ مسلسل بڑھتے ہوئے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے ہو رہا ہے، اور یہ اخراج انسانوں کی فوسل ایندھن پر انحصار کا نتیجہ ہے۔
اگر آرکٹک مسلسل تین یا اس سے زیادہ سالوں تک اس طرح کی شدید گرمی کا تجربہ کرتا ہے، تو پہلا برف سے پاک دن موسم گرما کے آخر میں ہو سکتا ہے۔
اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ اگرچہ اس کے ممکنہ خطرناک نتائج کے بارے میں ابھی تک کچھ واضح طور پر نہیں بتایا گیا لیکن وہ دن، جب زیادہ تر برف پگھل جائے گی، محققین کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ضرور ہے۔
جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی یہ تحقیق ماہرین موسمیات الیگزینڈرا جان (یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر) اور سیلین ہیوز (سویڈن میں گوتھنبرگ یونیورسٹی) کی سربراہی میں محققین کے ایک بین الاقوامی گروپ نے کی تھی۔
ٹیم نے یہ اندازہ لگانے کے لیے 300 سے زیادہ کمپیوٹر سمیلیشنز کا استعمال کیا کہ دنیا کے شمالی ترین سمندر میں برف سے پاک پہلا دن کب ہو سکتا ہے۔
محققین سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر ماڈل پیش گوئی کرتے ہیں کہ پہلا برف سے پاک دن 2023 کے بعد نو اور 20 سال کے درمیان ہو سکتا ہے، اس سے قطع نظر کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کیسے ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ سمندری برف کی سب سے کم مقدار، جو عام طور پر موسموں کی تبدیلی کے ساتھ پگھلتی اور بنتی ہے، اس سال ایک دن میں ساڑھے سولہ لاکھ مربع میل تھی، جو 1979 اور 1992 کے درمیان اوسط کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
اس تحقیق کے بارے میں یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر میں ماحولیاتی اور سمندری علوم کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور تحقیق کی شریک مصنفہ الیگزینڈرا جان کا کہنا ہے ”موسمیاتی ماڈلز کے مطابق، اگر ہم عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس سے کم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، جو ہر ماہ کم سے کم ممکن ہوتا جا رہا ہے، تو یہ بات یقینی ہے کہ اس صدی میں برف ختم ہو جائے گی۔“
ممالک نے 2015 میں گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن، اقوام متحدہ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ زمین 3.1 ڈگری تک کی جانب گامزن ہے اور یہ ’تباہ کن‘ ہو سکتا ہے۔
موسم گرما کے اختتام پر 1980 کی دہائی کے مقابلے میں آرکٹک پہلے ہی اپنی نصف سمندری برف کھو چکا ہے۔
یہ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے برف بننے میں تاخیر ہوئی ہے ، اور اس کے نتیجے میں سمندری برف بھی پتلی بننے لگی ہے۔
برف پگھلنا آسان ہے اور موسم بہار میں زیادہ درجہ حرارت میں اس کا زیادہ حصہ پگھل جاتا ہے اور وسطی آرکٹک پر ایک ہائی پریشر سسٹم دیکھا گیا ہے، جو وہاں گرم ہوا کو برقرار رکھتا ہے۔
جب برف پتلی ہوتی ہے تو موسمِ بہار اور موسم گرما میں مزید طوفان پیدا ہوتے ہیں، جو برف کو توڑ سکتے ہیں اور برف پگھلنے کا عمل مزید تیز کرسکتے ہیں۔
یہ عمل لگاتار کئی سالوں تک ہوتا آ رہا ہے، جس کی وجہ سے آرکٹک سمندر کی برف میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوتی ہے۔
دوسری جانب ماڈلز پیش گوئی کرتے ہیں کہ مستقبل میں طوفان اور گرمی کی لہروں میں اضافہ جاری رہے گا، کیونکہ آب و ہوا گرم ہوتی رہی گی۔
الیگزینڈرا جان کہتی ہیں ”اخراج اب بھی بڑھ رہے ہیں، ہم ہر سال ریکارڈ گرم سال گزار رہے ہیں، اور یہ سب موسمی نظام کے تمام پہلوؤں میں تبدیلیوں کا سبب بن رہا ہے۔“
ان تبدیلیوں اور ’مکمل طوفان‘ کے باعث، برف ’زیادہ تر لوگوں کی توقع سے کہیں پہلے‘ ختم ہو سکتی ہے۔
الیگزینڈرا کے مطابق، لیکن، یہ قدرتی ماحول میں سب سے واضح تبدیلیوں میں سے ایک ہو گی جو انسانوں کے پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلی کے سبب ہوگی۔
وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ”جب ہم ایسی حالت میں پہنچیں گے، جہاں برف ختم ہو جائے، تو آرکٹک سمندر کا 94 فیصد حصہ برف سے خالی ہوگا۔ لہٰذا، ہم ایک سفید آرکٹک سمندر سے نیلے آرکٹک سمندر کی طرف جا رہے ہیں۔۔ اور اس طرح، بصری طور پر یہ واقعی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اور حقیقت میں اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انسانی گرین ہاؤس گیسیں قدرتی ماحول کو کس حد تک تبدیل کر سکتی ہیں۔“
نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے سیٹلائٹ ڈیٹا کی بنیاد پر محققین کو یقین ہے کہ آرکٹک میں مزید برف ختم ہو جائے گی۔ زیادہ تر ماڈلز نے پیش گوئی کی ہے کہ 2023 کے بعد نو سے بیس سال کے اندر برف کے بغیر پہلا دن ہو سکتا ہے، اس سے قطع نظر کہ انسان اپنے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کس طرح تبدیل کرتے ہیں۔
الیگزینڈرا جان نے کہا، ”جیسے جیسے ہم ایک ایسے آرکٹک کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں برف نہ ہو، اس کے کلائمٹ سسٹم، ایکو سسٹم، اور آرکٹک میں رہنے والے لوگوں پر بہت سے اثرات ہوں گے۔ ان کے لیے سمندری برف کا استعمال نقل و حمل، شکار اور دیگر سرگرمیوں کے لیے کس طرح ممکن ہوگا، یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔“
لیکن یہ ہوگا یا نہیں، یہ ابھی غیر یقینی ہے۔ موسمیاتی ماڈلز پر مبنی پیش گوئیوں میں غیر یقینی صورت حال موجود ہے۔ لہٰذا، یہ واقعہ تین سال سے لے کر پچاس سال کے درمیان کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ”یہ پیش گوئیاں ممکنہ امکانات پر مبنی ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ تین سے چھ سالوں میں قطب شمالی مکمل طور پر برف سے خالی ہو جائے گا۔۔ حقیقتاً یہ تین سے پچاس سال کے اندر ہو سکتا ہے۔ یہ ماڈلز کے مطابق ہے، جو عالمی اخراج کی شدت اور مختلف عوامل پر منحصر ہے۔۔ لیکن، یہ لوگوں کی توقع سے پہلے بھی ہو سکتا ہے۔۔۔“
محققین نے خبردار کیا ہے کہ برف کے خاتمے سے بچنے کے لیے دنیا کو گلوبل وارمنگ کو محدود کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگر دنیا فوری طور پر اقدامات کرے تو برف کے بغیر والے حالات کبھی پیدا نہیں ہوں گے۔
الیگزینڈرا جان کا کہنا ہے ”لہٰذا، کم ترین اخراج کے منظرنامے میں، کئی ماڈلز ایسے ہیں جن میں صدی کے آخر تک برف موجود رہے گی۔ لیکن کچھ ماڈلز ایسے بھی ہیں جن کے مطابق برف ختم ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اخراج اس سطح پر برقرار رہیں تو یہ کسی حد تک قسمت پر منحصر ہوگا کہ آیا کسی سال تیزی سے برف کے پگھنلے کا واقعہ پیش آتا ہے جس کے نتیجے میں برف ختم ہو جاتی ہے۔
”جبکہ، اگر درجہ حرارت 1.5 ڈگری سے بڑھ گیا تو ہم یقینی طور پر ایسے حالات دیکھیں گے جب برف بالکل غائب ہو جائے گی۔ اس لیے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کسی بھی حد تک کم کرنا آرکٹک سمندر میں باقی رہنے والی برف کی مقدار پر اثر ڈالے گا۔‘
اس برف کی کئی لحاظ سے موسمیاتی اہمیت ہے۔ یہ سورج کی روشنی کو منعکس کرکے زمین کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتی ہے (یعنی البیڈو اثر)۔ یہ آرکٹک کے ماحولیاتی نظام کا حصہ ہے اور قطبی جانور جیسے پولر بیئرز، سیلز اور مچھلیوں کے لیے رہائش فراہم کرتی ہے۔
اگرچہ الیگزینڈرا جان کے مطابق، آرکٹک میں برف سے پاک پہلا دن چیزوں کو ڈرامائی طور پر تبدیل نہیں کرے گا۔ لیکن یہ ظاہر کرے گا کہ ہم نے آرکٹک اوقیانوس میں قدرتی ماحول کی ایک وضاحتی خصوصیت کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیا ہے، جو یہ ہے کہ یہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذریعے سال بھر سمندری برف اور برف سے ڈھکا رہتا ہے۔۔
تاہم اگر 2027 کے موسم گرما تک آرکٹک کی تقریباً تمام سمندری برف پگھل جاتی ہے تو آگے چل کر اس کے زمین کے ماحولیاتی نظام، موسم، اور انسانی زندگی پر گہرے اور خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ ممکنہ نتائج ہو سکتے ہیں:
1. موسمیاتی تبدیلی میں شدت: آرکٹک سمندری برف سورج کی روشنی کو منعکس کرتی ہے، جسے ’البیڈو اثر‘ کہتے ہیں۔ برف کے پگھلنے کے بعد گہری سمندر زیادہ سورج کی گرمی جذب کرے گا، جس سے زمین کا درجہ حرارت مزید بڑھ سکتا ہے۔
2. سمندری سطح میں اضافہ: اگرچہ سمندری برف کے پگھلنے سے فوری طور پر پانی کی سطح میں اضافہ نہیں ہوتا، لیکن یہ گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا کی برفانی پرتوں کے پگھلنے کو تیز کر سکتا ہے، جو سمندری سطح میں نمایاں اضافے کا سبب بنے گا۔
3. موسمی پیٹرنز میں تبدیلی: آرکٹک کی برف کی کمی جیٹ اسٹریم کو متاثر کر سکتی ہے، جس سے دنیا بھر میں شدید موسم کے پیٹرنز پیدا ہو سکتے ہیں، جیسے طوفان، شدید گرمی، یا غیر متوقع بارشیں۔
4. ماحولیاتی نظام کا خاتمہ: سمندری برف پر منحصر آرکٹک حیات، جیسے پولر بیئرز، سیلز، اور دیگر جاندار، اپنی قدرتی رہائش گاہ کھو دیں گے، جس سے ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگا۔
5. کاربن کے اخراج میں اضافہ: آرکٹک کی برف کے نیچے پھنسے ہوئے میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے گرین ہاؤس گیسز آزاد ہو سکتی ہیں، جو گلوبل وارمنگ کو مزید تیز کریں گی۔
6. معاشی اور جغرافیائی اثرات: آرکٹک میں برف کے ختم ہونے سے نئی شپنگ لائنز کھل سکتی ہیں اور قدرتی وسائل تک رسائی آسان ہو سکتی ہے، جس سے جغرافیائی سیاست میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف آرکٹک کے خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے۔ اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات جیسے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو محدود کرنا اور قدرتی ماحول کی حفاظت کرنا ناگزیر ہیں۔