ملک میں مہنگائی کی حکومتی لوٹ سیل، ریکارڈ قرضے اور کابینہ میں مزید توسیع۔۔

گزشتہ دنوں معروف تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ”اسٹاک ایکسچینج سے گزارش ہے کہ آئندہ وہ جب بھی اوپر جائے تو پاکستانی عوام کو بھی ساتھ لے کر جائے۔“

اس ٹویٹ کا پسِ منظر یہ ہے کہ ایک طرف روزانہ کی بنیاد پر اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ حد تک نفسیاتی حد عبور کرنے کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، دوسری جانب حکومت تواتر سے خوش خبریاں سنا رہی ہے کہ مہنگائی میں کمی ہوئی ہے اور تیسری جانب عوام ہے کہ مہنگائی میں کمی اور اسٹاک ایکسچینج کی نفسیاتی حد عبور کرنے کی خبروں کے درمیان نفسیاتی بن چکے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اسٹاک ایکسچینج کے اوپر جانے اور مہنگائی کے نیچے آنے کے اثرات اس تک کیوں نہیں پہنچ رہے!؟

اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈ قائم کرنے کے اور مہنگائی کم ہونے کے ہوائی دعوے اپنی جگہ لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے اور مہنگائی میں پسنے والے عوام کی طرح چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی لوٹ سیل چل رہی ہے۔

اس حقیقت کا اندازہ گزشتہ روز کی کچھ خبروں سے ہوتا ہے۔ آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے صرف چار ماہ میں گیس کی قیمت میں ساڑھے 800 فیصد اضافہ کیے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے نومبر 2023 میں گیس کے ٹیرف میں 520 فیصد جب کہ فروری 2024 میں 319 فیصد اضافہ کیا۔ اسی طرح نومبر 2023 میں بجلی کے نرخوں میں 35 فیصد، فروری 2024میں 75فیصد اضافہ کیا گیا۔ یوں بجلی اور گیس قیمتوں میں غیر معمولی اضافے سے مہنگائی میں مجموعی طور پر ہوشربا اضافہ ہوا۔

ادارہ شماریات کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران چینی کی قیمت میں ساڑھے 53 فیصد اور پام آئل کی قیمت میں 61 فیصد اضافہ ہوا۔ سویا بین آئل، گندم اور خام تیل کی قیمتیں گزشتہ پانچ سال میں 35فیصد بڑھیں۔

اور یہ اضافہ یہیں تک نہیں رکنے والا، کیونکہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت کو 15فروری 2025ء کی ڈیڈ لائن دے دی ہے، آئی ایم ایف نے ششماہی گیس ٹیرف کی ایڈجسٹمنٹ سے متعلق شرط رکھی ہے، آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 15 فروری 2025 تک گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اوگرا نے گیس کی قیمتوں سے متعلق فیصلہ تاحال وفاقی حکومت کو نہیں بھجوایا۔ اوگرا کے متعین کردہ ٹیرف کی روشنی میں وفاقی حکومت فیصلہ کرے گی، جس کے بعد ہی وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد ہی اوگرا گیس قیمتوں سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔ یاد رہے کہ نومبر میں اسلام آباد سمیت پنجاب اور کے پی کے لئے گیس 3.66 فیصد مہنگی کرنے جبکہ سندھ اور بلوچستان کے لیےگیس 53.47 فیصد مہنگی کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

آئیے اب ذرا موبائل فون صارفین کے جیبوں پر پڑنے والے ڈاکے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 5 سالوں کے دوران موبائل صارفین سے 3 کھرب 38 ارب روپے وصول کیے گئے، صرف گزشتہ مالی سال کے دوران موبائل صارفین سے 92 ارب روپے وصول کیے گئے۔ ٹیکس وصولی کی یہ تفصیلات بدھ کے روز ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ کی زیر صدارت قومی اسمبلی اجلاس میں موبائل صارفین سے ت پیش کی گئیں۔

وزارت خزانہ نے صارفین سے ٹیکس وصولی کی تفصیلات ایوان کے سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران موبائل صارفین سے 3 کھرب 38 ارب روپے وصول کیے گئے۔ دستاویز کے مطابق صارفین سے 2020میں 50ارب، 2021 میں 55 ارب ایڈوانس ٹیکس کی مد میں لیے گئے۔ اسی طرح فون بیلنس پر 2022 میں 61 ارب اور 2023 میں 80 ارب ٹیکس وصول کیا گیا جب کہ مالی سال 2024 کے دوران صارفین سے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں 92ارب روپے وصول کیے گئے۔

ادہر ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 16 دسمبر سے مزید اضافے کا امکان ہے۔ 15 دسمبر کو ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کیا جائے گا، اوگرا کی جانب سے بھیجی گئی سمری پر حکومت اضافے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔

لگے ہاتھوں چینی کے مزاج میں بھی کڑواہٹ گھلنے لگی ہے اور اس کی قیمت مزید بڑھ گئی ہے، اور فی کلو قیمت میں بیس روپے سے 10 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران چینی کے ایکس مل ریٹ 115 روپے سے بڑھ کر 125 روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ملک میں چھوٹے دکاندار 15 سے 20 روپے کلو اضافے کے ساتھ چینی 140 سے 150 روپے کے درمیان فروخت کر رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق شوگر ڈیلرز نے چینی کے تھوک نرخ دسمبر میں 128 روپے کلو جبکہ جنوری 2025ئ میں تھوک قیمت 133 روپے تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

اگر چینی کی تھوک قیمت میں اضافہ ہوتاہے تو عام دکانوں پر بھی چینی کے فی کلو ریٹ میں مز ید دس روپے تک اضافہ ہونے کا ا مکان ہے۔ شوگر ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو صورتحال مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔

ادہر کے۔الیکٹرک کی جانب سے اپنے ذرائع سے مہنگی بجلی کی پیداوار کے اثرات برقرار ہیں، دسمبر میں کے۔الیکٹرک صارفین کے لیے اضافی بوجھ جبکہ ملک کے باقی بجلی صارفین کو ریلیف ملے گا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کراچی والے جولائی کی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3 روپے 3 پیسے فی یونٹ اضافی ادا کریں گے، جبکہ کے ۔ الیکٹرک صارفین کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی ایڈجسٹمنٹ میں 20 پیسے فی یونٹ الگ سے ادا کرنے ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق رواں ماہ کے۔الیکٹرک صارفین کو ایک ماہانہ اور ایک سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ برداشت کرنا ہوگا، تاہم کراچی کے سوا ملک کے باقی بجلی صارفین کو دسمبر میں اکتوبر کی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کا ایک روپے 14 پیسے فی یونٹ ’ریلیف‘ ملے گا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ستمبر کے مہینے میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے مالی سال 24-2023 کی چوتھی سہ ماہی کے لیے کپیسٹی چارجز میں تبدیلی، متغیر آپریشن، مینٹیننس، اضافی فروخت پر اضافی وصولی، سسٹم کے استعمال کے چارجز، مارکیٹ آپریٹر فیس اور ترسیل و تقسیم کے نقصانات پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے اثرات کی بنیاد پر 4323 ارب روپے کی مثبت ایڈجسٹمنٹ کا تعین کیا تھا۔

5 دسمبر کو نیپرا نے کراچی سمیت ملک بھرکے لیے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 20 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دی تھی، یہ منظوری رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دی گئی تھی، نیپرا نے جولائی تا ستمبر 2024 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ بھی وفاقی حکومت کو بھجوا دیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ مسلسل چوتھا مہینہ ہے کہ جب کراچی کے سوا ملک کے باقی صارفین ماہانہ ایڈجسٹمنٹ میں ریلیف کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، شہر قائد کے باسی بجلی بلوں کے مسلسل اضافی بوجھ کی زد میں ہیں۔

دسمبر کے مہینے میں ستمبر 2024 کی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کے۔الیکٹرک صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 18پیسے فی یونٹ کمی بھی ہوگی، تاہم یہ کمی منہا کرکے بھی کے۔الیکٹرک صارفین کو ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں 3 روپے 5 پیسے فی یونٹ ادا کرنے ہوں گی۔

اور یہ سب کچھ تب ہو رہا ہے، جب شہباز شریف حکومت ملکی تاریخ کا مہنگا ترین آئی ایم ایف قرضہ لینے والی حکومت بن گئی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف اور چینی کمرشل بینکوں سے 8 فیصد تک کی شرح سود پر بیرونی قرضے لیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) اور عالمی کمرشل بینکوں سے حاصل کردہ قرضے کی شرائط پیش کی گئیں۔ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ آئی ایم ایف سے تقریباً 5 فیصد شرح سود پر 7 ارب ڈالر قرض حاصل کیا گیا جس میں 3.37 فیصد ایس ڈی آر ریٹ، 1 فیصد مارجن اور 50 بیسز پوائنٹس سروس چارجز شامل ہیں جبکہ آئی ایم ایف کو قرضہ گریس پیریڈ سمیت 10 سال کی مدت میں قابل واپسی ہوگا اور آئی ایم ایف کو ششماہی بنیاد پر 12 اقساط میں یہ قرض واپس کیا جائے گا۔

اجلاس میں چینی بینکوں سمیت دیگر اداروں سے 7 سے 8 فیصد سود پر قرض لینے کا انکشاف ہوا، جن میں چائنا ڈیویلپمنٹ بینک، انڈسٹریل کمرشل بینک آف چائنا اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک شامل ہیں۔ ای سی او ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ بینک اور مشترکہ لون فسیلٹی بھی حاصل کی گئی۔

دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضے 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، جس سے پاکستان خطے میں بھارت کے بعد قرضوں پر بھاری سود ادا کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم اوسط سالانہ برآمدات سے 352 فیصد زیادہ ہے. ایک سال میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، چین کے بعد پاکستان سب سے زیادہ عالمی بینک کا مقروض ہے۔

مہنگائی میں پستے عوام اور قرض میں ڈوبے ملک کی ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی کابینہ میں توسیع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کے تحت کابینہ میں 10 مزید ارکان شامل کیا جائے گا۔ میڈیا کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے رواں ماہ کابینہ میں توسیع کا اعلان کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ن لیگ نوازشریف نے اپنے پرانےساتھیوں کو کابینہ میں شامل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

کابینہ میں سردار یوسف، طارق فضل چوہدری، بیرسٹر عقیل، حنیف عباسی، سعد وسیم ، شیخ آفتاب سمیت دو خواتین کو بھی شامل کئے جانے کا امکان ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close