انڈیا یا پھر بھارت، نیا تنازع۔ مودی نام بدلنا کیوں چاہتے ہیں اور ان ناموں کی تاریخ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

بھارتی صدر کی طرف سے کسی آفیشل دعوت نامے پر پہلی مرتبہ ’پریزیڈنٹ آف بھارت‘ کے استعمال سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ مودی حکومت ہندوتوا کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ جبکہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں اس اقدام کی مخالفت کر رہی ہیں

انڈین میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ 18 ستمبر سے انڈین پارلیمان لوک سبھا میں وزیرِ اعظم نریندر مودی ملک کا نام انڈیا سے بدل کر بھارت رکھنے کی قرارداد پیش کریں گے

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس ایک عرصے سے تمام سرکاری، سفارتی، قانونی اور دیگر استعمال میں ’انڈیا‘ کا نام ہٹا کر ’بھارت‘ کا استعمال کرنے کی مہم چلاتی رہی ہے

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انڈیا کی جگہ بھارت کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ منگل 5 ستمبر کو بھارتی صدر دروپدی مرمو نے جی-20 سربراہی کانفرنس کے دوران سربراہان مملکت اور دیگر مہمانوں کو راشٹرپتی بھون (ایوانِ صدر) میں 9 ستمبر کو دیے جانے والے عشائیے کے دعوت نامے میں اپنے عہدے کے ساتھ ’ری پبلک آف انڈیا‘ کی جگہ ’پریزیڈنٹ آف دی ری پبلک آف بھارت‘ کا استعمال کیا ہے

حکومت نے جی-20 سربراہی اجلاس کے موقع پر غیر ملکی مندوبین کے لیے جو کتابچہ شائع کیا ہے اس میں بھی ’بھارت‘ کا استعمال کیا گیا ہے

صدردروپدی مرموکی جانب سے ’بھارت‘ لفظ کے استعمال کو ہندوتوا کی علمبردار تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی اپیل سے منسلک کر کے دیکھا جا رہا ہے

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے مشرقی ریاست آسام میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا ”ہمارے ملک کا نام بھارت ہے۔ اس لیے دنیا میں ہم خواہ کہیں بھی چلے جائیں، ملک کا نام کہنے، سننے اور لکھنے میں ہر جگہ بھارت ہی رہنا چاہئے۔ اگر کوئی اس کو سمجھ نہیں پاتا ہے تو آپ اس کی فکر بالکل نہ کریں۔ اگر سامنے والے کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی تو وہ خود ہی سمجھ لے گا۔ آج دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔ ہم دنیا کے بغیر چل سکتے ہیں لیکن دنیا ہمارے بغیر نہیں چل سکتی۔“

آر ایس ایس سربراہ نے واضح لفظوں میں کہا ”ملک کے لوگوں کو انڈیا کی جگہ بھارت کہنے کی عادت ڈال لینی چاہئے کیونکہ یہ نام قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ اس نام کو آگے بھی جاری رہنا چاہئے۔ اب ہر جگہ انڈیا کی جگہ بھارت کا استعمال کیا جانا چاہئے“

موہن بھاگوت کی اس اپیل کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے آئین سے انڈیا کا لفظ ہٹانے کا مطالبہ تیز کر دیا ہے

سب سے پہلی آواز بی جے پی کی حکومت والی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ نے اٹھائی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرکے کہا، ”ری پبلک آف بھارت۔ مسرت اور فخر کا مقام ہے کہ ہماری تہذیب امرت کال (دور آبِ حیات) کی جانب پوری قوت سے آگے بڑھ رہی ہے۔“

بی جے پی کے رکن پارلیمان ہرناتھ سنگھ یادو نے موہن بھاگوت کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کہا، ”لفظ بھارت سے جو جوش و خروش، جذبہ اور لگن دلوں میں پیدا ہوتا ہے وہ انڈیا سے کبھی نہیں ہو سکتا… انڈیا ایک گالی ہے جو برطانوی ہمارے لیے استعمال کرتے تھے۔ وہ اس لفظ کو ایسے شخص کے لیے استعمال کرتے تھے، جسے وہ بداخلاق، بے وقوف اور مجرم سمجھتے تھے۔“

دوسری جانب صدر مرمو کی جانب سے سرکاری دعوت نامے پر ‘ری پبلک آ ف بھارت’ لکھے جانے کی اپوزیشن نے سخت مذمت کی ہے

حزبِ اختلاف کی کانگریس پارٹی کے رہنما اور معروف دانشور ششی تھرور نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ اگرچہ ہندوستان کو ’بھارت‘ کہنے میں کوئی آئینی اعتراض نہیں ہے کیوں کہ یہ ملک کے دو سرکاری ناموں میں سے ایک ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ حکومت اتنی احمق نہیں ہو گی کہ ’انڈیا‘ کو مکمل طور پر ختم کر دے کیوں کہ اس نام کی برینڈ ویلیو صدیوں سے قائم ہے۔ ہمیں دونوں الفاظ کا استعمال جاری رکھنا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم اس تاریخی نام کو ترک کر دیں جو دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے۔

کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے وزیر اعظم مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ”مسٹر مودی تاریخ کو مسخ کرنے اور بھارت کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں…لیکن ہم انہیں ایسا کرنے نہیں دیں گے۔“

دہلی کی حکمراں عام آدمی پارٹی کے رہنما اور رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے کہا کہ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی بھارتی آئین مرتب کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بھیم راو امبیڈکر سے نفرت ہے، کیونکہ وہ دلِت تھے

راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمان منوج جھا کا کہنا تھا، ”چند ہفتے قبل ہم نے اپنے اتحاد کا نام INDIA رکھا اور بی جے پی نے اس سے گھبرا کر بھارت کو ‘ری پبلک آف انڈیا’ کے بجائے ‘ری پبلک آف بھارت’ کہنا شروع کر دیا۔ آپ ہم سے نہ تو انڈیا لے سکیں گے اور نہ ہی بھارت۔“

خیال رہے کہ اپوزیشن اتحاد ‘انڈیا’ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا تھا، ”لڑائی NDA (حکمراں اتحاد) اور INDIA کے درمیان ہے، وزیر اعظم نریندر مودی اور انڈیا کے درمیان ہے، بی جے پی آئیڈیالوجی اور انڈیا کے درمیان ہے۔ اورآپ کو معلوم ہے کہ جب کوئی انڈیا کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو جیت کس کی ہوتی ہے۔“

اخبار انڈیا ٹوڈے کے مطابق 2016 میں انڈین سپریم کورٹ پہلے ہی اسی قسم کی ایک پیٹیشن کو رد کر چکی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ انڈیا کا نام بھارت سے بدل دیا جائے

اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اس موقعے پر پیٹیشنر کو مخاطب کر کے کہا تھا، ’بھارت یا انڈیا؟ آپ اسے بھارت کہنا چاہتے ہیں، تو بےشک کہیں۔ کوئی اسے انڈیا کہتا ہے کہ اسے انڈیا کہنے دیں۔‘

اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق اگر انڈین حکومت ملک کے نام کو بدلنا چاہتی ہے تو اس مقصد کے لیے اسے آئین کی اوپر بیان کردہ شق نمبر 1 کو تبدیل کرنا ہو گا۔ آئین کی شق 268 کے تحت اس مقصد کے لیے اسے دوتہائی (66 فیصد) اکثریت درکار ہوگی۔

2019 کے انتخابات میں حکمران بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی تھی اور 543 کے ایوان میں 333 نشستیں جیتی تھیں، جو 61 فیصد بنتی ہیں۔

اس لیے بظاہر نریندر مودی کے لیے ملک کا نام بدلنا آسان نہیں ہوگا۔

 انڈیا، بھارت، ہندوستان، یہ نام کہاں سے آئے؟

لفظ ’بھارت‘ دراصل بھارت ورشا کی مختصر شکل ہے، جس کا مطلب ہے بھارت کی اولاد کا وطن۔

بھارت کا لفظی مطلب بوجھ اٹھانے والا ہے۔ اسی معنی میں اردو کا لفظ بھار یا بھاری موجود ہے۔ سنسکرت میں اس کا اصطلاحی مطلب علم کا متلاشی ہے۔

بھارت ہندوؤں کے ابتدائی ویدک دور کے ایک طاقتور اور ممتاز قبیلہ تھا، جس کا ذکر ہندو مذہب کی قدیم ترین کتاب رگ وید میں بھی ملتا ہے۔

لفظ بھارت کو ملک کے معنی میں سب سے قدیم استعمال کی شہادت پہلی صدی عیسوی سے ملتی ہے، البتہ یہ لفظ صرف شمالی ہندوستان کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اور اس میں جنوبی ہندوستان شامل نہیں تھا۔

 ہند، ہندوستان، انڈیا

یہ تینوں نام دریائے سندھ سے نکلے ہیں۔ فارسی اور سنسکرت بہت قریبی زبانیں ہیں، اتنی کہ انہیں بہنیں کہا جاتا ہے۔ بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو سنسکرت میں س سے شروع ہوتے ہیں، اور فارسی میں وہی س ہ سے بدل جاتی ہے۔ مثال کے طور پر سنسکرت کا ’سپت‘ فارسی کا ’ہفت‘ ہے، سنسکرت کا سوم فارسی کا ہوم ہے، جب کہ سنسکرت کا سپتاہ فارسی کا ہفتہ بن گیا۔

اسی اصول کے تحت فارسی والے سندھ کو ہند بولتے تھے، بعد میں یہ لفظ پورے ملک کے لیے استعمال ہونے لگا۔ جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو ستان کا مطلب جگہ ہے، اسے ہند کے ساتھ جوڑ کر ہندوستان بنا لیا گیا۔

انڈیا کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ یہ نام یونانیوں کا دیا ہوا ہے۔ جب قدیم فارسی حکمران دارا اول نے مغربی ہندوستان (موجودہ پاکستان) کا علاقہ فتح کر اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تو اس صوبے کو دریا کی مناسبت سے ہند کہنے لگے۔ بعد میں یہی نام پورے ملک کے لیے استعمال ہونے لگا۔

یونانیوں کا ہندوستان سے واسطہ براستہ ایران ہوا۔ اس کا سب سے پہلے بابائے تاریخ ہیروڈوٹس کی مشہور زمانہ تاریخ کی کتاب میں ملتا ہے۔ انہوں نے چونکہ یہ نام قدیم فارسی لفظ ہند سے لیا تھا، اس کی یونانی شکل ’انڈیکی‘ استعمال کی۔ یہی نہیں بلکہ ہیروڈٹس یہاں کے باشندوں کو بھی انڈین کہتے ہیں۔

یونانی کے وسیلے سے یہ نامی یورپ کی دوسری زبانوں میں مستعمل ہو گیا اور جب انگریز ہندوستان آئے تو انہوں نے یہی نام اختیار کر لیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close