شام میں بعث پارٹی اور اسد خاندان کے اقتدار کی بالآخر شام ہو گئی۔ طاقت، جبر اور بے رحمی کی ایک بڑی علامت محض چند دنوں میں قصہِ پارینہ ہونے کے سفر پر روانہ ہوئی۔
ایسا سفر کہ اس طاقت اور جبر کی نشانی بنے رہے بشار الاسد کے سفر کے آغاز کا تو معلوم ہو سکا مگر سفر کی منزل کا ان سطور کے رقم کیے جانے تک حتمی طور پر واضح نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کہاں نہیں۔
اگرچہ غالب امکان روس پہنچنے کا ہی تھا۔ اس دوران یہ واضح ہو گیا کہ بشار خاندان ایک ہفتہ قبل ہی فرار ہو کر روس چلا گیا تھا۔ رات بہت دیر سے روس نے بشار کی روس پہنچنے کی بھی تصدیق کر دی۔
شاہی فرار کی کہانیوں میں گویا ایک اور اضافہ ہو گیا ہے۔ مسلم ممالک کے نمایاں طور پر فرار ہونے والے حکمرانوں میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور اشرف غنی کے علاوہ تیونس اور یمن کے حکمرانوں کے نام بھی حالیہ برسوں کے دوران ہوئے اور پھر سب ہی قصہ پارینہ بن گئے۔
بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کا ذکر بھی جملہ معترضہ کے طور پر اسی زمرے میں آتا ہے۔ ’خاک میں، کیا صورتیں ہوں گی، کہ پنہاں ہو گئیں‘
شامی اپوزیشن کی حالیہ پیش قدمی اور پیش رفت کے منظر نامے میں اس الجھاوے کے کئی اور پہلو بھی موجود ہیں کہ یہ سب کچھ آنًا فاناً کیسے ہو گیا؟
اس عمل کے پیچھے کون ہے؟ آنے والے دنوں میں سامنے کون آئے گا یا آگے کسے لایا جائے گا؟ گویا اس غیر معمولی فتح و شکست کے بہت سارے پرت کھلنا ابھی باقی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود اس تیز رفتاری سے ہونے والی پیش قدمی و پیش رفت پر جس طرح بہت سے لوگ حیران ہیں، بہت سوں کی خوشی اور شادمانی بھی دیدنی ہے۔
جیسا کہ خود دمشق اور شام کے کئی دوسرے علاقوں سے جشن کی خبریں ہیں۔ اسی طرح شام کے اس اچانک سامنے آنے والے منظر نامے پر پریشانی میں مبتلا لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔
ان میں کئی وہ لوگ ہیں جو شام کے اس باغیانہ اور جنگی تناظر میں پورے مشرق وسطیٰ کو جلتا ہوا (خاکم بدہن ) دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
انہیں خوف ہے کہ جس طرح ’وحشی آمریت‘ کی جگہ ’بارودی جمہوریت‘ اس خطے میں متعارف کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اس کا اختتام کہاں جا کے ہوگا اور آنے والے دنوں میں کس کا مقدر بارود اور بغاوت کی زد پر ہوگا۔
یہ خوف اس لیے بھی بڑھا ہوا ہے کہ ’بارودی جمہوریت‘ کا یہ تحفہ روایتی جمہوریت سے بالکل ہٹا ہوا ہے کہ اس میں ملکوں ملکوں ایک ایسی جنگوں اور خانہ جنگیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ قوم اور قبائل ہی نہیں ملک بھی تقسیم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان خوف زدہ اور تشویش زدہ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آس پاس کے کئی ملکوں کی تباہی کی نشانیاں اور خوشحالی کے ملبے کے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگتے ہیں۔
معدنی وسائل سے لدے مشرق وسطیٰ کو یہ لوگ ایک ایسی بڑھیا کی طرح دیکھنے لگتے ہیں، جس کی دولت پر غنڈوں اور مشٹنڈوں نے ایک عرصے سے نظریں جما رکھی ہیں۔
جو کبھی داؤ سے، کبھی دباؤ سے، کبھی دھونس اور دھاندلی سے اور کبھی جنگ و جدل سے ہڑپ کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
ان کی بڑھی ہوئی حرص و ہوس نے پورے خطے کو مسلسل افرا تفری، افتراق، جنگوں اور تباہی کی سرزمین بنا رکھا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کا ورلڈ آرڈر آنے والی ہر دہائی میں اس مشرق وسطیٰ کے لیے خونریزی و تباہی میں اضافے کی ایک نئی تاریخ لیے ہوئے ہے۔
آتشیں جنگیں، تباہی و بربادی اور لاکھوں کی بے گھری اور نقل مکانی کا ارض فلسطین پر ’یوم نکبہ‘ سے ایسا آغاز ہوا کہ کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
لگتا ہے فلسطینی کے گھروں کو لگائی گئی آگ وہیں تک نہیں رہنے دی جائے گی۔
مشرق وسطیٰ پر مسلط کردہ یہ قسمت و عداوت بظاہر امن و جمہوریت کے قیام اور انسانی حقوق و عدل کی بحالی کے نام پر ہے، مگر حقیقتاً یہ جمہوریت نہیں ایک ’بارودی جمہوریت‘ ہے۔ جو مشرق وسطیٰ کے کبھی ایک ملک پر اور کبھی دوسرے پر بارود اور تباہی بن کر برستی ہے۔
نہ جانے یہ ’بارودی جمہوریت‘ آنے والے برسوں میں کس کس پر آتش و آہن کی بارش بن کر برسے گی اور کس کس کی تباہی کا سامان کرے گی، کہ تیل اور گیس کے ذخائر تو آتش و آہن کی بارش کے لیے بڑے ہی سازگار ہو سکتے ہیں۔
اسی ’بارودی جمہوریت‘ یا بارود کے ساتھ لائی گئی جمہوریت سے عراق، یمن، لیبیا میں غیر معمولی تباہی ہو چکی ہے۔ اسی کو لانے کے لیے ایران کئی بار خطروں سے دوچار ہو چکا ہے اور اب بھی خطروں میں گھرا ہوا ہے۔ لبنان تباہ حال ہے، شام میں تباہی کے ماہ و سال مسلسل جاری ہیں۔ شام کے قرب و جوار میں، جو بظاہر اس جنگ سے محفوظ اور آگ سے بچے ہوتے ہیں، مگر خوف کے مارے ان کا بھی برا حال ہے کہ نہ جانے کب ان کی بھی باری آ جائے۔ اس معاملے میں منصوبہ سازوں نے کیا ترتیب سوچ رکھی ہے اور کس ملک کی باری کب یا کس کے بعد آئے گی، یہ اپنی جگہ اہم مگر حالات کی سازگاری اگر پہلے ہو جائے تو ترتیب الٹ پلٹ بھی ہو سکتی ہے۔
اس لیے جس جس ملک کا نام مشرق وسطیٰ یا نئے مشرق وسطیٰ کے نقشے میں موجود ہے، اس خطرے کی لکیر کے نیچے ہے، خطرات کے دائرے سے باہر ہرگز نہیں۔ خصوصاً وہ، جنہیں اللہ نے کسی خاص امتیاز اور خوبی سے نوازا ہے، جس کے وسائل جس قدر زیادہ، اس جمہوری چور بازاری میں اس کے لٹنے کے اتنے ہی خطرات زیادہ ہو سکتے ہیں۔
شام سے بشار الاسد بھی لد چکے۔ ان کی اپوزیشن کی ’تحریر الشام‘ تنظیم نے چند دنوں میں جس سہولت سے اتنی بڑی فتح حاصل کی ہے، اس کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اس کے عزائم مزید جنگ اور خون خرابے کے نہیں ہیں۔
بلاشہ اس کا تعلق پرانی القاعدہ سے جوڑا جاتا ہے لیکن اس کے لہجے اور انداز میں القاعدہ کی سوچ اور اپروچ بعض پہلوؤں سے مفقود ہے۔ وگرنہ اس کی اس بروئے کار آنے والی عسکری و ایمانی قوت سات اکتوبر کے فوری بعد نہیں تو کم از کم چند ماہ بعد ہی سہی غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے تناظر میں ضرور کہیں جھلکتی۔
ایسا ہر گز نہیں ہوا، اور پورے 14 ماہ کے دوران ایک بار بھی نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ادھر لبنان اور اسرائیل کا معاہدہ ہوا اور ادھر ’تحریر الشام‘ تنظیم نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں محاذ ہی نہیں کھولا، بشار الاسد کی حکومت کا دفتر عمل ہی بند کر دیا۔
نہ صرف یہ بلکہ اس کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے آبائی علاقے جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اسرائیل نے بھی بہ سہولت اپنی فوجی قوت کو مستحکم کر لیا۔ شامی علاقے میں قائم ’بفر زون‘ میں اپنی فوجی موجودگی یہ کہہ کر سرعت سے یقینی بنائی کہ اسد حکومت کی فوج پیچھے ہٹ جانے سے معاہدہ ختم ہو گیا ہے۔
اس لیے اسرائیلی تحفظ و سلامتی کے لیے اسرائیلی فوج نے ’بفر زون‘ پر خود کو پوری طرح جنگی موڈ میں لا کر بٹھا لیا ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے فاتحانہ اور جارحانہ دونوں پہلوؤں سے ان شامی مقبوضہ پہاڑیوں پر نئے تعینات کردہ فوجیوں سے خطاب بھی کر لیا ہے۔
اس کے چند گھنٹوں کے بعد اسرائیلی فوج نے دمشق میں ایک بار پھر بمباری کر کے تحریر الشام کو اس کے بارے میں پیغام دے دیا ہے۔
یاد رہے شام میں امریکی فوج کے 900 سپاہیوں کی پہلے سے موجودگی کے علاوہ خطے میں بڑھتی ہوئی اضافی قوت کے ساتھ امریکہ شام اور اس کے گرد و نواح پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے۔
جو بائیڈن انتظامیہ نے اپنے ابتدائی ردعمل میں کہا ہے کہ ’ہم داعش کے حوالے سے بھی چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔‘ گویا داعش کی موجودگی اور حوالہ امریکہ کے لیے بھی ایک جواز کا باعث ہو سکتا ہے کہ وہ شام میں اپنے رسوخ اور تحرک کا دائرہ وسیع کر لے۔
البتہ ایران کے فوجی مشیران اور پاسداران کے بارے میں اب تک یہی اطلاعات ہیں کہ وہ کوچ کر گئے ہیں۔
بلاشبہ شام میں ’تحریر الشام‘ تنظیم کو بشارالاسد کے خلاف کامیابی میں جس قدر میدان، صاف، ہموار اور آسان ملا ہے، اس وجہ سے ’تحریرالشام‘ سے ملک کے اندر اور اڑوس پڑوس میں توقعات کا دامن وسیع تر ہوگا۔
سب سے پہلے یہ کہ ابو محمد الجولانی کے زیر قیادت ’تحریر الشام‘ تنظیم کو غزہ اور فلسطینی عوام کے بارے میں کوئی واضح اور دو ٹوک انداز اختیار کرنا پڑے گا کہ وہ حزب اللہ کی طرح اس وقت سربریدہ اور کمر خمیدہ نہیں بلکہ کامیاب و کامران قوت کی علامت بھی۔
اگر اس کی قوت غزہ میں جاری اسرائیلی طویل ترین جنگ کے باوجود گنگ رہی تو ہو سکتا ہے کہ شام کے عوام کے لیے تو یہ تنظیم کچھ عرصے کے لیے امیدوں کا سامان بنی رہے مگر شام سے باہر اور اڑوس پڑوس کے مسلمان عوام میں اس کی ساکھ پر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔
اسرائیلی کی دمشق پر بمباری نے بھی تحریر الشام کی ہیئت سمجھنے میں مستقبل میں ایک حوالہ بننا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ساتھ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ شام کی یہ جنگ کب تک امن میں بدلے گی؟ یہ اہم سولات ہیں اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر شام کی جنگ کسی اور شکل میں شروع ہو جاتی ہے تو مشرق وسطیٰ پر اس کے اثرات کس کس سمت اور شکل میں سامنے آئیں گے؟
اس سلسلے میں اسرائیل کے ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے اور منصوبے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ نیز 2004 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے پیش کردہ مشرق وسطیٰ کی جگہ ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کے تصور کو ایک ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا غیر متعلق نہ ہوتا۔ کونڈا لیزا رائس نے اس کا پہلی بار اظہار تل ابیب میں کھڑے ہو کر کیا تھا۔
اسرائیل کے ارگرد کا میدان اور ماحول کافی حد تک اسرائیل کے لیے مسائل اور چیلنجوں سے پاک ہو رہا ہے۔ اردن، مصر، لبنان، شام اور ایک حد تک ایران اور ترکیہ اب اسرائیل کے لیے کسی قسم کے مسئلے کا سبب بننے کی پوزیشن میں نہیں۔
خود غزہ میں اسرائیل نے جس قدر تباہی کر لی ہے، وہاں سے بھی مزاحمت کا رنگ ڈھنگ پہلے والا آسان نہیں ہے۔ الا یہ کہ حماس اور دوسرے مزاحمتی گروپوں کی حکمت عملی کی کوئی نئی شکل نہیں آ جاتی۔
اسی عرب دنیا کے سواد اعظم کی بات تو ابراہم معاہدے کے نتیجے میں کافی آسانیاں اسرائیل کو مل چکی ہیں۔ مزید کا امکان بھی زیادہ دور ہوا تو اسرائیل کی وجہ سے ہی ہوگا۔
جیسا کہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ’منامہ ڈائیلاگ 2024‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا ’بین الاقوامی برادری اپنے قوانین اور اداروں کی ساکھ کو باقی رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ تو اسے اپنا ہاتھ سعودی عرب اور ان علاقائی ممالک کے ہاتھ میں دینا چاہیے جو امن کے لیے الفاظ کو اعمال کے قالب میں ڈھالنے اور زمین پر دو ریاستی حل کو مجسم کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔‘
لیکن اگر اسرائیل کے ’گریٹر اسرائیل‘ منصوبے کے ساتھ ساتھ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ کے لیے بھی وہی زاویہ نگاہ رکھا جو اسرائیل کا ہے تو صاف مطلب ہے کہ شام میں بشار الاسد کے خلاف تو جنگ کی شام ہو گئی۔
مگر خطے میں ایک نئی جنگ کی شروعات بھی بعید از امکان نہیں ہے، جس میں ابتدائی اور فطری طور پر پہلے درجے اور دائرے میں مشرق وسطیٰ کے پرانے رکن ممالک کے لیے خطرات زیادہ ہوں گے۔ جبکہ ثانوی طور پر جارج ڈبلیو بش کے نئے مشرق وسطیٰ کے لیے کونڈا لیزا رائس کے الفاظ میں ’تعمیری افراتفری‘ کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
افراتفری تعمیری ہو یا غیر تعمیری، افراتفری بہرحال افراتفری ہوگی۔ بس اس کی شروعات کا انداز الگ الگ اور عمل درآمد کا طریقہ کار مختلف ہوگا۔
یاد رہے اس نئے مشرق وسطیٰ میں طویل جنگوں کی سرزمین افغانستان، لمبی دہشت گردی برداشت کرنے والا پاکستان اور سول و فوج کی آویزش کی طویل تاریخ رکھنے والا ترکیہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ عالمی طاقتیں ان ملکوں کے تاریخ، جغرافیہ، سماج و معاش سبھی سے نہ صرف خوب آگاہی رکھتے ہیں بلکہ ان کی افادیت اور چیلنجوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔
اس لیے شام میں ’تحریر الشام‘ تنظیم کا غلبہ خطے میں کیا رخ اختیار کرتا ہے اور دنیا کی غالب قوتیں خطے میں کس طرح متحرک ہوتی ہیں۔ یہ عرب لیگ، او آئی سی اور شنگھائی کانفرنس کے علاوہ برکس اور دوسرے ملکوں کے لیے بھی کافی سنجیدہ سوال ہوگا۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)