ضمنی انتخابات: عمران خان کی ریکارڈ جیت، انہیں صرف عبدالحکیم بلوچ ہی ہرا سکے

ویب ڈیسک

قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے چھ نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی ملی ہے جبکہ ملیر اور ملتان کی دو نشستیں پیپلز پارٹی نے جیتی ہیں

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گذشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخابات میں بیک وقت چھ حلقوں میں کامیابی حاصل کر کے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایک ریکارڈ جیت اپنے نام کی ہے

اس سے قبل 2018ع کے عام انتخابات میں وہ بیک وقت پانچ نشستوں سے کامیاب ہوئے تھے

گذشتہ روز قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی، جن میں سے سات نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار عمران خان خود میدان میں تھے۔ ان سات حلقوں میں سے انہیں صرف ملیر کی ایک نشست پر شکست ہوئی، جہاں عبدالحکیم بلوچ ان سے جیت گئے

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے چھ نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی ملی ہے جبکہ ملیر اور ملتان کی دو نشستیں پیپلز پارٹی نے جیتی ہیں

مردان این اے 22:

این اے 22 مردان کی نشست پر عمران خان کا مقابلہ جمعیت علمائے اسلام کے محمد قاسم سے تھا۔ عمران خان 76 ہزار 681 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ محمد قاسم 68 ہزار 171 ووٹ حاصل کر سکے اور انہیں 8500 ووٹوں سے شکست ہوئی

چارسدہ این اے 24:

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے این اے 24 چارسدہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان کو بھی شکست دی

این اے 24 چارسدہ کے تمام 384 پولنگ سٹیشنز کے نتیجے کے مطابق عمران خان 78 ہزار 589 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان 68 ہزار 356 ووٹ حاصل کر سکے

پشاور این اے 31:

نتائج کے مطابق عمران خان نے پشاور کی نشست این اے 31 پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار غلام احمد بلور کو شکست دی

عمران خان 57 ہزار 824 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ اے این پی کے غلام احمد بلور 32 ہزار 253 ووٹ حاصل کرسکے اور یوں غلام احمد بلور کو 25 ہزار 571 ووٹوں سے شکست ہوئی

فیصل آباد این اے 108:

پنجاب کے شہر فیصل آباد میں عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار عابد شیر علی کو 24471 ووٹوں کے مارجن سے شکست دی

این اے 108 فیصل آباد کےتمام 354 پولنگ اسٹیشنز کے نتیجے کے مطابق عمران خان 99 ہزار 602 ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے عابد شیر علی 75 ہزار 131 ووٹ لے سکے

ننکانہ صاحب این اے 118:

عمران خان نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 118 ننکانہ صاحب میں بھی بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی

این اے 118 ننکانہ صاحب ٹو کے نتیجے کے تحت عمران خان 90 ہزار 180 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے

ان کی مخالف امیدوار پاکستان مسلم لیگ ن کی شذرہ منصب علی نے 78 ہزار 24 ووٹ حاصل کیے اور انہیں 12156 ووٹوں سے شکست ہوئی

ملتان این اے 157:

ملتان میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کی خالی کردہ نشست این اے 157 پر بھی ضمنی انتخاب ہوا جس پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے موسیٰ گیلانی نے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صاحب زادی مہربانو قریشی کو شکست دے دی

این اے 157 ملتان فور کے تمام پولنگ سٹیشنز کے نتیجے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے سید علی موسیٰ گیلانی ایک لاکھ سات ہزار 327 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کی مہر بانو قریشی نے 82 ہزار 141 ووٹ حاصل کیے

کراچی ملیر این اے 237:

ان ضمنی انتخابات میں عمران خان کو صرف اسی ایک نشست پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ این اے 237 ملیر میں پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ سے ہار گئے

اس حلقے کے نتائج کے مطابق عبدالحکیم بلوچ نے 32 ہزار 567 ووٹ لیے جبکہ عمران خان 22 ہزار 493 ووٹ لیے

کراچی کورنگی این اے 239:

این اے 239 کراچی کورنگی کے نتائج کے مطابق عمران خان نے اس نشست پر بھی کامیابی حاصل کر لی جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے امیدوار نیئر رضا دوسرے نمبر پر رہے ہیں

پنجاب کی صوبائی نشستیں:

پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے دو جبکہ مسلم لیگ ن نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ قومی اور صوبائی کی بارہ نشستوں میں سے یہ واحد نشست ہے، جہاں ن لیگ بمشکل جیت پائی ہے

پی پی 139 شیخوپورہ میں ضمنی انتخاب کے نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے چوہدری افتخار احمد بھنگو 40 ہزار 829 ووٹ لے کر پی ٹی آئی کے محمد ابوبکر سے جیت گئے۔ محمد ابو بکر نے 37 ہزار 712 ووٹ حاصل کیے

پی پی 209 خانیوال میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فیصل خان نیازی نے 71 ہزار 156 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے چوہدری ضیاالرحمن نے 57 ہزار 603 ووٹ لیے

پی پی 241 بہاولنگر میں تحریک انصاف کے ملک محمد مظفر خان 59 ہزار 957 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار امان اللہ ستار 48 ہزار 147 ووٹ لے سکے

کیا یہ نتائج عام انتخابات پر اثرانداز ہونگے؟

ضمنی انتخابات کے نتیجے میں تو تحریک انصاف پنجاب میں اپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن موجودہ کامیابی کے پارٹی کی سیاسی تحریک، عام انتخابات کے قبل از وقت انعقاد کے مطالبے اور اس سلسلے میں لانگ مارچ سے متعلق فیصلوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سوال اس وقت زیر بحث ہیں

انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا کہ ’”الحمدللّٰہ قوم نے ایک بار پھر عمران خان کو اپنی امیدوں کا محور ثابت کیا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہوں عوام کی خواہش کا احترام کریں فوری طور پر ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کریں حکومت سے الیکشن کے فریم ورک پر گفتگو کے لیے تیار ہیں“

اس سے بظاہر تو یہ اشارہ ملتا ہے کہ تحریک انصاف اب بھی عام انتخابات کے لیے ہی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھے گی

تجزیہ کاروں کے مطابق ضمنی انتخابات میں کل آٹھ نشستوں میں سے چھ پر عمران خان کی کامیابی سے دو باتیں بالکل واضح ہو گئی ہیں کہ اس وقت عمران خان عوامی سطح پر ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ دوسرا انہوں نے گزشتہ چھ ماہ کے اندر جو بیانیہ بنایا ہے وہ بھی عوام میں مقبول ہے۔ ’اس لیے یہ کہنا چاہیے کہ فی الوقت عمران خان کا بیانیہ نہ صرف جیتا ہے بلکہ اسے تقویت بھی ملی ہے۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عامر الیاس رانا کے مطابق اس جیت سے یقیناً عمران خان کے بیانیے کو تقویت ملی ہے لیکن اگر اس ضمنی انتخاب کا تقابل پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے کیا جائے تو وہ ماحول نہیں بنا، جو اس وقت بنا تھا۔ اس کے باوجود عمران خان اور ان کا بیانیہ جیتا ہے، جس کے اثرات موجودہ سیاسی صورت حال پر بھی پڑیں گے اور اگلے عام انتخابات کے لیے اس میں کافی کچھ واضح ہوگیا ہے

اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی مرضی کے حلقے چنے تھے، تقریباً تمام حلقوں میں کنگز پارٹی کا مشترکہ ووٹ جو ان کے امیدواروں نے 2018 میں لیا تھا تحریکِ انصاف سے دگنا تھا۔ اپنی مرضی کا الیکشن ڈے چنا اور الیکشن کمیشن بھی اپنا مگر پھر بھی ’تمام‘ سیٹیں ہار گئے

عام انتخابات میں جب سب جماعتوں کے امیدوار میدان میں موجود ہوں گے تو ان کا ووٹ پھر تقسیم ہوگا اور تحریک انصاف اپنا ووٹ بینک مزید بڑھا کر کامیابی حاصل کرے گی

تجزیہ کار عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ عمران خان کی کامیابی میں دوسرا بڑا ہاتھ ان ووٹرز کا ہے جو عمران خان کے چار سالہ دور میں ان سے ناراض ہوگئے تھے۔ ’حکومت تبدیل ہونے کے بعد وہ لوگ تذبذب کا شکار تھے کہ کس طرح سے ردعمل دینا ہے لیکن مہنگائی نے ان کا جو حشر کیا ہے اس کے بعد انہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا جو حکمران اتحاد کی شکست کا باعث بنا‘

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار اور صحافی رانا غلام قادر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنی چھوڑی ہوئی آٹھ میں سے چھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
اس سے جہاں ایک طرف عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں تحریک انصاف کو دو نشستوں پر شکست ان کے لیے سیٹ بیک بھی ہے

انہوں نے کہا کہ عملاً تو عمران خان کو اس کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اسمبلی میں واپس نہیں آنا لیکن وہ اس کامیابی کو حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے

ان کے مطابق ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے بعد پیپلز پارٹی کامیاب جماعت کے طور پر سامنے آئی اور ن لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس سے یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے آسان نہیں ہوں گے بلکہ ہر جماعت کو محنت کرنا ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close