لبنان حکومت کی جانب سے صدمے اور غم و غصے سے بھرپور عوام کو پرسکون رہنے کی اپیل ناکام ہو گئی ہے۔ احتجاجی مظاہرین نے وزارتِ داخلہ سمیت حکومت کے کئی دفاتر میں داخل ہو کر ان پر قبضہ کر لیا ہے۔
احتجاجی مظاہروں کی شدت کو دیکھ کر 8 اگست کو لبنان کے وزیر اعظم حسن دیاب نے اپنی ٹی وی تقریر میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرانے کی بھی پیشکش کی تھی، لیکن احتجاج بدستور جاری ہے.
اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے پارلیمان میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی، لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے آنسو گیس کے شیل پھینک کر انہیں منتشر کر دیا۔ اس موقعے پر احتجاجی مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں ڈھائی سو سے زائد افراد زخمی جب کہ پولیس کا ایک اہلکار ہلاک ہوا۔
دھماکے کے بعد لبنان کے لوگ پہلے صدمے اور پھر غصے سے بھر گئے ہیں، ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں. صدر میشال عون اور حکومتی ارکان کی تصویروں کو نظر آتش کیا جا رہا ہے. جگہ جگہ "بیروت، انقلاب کا دارلخلافہ” کے پوسٹر لگے ہوئے ہیں. لبنان کی وزارت خارجہ کے آفس پر قبضے کے بعد مظاہرین کا کہنا ہے کہ اب ہم اس عمارت کو انقلاب کا مرکز بنائیں گے.
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد، بدتر معاشی حالات کے شکار لبنان میں حکومت کی کرپشن اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے تنگ عوام بھی اب آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے ہیں. اگرچہ عوام میں کئی طرح کی تقسیم موجود ہے لیکن اس کے باوجود وہ بدعنوان اشرافیہ کے خلاف سب کے خیالات یکساں ہیں.
باسل کے مطابق دھماکے کی وجوہات کے بارے میں بھی دو آرا پائی جاتی ہیں، ”کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ دھماکا بیرونی قوتوں نے کروایا، جب کہ کچھ مانتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں کی لاپرواہی اس تباہی کی وجہ بنی۔ لیکن موجودہ مظاہروں سے ایک چیز واضح ہے کہ اب وہ سیاست دانوں کی تقریروں پر اعتماد نہ کرنے کے بارے میں متحد ہیں۔‘‘
عوام اس حد تک متنفر ہو چکے ہیں کہ انہوں نے دھماکوں کے بعد ایک آن لائن پٹیشن میں کے ذریعے فرانس سے مطالبہ کیا کہ وہ لبنان کو دوبارہ اپنے انتظام میں لے لے. واضح رہے کہ دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں 25 سال تک لبنان پر فرانس کا قبضہ تھا. اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانس کے صدر حالیہ بیروت دھماکوں کے بعد لبنان پہنچنے والے پہلے غیر ملکی رہنما بھی تھے۔ صدر ماکروں نے لبنانی عوام کو "نئے سیاسی منظر نامے‘” کے بارے میں لبنانی حکمرانوں سے بات کرنے کا یقین دلایا ہے۔
دوسری جانب بیروت میں امونیم نائٹریٹ کی بڑی مقدار پھٹنے سے ہونے والے دھماکے کی شدت کی وجہ سے ماہرین اسے ایک بڑا دھماکا کہنے کی بجائے ایک چھوٹا ایٹمی دھماکا کہہ رہے ہیں. دھماکے کی جگہ پر 141 فٹ گہرا گڑا پڑ گیا تھا، جب کہ آس پاس کا علاقہ بھی کھنڈر بن گیا تھا.