حقیقت کا روپ دھار کر جکڑ لینے والی وہم کی زنجیر، جس کا توڑ سائنس کے پاس بھی نہیں!

یہ 1967 کی بات ہے، جب سنگاپور میں ایک انوکھے خوف نے ہزاروں مردوں کو گھیر لیا۔ افواہ پھیل گئی کہ ایک پراسرار بیماری کی وجہ سے ان کا عضو تناسل سکڑ رہا ہے اور یہ حالت ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی ڈر تھا کہ ان کا عضو تناسل ٹوٹ کر ان کے جسم سے الگ بھی ہو سکتا ہے۔ ملک بھر میں بے چینی پھیل گئی اور مردوں نے کپڑوں اور ربڑ بینڈ سے اپنے عضو کو باندھنا شروع کر دیا۔

علاج کے متلاشی لوگ جڑی بوٹیوں سے لے کر روایتی ڈاکٹروں تک ہر دروازے پر پہنچے۔ ڈاکٹروں کی تو جیسے عید ہو گئی، روایتی ادویات کے ساتھ ساتھ قدرتی علاج کے مشورے دینے والوں نے خوب پیسے بٹورے۔ دوسری جانب حکومت نے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے خوب وضاحتیں کیں کہ یہ معاملہ نفسیاتی خوف سے زیادہ کچھ نہیں، لیکن نفسیاتی طوفان تھا، کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔

یہ بیماری، جسے ’کورو‘ کہا جاتا ہے، کوئی نیا معاملہ نہیں، اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر چین تک اس کا خوف صدیوں سے موجود رہا ہے۔ عضو تناسل کھو جانے کے خوف پر مبنی یہ عارضہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ عام ہے اور دنیا بھر کی ثقافتوں میں تسلسل کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اس کا نام کچھوے کے رویے سے لیا گیا، جو خطرہ محسوس کر کے اپنا سر خول میں چھپا لیتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ 2015 میں انڈیا میں پیش آیا، جب درجنوں مرد اور خواتین یہ سمجھنے لگے کہ ان کے جسم کے حصے غائب ہو رہے ہیں۔ خواتین اس خوف کا شکار ہو گئیں کہ ان کے پستان جسم کے اندر دھنس رہے ہیں۔

انسانی ذہن اور معاشرتی نفسیات کے پیچیدہ امتزاج سے جنم لینے والی کچھ حیرت انگیز نفسیاتی بیماریاں دنیا کے مختلف خطوں میں مخصوص ثقافتی سیاق و سباق میں ابھرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہیٹی کے ایک علاقے میں لوگوں کو "زیادہ سوچنے” کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے، گویا ان کا ذہن خیالات کے طوفان میں الجھ کر خود کو آزاد کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہو۔

اسی طرح جنوبی کوریا میں ایک منفرد بیماری دیکھنے میں آتی ہے جس میں لوگ اپنے ساتھ ہونے والے غیر منصفانہ سلوک کو اندر ہی اندر دباتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ یہ جذبات جسمانی علامات کی صورت میں دھماکے کی طرح ظاہر ہوتے ہیں، جیسے جسم میں جلنے کا شدید احساس۔ ہر سال کم از کم 10 ہزار افراد اس عارضے کا شکار ہوتے ہیں، جن میں زیادہ تر بڑی عمر کی شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔

یہ نفسیاتی بیماریاں محض ذہنی مسائل نہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی دباؤ کا آئینہ بھی ہیں۔ بعض صورتوں میں، یہ اثرات خطرناک حد تک شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’کورو‘ نامی بیماری میں مبتلا مرد اپنے عضو تناسل کے سکڑ جانے یا کھو جانے کے خوف میں مبتلا ہو کر خود کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ایسی بیماریاں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو چکی ہیں، جب کہ کچھ نئی جگہوں پر جنم لے رہی ہیں۔ یہ پراسرار بیماریاں کہاں سے آتی ہیں؟ یہ سوال طویل عرصے تک ماہرین کے لیے معمہ رہا، لیکن اب جدید تحقیق نے انسانی ذہن اور ثقافتی اثرات کے اس گہرے تعلق کو بہتر طور پر سمجھنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

 ’کورو‘ کا نفسیاتی، طبی اور سائنسی تجزیہ

● نفسیاتی تجزیہ:
’کورو‘ کو ثقافتی-نفسیاتی سنڈروم (Culture-Bound Syndrome) کے طور پر جانا جاتا ہے، جو مخصوص ثقافتوں اور معاشرتی عقائد سے جڑی ہوئی نفسیاتی حالت ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر سومیٹوفارم ڈس آرڈر (Somatoform Disorder) کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جس میں جسمانی علامات کی کوئی طبی وجہ نہیں ہوتی لیکن مریض شدید جسمانی پریشانی کا شکار ہوتا ہے۔

ماہر نفسیات آرتھر کلین مین کی تحقیق کے مطابق، ’کورو‘ خوف کی پیداوار ہے، جو جنسی اعضاء کے سکڑنے کے خیالی خطرے سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے ثقافتی عقائد، جن میں جنسی اعضاء کی اہمیت اور مردانگی کا تصور مرکزی حیثیت رکھتا ہے، مریضوں میں شدید اضطراب اور خود کو محفوظ کرنے کے عجیب و غریب اقدامات کی وجہ بنتے ہیں۔

● طبی تجزیہ:
طبی نقطۂ نظر سے، ’کورو‘ کوئی جسمانی بیماری نہیں بلکہ سائیکوجینک ایپیڈمک (Psychogenic Epidemic) ہے۔ خوف کی یہ لہر ماس ہسٹیریا (Mass Hysteria) کی ایک کلاسیکی مثال ہے، جس میں بے بنیاد خوف بڑے پیمانے پر پھیل جاتا ہے۔ متاثرین کی علامات میں عضو تناسل یا پستان کے سکڑنے کا وہم، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، گھبراہٹ اور سانس کا پھولنا شامل ہیں۔

طبی ماہرین نے کئی واقعات کا تجزیہ کیا ہے، جن میں متاثرین کو نفسیاتی مشاورت سے ٹھیک کیا جا سکا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ علامات جسمانی نہیں، بلکہ نفسیاتی ہیں۔

● سائنسی تجزیہ:
سائنسی تحقیق کے مطابق، ایسے عقائد سماجی نفسیات (Social Psychology) کے تحت پھیلتے ہیں، خاص طور پر جب لوگ معاشرتی دباؤ اور خوف کا شکار ہوں۔ ماہرین کے مطابق، کمیونیکیشن تھیوری کے تحت افواہیں اور کہانیاں بے بنیاد عقائد کو مضبوط کرتی ہیں، جس سے ایک گروہی ردعمل جنم لیتا ہے۔

یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ‘کورو’ جیسے امراض ثقافت، عقائد اور سماجی ماحول کی نفسیاتی اور سائنسی سمجھ بوجھ کے بغیر نہیں سمجھے جا سکتے۔ اس کی جڑیں انسانی ذہن اور سماجی زندگی کی پیچیدگیوں میں پیوست ہیں۔

نفسیاتی خوف کے یہ عجیب و غریب مظاہر نہ صرف تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ آج بھی کئی خطوں میں نظر آتے ہیں، جہاں وہم اور حقیقت کے درمیان کی لکیر دھندلا جاتی ہے۔ کیا یہ بیماریاں کبھی مکمل طور پر ختم ہو سکیں گی؟ شاید نہیں، کیونکہ انسانی ذہن کی گہرائیوں میں چھپے خوف ہمیشہ نئے روپ میں سامنے آ سکتے ہیں۔

نیوراستھینیا: جب مغرب کا اسٹریس مشرق کا مرض بن گیا

انیسویں صدی کا زمانہ تھا، جب انڈسٹریل انقلاب کی تیز رفتار زندگی نے مغربی دنیا کو تھکاوٹ اور ذہنی دباؤ کے ایک نئے عذاب سے روشناس کرایا: نیوراستھینیا۔۔ امریکی نیورولوجسٹ جارج ملر نے اسے ’اعصابی نظام کی تھکن‘ قرار دیا، جس کی علامات میں سر درد، کمزوری اور بے چینی شامل تھیں۔

انیسویں صدی میں نیوراستھینیا کی دریافت صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی و معاشی حالات کا عکس ہے۔ جارج ملر کے مطابق، یہ بیماری مشینی زندگی کی بڑھتی ہوئی رفتار کا نتیجہ تھی، جہاں افراد تیز رفتار ترقی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے میں ناکام ہو رہے تھے۔ یہ حالت معاشرتی دباؤ، تنہائی اور روزمرہ کی مشکلات کا نتیجہ سمجھی گئی، جو انگریزی معاشرے کی صنعتی ترقی کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔

کیون آہو امریکہ کی فلوریڈا گلف کوسٹ یونیورسٹی سے منسلک ہیں جنھوں نے اس بیماری کی تاریخ پر کافی کام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مشہور ناول نگار مارسل پروسٹ میں اس بیماری کا انکشاف ہوا تو یہ کافی مشہور ہوئی۔

یہ بیماری صرف ایک طبی مسئلہ نہیں رہی بلکہ مغرب سے نکل کر دنیا کی یورپی نوآبادیاتی کالونیوں میں ایک ’ماڈرن عارضہ‘ بن گئی۔ انگریز افسران اور ان کی بیویاں اپنی نوآبادیاتی زندگی کی اجنبیت اور وطن کی یاد کو اس بیماری کی وجہ سمجھنے لگے۔ 1913 کے ایک سروے کے مطابق یہ بیماری انڈیا، سری لنکا، چین اور جاپان کے سفید فام باشندوں میں بہت عام تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب میں جب یہ بیماری نفسیاتی مسائل سے جوڑ کر فراموش کر دی گئی، تب تک ایشیا کے کئی حصوں میں یہ ایک سماجی حقیقت بن چکی تھی۔ چین میں، آج بھی لوگ ذہنی دباؤ (ڈپریشن) کے بجائے نیوراستھینیا کا حوالہ دیتے ہیں۔

2018 کے ایک سروے کے مطابق، چین میں 15 فیصد سے زیادہ لوگوں نے نیوراستھینیا کو اپنی بیماری بتایا، جبکہ صرف پانچ فیصد نے ڈپریشن کا لفظ استعمال کیا۔ یہ حیرت انگیز مثال دکھاتی ہے کہ کس طرح ثقافتی اور سماجی حالات ایک طبی اصطلاح کو بقا کا نیا مطلب دے سکتے ہیں۔

نیوراستھینیا کا تجزیہ

● نفسیاتی تجزیہ:
نفسیاتی طور پر، نیوراستھینیا اسٹریس ڈس آرڈر اور سومیٹوفارم ڈس آرڈر جیسی جدید اصطلاحات سے جڑتی ہے۔ یہ بیماری ایک ایسی حالت کی نمائندگی کرتی ہے جہاں ذہنی دباؤ کو جسمانی علامات کی شکل میں محسوس کیا جاتا ہے۔ سر درد، کمزوری، اور بے چینی جیسے مسائل درحقیقت سائیکو سومیٹک ری ایکشنز (Psychosomatic Reactions) ہیں، جن کا محرک بنیادی طور پر نفسیاتی پریشانی ہوتی ہے۔

● ثقافتی اور سماجی اثرات:
نیوراستھینیا کا مغربی دنیا سے ایشیائی نوآبادیاتی کالونیوں میں پھیلنا ثقافتی استعمار (Cultural Imperialism) کی ایک مثال ہے۔ نوآبادیاتی افسران نے اپنی اجنبیت اور ذہنی دباؤ کو نیوراستھینیا سے جوڑ کر ایک نفسیاتی وضاحت تلاش کی۔ یہ بیماری جلد ہی مغربی ثقافت کی ایک سماجی حقیقت کے طور پر نوآبادیاتی دنیا میں سرایت کر گئی۔

● موجودہ دور کا تناظر:
آج بھی چین میں نیوراستھینیا کی اصطلاح ذہنی دباؤ کی جگہ استعمال کی جاتی ہے، جو کہ ثقافتی شناخت اور زبان کے کردار کی عکاسی کرتی ہے۔ 2018 کے سروے کے مطابق، چین کے 15 فیصد افراد نے اپنی بیماری کو نیوراستھینیا قرار دیا، جبکہ صرف 5 فیصد نے ڈپریشن کا ذکر کیا۔ یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ معاشرتی دباؤ کی تفہیم اور اظہار ثقافتی لینز (Cultural Lens) کے ذریعے کی جاتی ہے، جہاں بیماری کی وضاحت اور قبولیت کا انداز مختلف ہوتا ہے۔

یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ نیوراستھینیا نہ صرف ایک طبی اصطلاح تھی بلکہ ایک ثقافتی اور سماجی مظہر بھی، جو معاشرتی تبدیلیوں اور ذہنی صحت کے عالمی تصورات کے ارتقاء کو نمایاں کرتی ہے۔

ذہن اور جسم کا رشتہ: خوف کی طاقت اور ثقافتی اثرات

دنیا بھر میں ذہنی دباؤ اور پریشانی جیسے مسائل مشترک ہیں، لیکن مختلف معاشروں میں ان کی وضاحت اور اظہار کا انداز بدل جاتا ہے۔ وکٹورین دور کی ایک بیوہ شوہر کی موت پر ’کمزوری‘ کی شکایت کرتی، جبکہ آج کی عورت ’ڈپریشن‘ کا ذکر کرے گی۔ چین میں شاید یہی عورت کہے کہ اسے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔

مذہبی دنیا میں جنات کا تصور عام ہے، جہاں غیر معمولی رویے یا نفسیاتی مسائل کو اکثر مافوق الفطرت قوتوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ماہر نفسیات شہزادہ نواز کہتے ہیں کہ ان کے بہت سے مریض جنات کے وجود پر پختہ یقین رکھتے ہیں، اور ان کی ذہنی حالت کو اسی عقیدے سے جوڑا جاتا ہے۔

مشرقی لندن میں 30 بنگلہ دیشی مریضوں پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ اگرچہ ان افراد کو شزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسے امراض تھے تاہم ان کے اہلخانہ کا ماننا تھا کہ ان پر جن حاوی ہیں۔

یہ ثقافتی نظریات صرف خیالات تک محدود نہیں رہتے بلکہ جسمانی اثرات بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں پریشانی ذہنی دباؤ کے طور پر ظاہر ہوتی ہے، جس کی علامات دکھ، غصے اور ہیجان ہیں۔ جبکہ چین، ایتھوپیا اور چلی جیسے ممالک میں یہ جسمانی درد میں بدل جاتی ہے۔

کئی سال سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ہمارے خیالات کا ہمارے احساسات پر طاقتور اثر ہوتا ہے حتی کہ ہمارے جسم پر بھی۔ اس کی ایک مثال ‘ووڈو موت’ ہے جس میں خوف کی وجہ سے اچانک موت ہو سکتی ہے۔

اس کی ایک چونکا دینے والی مثال نیوزی لینڈ سے آتی ہے، جہاں ایک عورت نے ممنوعہ جگہ سے پھل کھانے کی غلطی کی اور یہ اعلان کیا کہ اسے اس کی سزا ملے گی اور نتیجتاً وہ مر جائے گی۔ حیران کن طور پر، اگلے دن وہ واقعی انتقال کر گئی۔

کیا خوف یا عقیدہ واقعی موت کا سبب بن سکتا ہے؟ سائنسی طور پر یہ ثابت کرنا مشکل ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ انسانی سوچ اور احساسات ہمارے جسم پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، جنہیں کبھی کبھی سائنس بھی پوری طرح نہیں سمجھ پاتی۔

ہوا کا قیدی: خوف جو حقیقت بن جائے

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی نفسیاتی اینتھروپولوجسٹ بونی کیسر ایک عجیب و غریب بیماری کا ذکر کرتی ہیں، جو کمبوڈیا کے پناہ گزینوں میں دیکھی گئی ہے: ’کیول گویو‘ ۔ یہ بیماری کسی جراثیم یا وائرس کا نتیجہ نہیں، بلکہ عقیدے اور خوف کا امتزاج ہے۔

کمبوڈین عقیدے کے مطابق جسم میں ہوا کے نادیدہ راستے ہیں جو بند ہو جائیں تو جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہوا کا دباؤ بڑھنے سے مریض کو لگتا ہے کہ وہ کسی عضو سے محروم ہو سکتا ہے یا موت کے قریب ہے۔ ایک امریکی کلینک میں ہونے والی تحقیق میں 100 کمبوڈین مریضوں میں سے 36 نے یہی خوفناک تجربہ بیان کیا۔

بیماری کی ابتدا عام غنودگی سے ہوتی ہے، لیکن جب مریض اسے ’کیول گویو‘ کا آغاز سمجھتے ہیں تو خوف ان پر حاوی ہو جاتا ہے۔ وہ بولنے اور حرکت کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں، اور ان کے اہل خانہ انہیں زندہ رکھنے کے لیے عجیب و غریب اقدامات کرتے ہیں، جیسے مالش کرنا یا ٹخنوں کو کاٹنا۔

بونی کیسر کے مطابق، یہ عقیدہ جسمانی احساسات کو کس طرح بدل دیتا ہے، حیران کن ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”زیادہ تر لوگ معمولی غنودگی کو نظرانداز کر دیتے ہیں، لیکن اگر کوئی اسے کیول گویو کے آغاز کی علامت سمجھتا ہے تو سوچتا ہے کہ کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔ پھر وہ پریشان ہو جاتا ہیں اور یوں سب کچھ بدل جاتا ہے۔“

یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسانی ذہن اور ثقافت کا امتزاج جسمانی تجربات کو کیسے شکل دے سکتا ہے، کبھی خوف کو موت کی دہلیز تک لے جا کر۔

وہ کہتی ہیں ”حقیقت میں بہت سی نفسیاتی بیماریوں میں لوگوں کے جسمانی تجربے میں فرق ہوتا ہے اور ان کے ثقافتی تجربے ہی یہ طے کرتے ہیں کہ وہ اس سے کیسے نمٹیں گے۔“

’کیول گویو‘: عقیدے اور خوف کا تجزیہ

’کیول گویو‘ جیسی بیماریوں کا تجزیہ سائیکو سومیٹک میڈیسن (Psychosomatic Medicine) اور ثقافتی نفسیاتی اینتھروپولوجی (Cultural Psychiatric Anthropology) کے دائرے میں آتا ہے۔ یہ بیماری ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح عقیدے، ثقافت، اور ذہنی حالت جسمانی تجربات کو تشکیل دے سکتے ہیں۔

● ثقافتی عقائد کا کردار:
کمبوڈین معاشرے میں جسم کے اندر ہوا کے راستوں کے بند ہونے کا عقیدہ ایک گہرے ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ اعتقاد کہ ہوا کا دباؤ جان لیوا ہو سکتا ہے، مریضوں کو نہ صرف جسمانی علامات محسوس کراتا ہے بلکہ ان کی حالت کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ ثقافتی تعینات بیماریوں (Culturally Bound Syndromes) کے زمرے میں ’کیول گویو‘ کا شمار کیا جا سکتا ہے، جہاں بیماری کی وضاحت اور تجربہ ثقافتی پس منظر سے جڑا ہوتا ہے۔

● نفسیاتی تجزیہ:
’کیول گویو‘ ایک نفسیاتی ڈس آرڈر کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو پینک ڈس آرڈر اور ہسٹیریا جیسی کیفیات سے ملتا جلتا ہے۔ جب ایک عام جسمانی علامت جیسے غنودگی یا کمزوری کو زندگی کے خاتمے کی علامت سمجھ لیا جائے تو نہایت شدید اضطراب پیدا ہو سکتا ہے، جسے نفسیاتی خوف کی جسمانی تشکیل کہا جاتا ہے۔

● اجتماعی خوف کا اثر:
اجتماعی خوف کا پھیلاؤ اس بیماری کا ایک اہم پہلو ہے۔ جب پورے معاشرے میں ایک خوف جڑ پکڑ لے تو یہ اجتماعی نفسیاتی مظہر (Mass Psychogenic Illness) بن سکتا ہے۔ امریکی کلینک میں 36 مریضوں کا ایک جیسے تجربات بیان کرنا اجتماعی ذہنیت کے اثر کو نمایاں کرتا ہے، جہاں ایک ثقافتی تصور ذاتی تجربے میں ڈھل جاتا ہے۔

● بقا کے عجیب طریقے:
اہل خانہ کے طرف سے مریض کی مالش کرنا یا ٹخنوں کو کاٹنا ان کے روایتی علاج کا حصہ ہے، جو ممکنہ طور پر پلیسبو ایفیکٹ (Placebo Effect) کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ مریض کے ذہن میں یہ یقین کہ ان پر کیے گئے اقدامات مؤثر ہیں، ان کی حالت بہتر بنا سکتا ہے۔

’کیول گویو‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ ذہن اور جسم کی باہمی تاثیر کس قدر پیچیدہ اور طاقتور ہو سکتی ہے۔ بونی کیسر کی تحقیق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عقیدے، خوف، اور ثقافت کا امتزاج جسمانی تجربات کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ خطرناک یا جان لیوا محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ واقعہ طبی ماہرین اور نفسیاتی محققین کے لیے انسانی نفسیات کی غیر مرئی حدود کو سمجھنے کا ایک اہم حوالہ فراہم کرتا ہے۔

نفسیاتی امراض کا مغربی چشمہ: کیا ذہنی بیماریاں بھی ثقافتی پیداوار ہیں؟

ماہرین نفسیات اب سوال اٹھاتے ہیں: کیا چند مغربی ذہنی امراض بھی ثقافتی تخلیقات ہیں؟ جیسے شیزوفرینیا پوری دنیا میں عام ہے، لیکن بولیمیا مشرق میں شاذ و نادر ہی پایا جاتا ہے۔ چین، ہانگ کانگ اور بھارت میں پری مینسچورل سنڈروم تقریباً غیر معروف ہے۔

کچھ ماہرین کا متنازعہ مؤقف ہے کہ ڈپریشن دراصل انگریزی بولنے والی دنیا کی ’تخلیق‘ ہے، جہاں ہر وقت خوش رہنے کی توقع معاشرتی اصول بن چکی ہے۔ یہ تصور کہ ہر حالت کا کوئی لیبل ہونا چاہیے، مغرب کے ثقافتی اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

ماہر نفسیات کیون آہو کہتے ہیں، ”ہم نفسیاتی امراض کو تاریخی اور معاشرتی تناظر میں نہیں دیکھتے۔“ وہ زور دیتے ہیں کہ ایک جیسا علاج سب کے لیے مؤثر نہیں ہو سکتا اور ثقافتی حساسیت سائیکوتھراپی کو بہتر بنا سکتی ہے۔

ایتھن واٹرز نے اپنی کتاب ’کریزی لائیک اس‘ میں لکھا کہ گزشتہ دہائیوں میں ذہنی امراض کو امریکی انداز میں ڈھال دیا گیا ہے۔ لوگ اب ہر جذباتی تجربے کو ڈپریشن یا بے چینی جیسے لیبلز میں قید کرنے لگے ہیں۔

یہ رجحان نہ صرف امراض کی درست تشخیص میں رکاوٹ بن سکتا ہے بلکہ ہمیں ان بیماریوں کی جڑوں کو سمجھنے کا قیمتی موقع بھی کھو دینے کا خطرہ لاحق ہے۔ انسانی ذہن کی پیچیدگی شاید صرف دوا یا علاج سے نہیں، بلکہ ثقافتی سمجھ بوجھ سے بھی کھل سکتی ہے۔

امر گل

حوالہ جات:

1. Kleinman, A. (1980). Patients and Healers in the Context of Culture.

2. Simons, R. C., & Hughes, C. C. (1985). The Culture-Bound Syndromes: Folk Illnesses of Psychiatric and Anthropological Interest.

3. Barrett, R. J. (1996). The Psychiatric Team and the Social Definition of Schizophrenia.

4. Foucault, M. (1973). The Birth of the Clinic: An Archaeology of Medical Perception.

5. Shorter, E. (1992). From Paralysis to Fatigue: A History of Psychosomatic Illness in the Modern Era.

6. Prince, R. (1968). The ‘Culture-Bound Syndromes’: An Overview.

7. Becker, A. E. (1995). Body, Self, and Society: The View from Fiji.

8. BBC Urdu

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close