’سات بار ناپیں، ایک بار کاٹیں‘ ، ایک مشہور روسی کہاوت ہے۔ کیوں کہ اگر غلطی ہو جائے تو اس کا سدباب ممکن نہیں، دوسرے لفظوں میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہر طرح سے سوچ لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ صحیح عمل کر رہے ہیں۔۔۔ مگر لڑکے؟ کیا بے صبرے لڑکے یہ کرتے ہیں؟
ایک دن ’پیٹرچو‘ نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ اسے کہاں اور کیسے جانا ہے؟ وہ نہیں جانتا تھا۔ وہ اپنے وفادار کتے ’شارکو‘ کو اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتا تھا۔ کیوں کہ شارکو پوچھتا رہتا تھا: ”پیٹرچو! تم کہاں جا رہے ہو؟ تم کب واپس آؤ گے؟ تمہاری جیب میں کیا ہے؟“
یہ وہی باتیں تھیں جو پیٹرچو برداشت نہیں کرتا تھا۔ یہ بتانا کہ وہ کہاں جا رہا ہے، وہ کیا کر رہا ہے اور کب واپس آئے گا؟ وہ بلی کو بھی اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ بلی نے بھی پوچھنا تھا: ”کیا تم نے منہ دھویا ہے؟ کیا یہ سونے کا وقت نہیں ہے؟ اور اسکول۔۔۔؟“ وغیرہ وغیرہ۔
جیسے ہی پیٹرچو نے بیرونی دروازہ کھولنا چاہا، بلی اچانک کہیں سے نمودار ہوئی اور بولی، ”پیٹرچو! تم کہاں جا رہے ہو؟“
”دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کرو۔ اٹاری میں جاؤ اور چوہوں پر نظر رکھو۔“
”میں وہاں چوہوں کو نہیں بلکہ ستاروں کو دیکھنے جاتی ہوں۔ خیر یہ بتاؤ، کیا تم نے کوئی خط چھوڑا ہے؟“ بلی نے پوچھا۔
”کیسا خط؟“پیٹرچو نے حیرت سے پوچھا۔
”الوداعی خط، گھر سے بھاگنے والے ہر لڑکے کو الوداعی خط چھوڑنا چاہیے۔“
وہ ایک پڑھی لکھی بلی تھی۔ اسکول، گھر کے ساتھ ہی واقع تھا۔ وہ روزانہ بالکونی میں لیٹ کر دھوپ میں نہاتے ہوئے ایک آنکھ سے جماعت کی طرف دیکھتی رہتی تھی۔ وہ لکھنا بھی جانتی تھی۔ اگرچہ لکھائی ایسی نہ تھی جو آسانی سے پڑھی جاتی، لیکن میں نے اکثر اس سے بدتر لکھائی بھی دیکھی ہے۔ وہ بھی بلی کی نہیں، بلکہ بچوں کی۔
”پیٹرچو! تم اپنے والدین کا گھر الوداعی خط کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کے علاوہ دن کی روشنی میں تم کو پکڑ لیا جائے گا، کیوں کہ تمہارے پاس شناخت نامہ نہیں ہے، کم از کم اندھیرا ہونے تک انتظار کرو۔ یوں کرو اٹاری میں چھپ جاؤ۔“ بلی نے کہا۔
آخر پیٹرچو مان گیا۔ وہ چور اور ایک آنکھ والے قزاق کی طرح گرفتار ہونا نہیں چاہتا تھا۔ علاوہ ازیں اٹاری میں بغیر کسی مداخلت کے آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ کس شہر یا ملک میں جانا ہے، جہاں صرف کھلونے اور کھیل ہوں۔۔۔ اٹاری میں خاموشی اور اندھیرا تھا۔ وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا اور شام ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
جیسا کہ وہ کہتے ہیں، ایک خاص وقت گزر گیا، بلکہ نامعلوم وقت کیونکہ اٹاری میں کوئی گھڑی نہیں تھی، اچانک کسی کی آواز آئی: ”یہاں کون ہے؟“
”میں پیٹرچو ہوں۔ میں سفر پر نکلنے والا ہوں۔“
”مسافر! مجھے میرے گھر میں پریشان مت کرو۔“ آواز نے کہا۔
”تمہارے گھر میں؟“ لڑکا ناراضی سے بولا، ”یہ میرا گھر ہے۔ میں اس کا قانونی وارث ہوں۔ میرا خاندان یہاں سو سال سے رہ رہا ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے کہ مجھے یہاں سے بھگائے۔“
”قانونی وارث؟ اور تم!؟ آہ بدقسمت گھرانہ، جہاں ایسا بیٹا پروان چڑھا ہے جو باپ کا گھر چھوڑ رہا ہے۔“
”کون مجھ سے اس لہجے میں بات کر رہا ہے؟“ پیٹرچو دھمکی آمیز انداز میں چلّایا، ”اٹاری کا چوہا یا کوئی اور؟ ذرا سامنے آؤ! میں تم کو دیکھنا چاہتا ہوں۔“
”میں ماضی ہوں۔“ کسی نے جواب دیا، ”میں کسی کو نظر نہیں آتا۔ ایک شخص ماضی کا تصور کر سکتا ہے، لیکن وہ مجھے دیکھ نہیں سکتا۔ ماضی کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔۔ نامعلوم راہ کے مسافر! ماضی کی آواز صبح تک تم سے بات کرتی، لیکن تم اس کے مستحق نہیں ہو۔“
پیٹرچو نے پہلی بار ماضی کی آواز سنی تھی۔۔۔؟ نہیں، پہلی بار نہیں۔۔۔ فالن فائٹرز ڈے پر وہ مشعل بردار جلوس دیکھنے کے لیے گیا تھا، جہاں ایک بلند اور اداس آواز ہیروز کے نام پکار رہی تھی۔۔۔ وہ ماضی کی آواز تھی۔
پھر ایک بے لوث اور خوش کن آواز نے پیٹرچو کو چونکا دیا، ” تم کون ہو؟“ اس نے پوچھا۔
”میں مستقبل ہوں۔“
”تم یہاں ماضی کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟“
”اوہ پیارے پیٹرچو! کیا مستقبل آخر ماضی نہیں بن جاتا؟ ہم پرانے دوست ہیں۔“
”مجھے اس سے پوچھنا چاہیے۔“ اس نے خود کلامی کی، ”روشن مستقبل! میں تم سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ تمہارا کیا خیال ہے، مجھے گھر چھوڑ دینا چاہیے؟“
”اوہ، مجھے ایسے سوالوں کے جواب دینے کا اختیار نہیں۔ ہر کوئی اپنے مستقبل کا خود ذمہ دار ہے۔ ہر ایک کو اپنی خوشی خود کمانی ہے۔ یہ ریاضی کی طرح ہے۔ وہ آپ کو ایک مسئلہ دیتے ہیں، اور آپ اسے حل کرتے ہیں۔ اگر آپ غلطی کریں تو آپ کو برے نمبر ملتے ہیں۔ شاید ماضی آپ کو مشورہ دے سکے؟“
”شاندار ماضی! مجھے مشورہ درکار ہے۔“ لڑکا بولا۔
”میں مشورہ نہیں دیتا۔“ ماضی نے جواب دیا، ”میں صرف کہانیاں سناتا ہوں۔ بس جو چاہے، ان سے سبق حاصل کرے۔“
وقت گزرتا رہا۔ جوں ہی سورج غروب ہوا، تاریکی اور اداسی بڑھ گئی۔ پھر کوئی رونے لگا۔
”کون ہے جو اندھیرے میں رو رہا ہے؟“ پیٹرچو نے پوچھا۔
”میں، اداس الّو ہوں۔“
”تم کیوں رو رہے ہو؟“
”مجھے اپنے گھر کی یاد آ رہی ہے۔“
”تمہارے گھر کو کیا ہوا؟ کیا وہ جل کر تباہ ہو گیا؟ اسے کس نے آگ لگائی؟“
”نہیں نہیں۔۔۔ میں نے بہت عرصے پہلے گھر چھوڑ دیا تھا، تب سے میں دکھ اٹھا رہا ہوں۔ ایک مسلسل یاد ہے، ایک ماضی کا عارضہ۔۔ میں سو سال سے اپنے گھر کی تلاش میں ہوں۔ ہر جگہ جاتا ہوں۔ ہر درز اور شگاف کو دیکھتا ہوں۔۔ مگر افسوس وہ مجھے ابھی تک نہیں ملا۔۔ لیکن میں ناامید نہیں ہوں۔“ الو رنجیدہ ہو کر بولا۔
”سنو! کیا دن میں گھر تلاش کرنا بہتر نہیں؟ رات کو سارے گھر ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ گلی اور مکان نمبر جاننے کے باوجود تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔“
”آہ۔۔۔ پیارے! میں دن کے وقت کسی کے سامنے نہیں آتا۔ میں شرمندہ ہوں، مجھ میں ہمت نہیں ہے۔۔۔ گھر سے بھاگنا شرم کی بات ہے۔ آپ ایک آسان زندگی چاہتے ہیں۔ ایک میگپی کی طرح، ایک جھوٹی چمک، خالی کینڈی ریپر کی طرح بہکاوا۔۔۔۔۔“
رات اور بھی گہری ہو گئی تھی۔۔۔ بلی ابھی تک نہیں آئی تھی۔ پیٹرچو کے پاس الوداعی خط لکھوانے والا کوئی نہیں تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ خط کیسے لکھنا ہے۔
جب شہر کے گھنٹہ گھر نے بارہ بجائے تو پیٹرچو نے گہری سانس لی اور بڑبڑایا، ”جانے کا وقت ہو گیا ہے۔“
اسی اثناء میں اُلّو نے زور سے چیخ ماری اور بولا: ”جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو میں غمزدہ ہو جاتا ہوں۔ میں اس وقت گھر سے بھاگا تھا۔ میں آج تک توبہ کرتا ہوں۔ بیٹا! رات کو کبھی مت نکلنا۔“
”عجیب معاملہ ہے۔ میرے پاس ایک اریزر (ربر) ہے۔ اگر کوئی غلطی ہو تو میں اسے اپنی نوٹ بک سے مٹا دیتا ہوں۔ اس پر ایک الّو بنا ہے۔ استانی کہتی ہیں کہ تم ایک عقلمند پرندے ہو۔ شاید انہوں نے تمہاری یہ کہانی نہیں سنی ہوگی۔“
”بیٹے! یہ عقل مجھ میں فوراً نہیں آئی، جب میں گھر سے بھاگا تو میں نے بے تحاشا احمقانہ حرکتیں کیں۔۔۔ میں بہت لاپروا پرندہ تھا۔ قدرت نے مجھے رنگ برنگے پنکھ کا تحفہ نہیں دیا تھا۔ میں رنگوں کی تلاش میں دنیا میں چلا گیا، مگر میں نے آرائشی پنکھ حاصل نہیں کیے، ہاں میں نے کھوئے ہوئے گھونسلے کے لیے ابدی آرزو ضرور حاصل کر لی۔ بعض اوقات عقل بہت مہنگی پڑتی ہے۔“
”کیا آپ مجھے گھر نہ چھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں یا اور کچھ؟“
”میں نے تم پر جادو کر دیا ہے۔“ الو بولا۔
پیٹرچو کونے میں بیٹھ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا، اچانک اٹاری کا دروازہ آہستہ سے کھڑکا اور پڑھی لکھی بلی اوپر آئی۔
”چوہے پکڑنے ہیں؟“ پیٹرچو نے پوچھا۔
لیکن بلی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی سے کھڑکی میں لگے ہوئے اسپائی گلاس کے قریب گئی اور اپنی نظریں آسمان پر جماتے ہوئے بڑبڑائی، ” ستارے۔۔۔ ستارے دیکھنے کا وقت آ گیا۔“
”زبردست!“ پیٹرچو بڑبڑایا، ”میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تم چوہے پکڑنے نہیں بلکہ ستارے گننے اٹاری پر جاتی ہو۔“
”کیا مجھے اپنی تیز نظروں سے سائنس کی خدمت نہیں کرنی چاہئے؟ بعض اوقات معمولی مخلوق بھی فطرت کے گہرے رازوں میں جھانکنے کے قابل ہوتی ہے۔“ بلی بولی۔
”میں نے آپ کو اپنا غم بتا دیا ہے۔“ الو بولا، ”میں التجا کرتا ہوں کہ رات کو فیصلے نہ کریں۔ صبح تک انتظار کریں۔ صبح، شام سے زیادہ روشن ہوتی ہے۔“
”میں ساری رات یہاں کیا کروں؟“ اس نے خود کلامی کی۔
”میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔“ ماضی کی آواز نے کہا، ”میں پرانی یادوں میں کھویا رہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ اس گھر میں ایک اور لڑکا بھی رہتا تھا۔ جب وہ سولہ سال کا ہوا تو اسے بھی ایک سفر درپیش ہوا۔ ایک صبح۔۔۔۔“
الو زور سے چیخا، ”آپ صرف صبح سفر پر نکل سکتے ہیں!“
”بہار کی ایک روشن صبح باپ نے اپنے بیٹے کو الوداع کہا۔ جنگلی گلِ شمعدانی کا ایک چھوٹا سا گچھا اچھی قسمت کے لیے لڑکے کی گرم ٹوپی پر باندھ دیا گیا تھا اور اس کے کندھے پر گھر میں بنا سوت کا ایک تھیلا لٹکا ہوا تھا۔۔۔“
”یہ پرانے زمانے کی بات ہے۔“ پیٹرچو نے مداخلت کی، ”آج کل گلِ شمعدانی اور ایک تھیلے کے ساتھ سڑک پر کون جاتا ہے؟ اب سفری بیگ اور سوٹ کیس ہیں، لیکن میرے لیے کچھ اور اہم ہے۔ کیا لڑکے پہلے بھی اپنے گھونسلے چھوڑ چکے ہیں؟“
”مجھے مت ٹوکو، مجھے یادوں پر توجہ مرکوز کرنے دو۔ اگر آپ پڑھنے جاتے ہیں تو والدین کا گھر چھوڑنا کوئی بری بات نہیں۔ کیا آپ بھی پڑھنے جا رہے ہیں؟“
”نہیں، یہ صرف پڑھائی سے بھاگ رہا ہے۔“ پڑھی لکھی بلی نے مداخلت کی۔
ماضی نے بات جاری رکھی، ”لڑکا سمندر کے پار سفر کر کے ایک دور دراز اور پُرہجوم شہر میں پہنچا اور ایک اچھے اور مشہور اسکول میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ بہت سے طالب علم، امیروں کے بچے بگڑ گئے ہیں۔ وہ شام کو گیس لیمپ کے نیچے بیٹھ کر تاش کھیلتے ہیں۔“
”آہ، میں سمجھ گیا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ یہ ان لڑکوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنے گھر سے بھاگ کر بری صحبت میں پڑ جاتے ہیں، وہ اپنے باپ کا پیسہ ضائع کرتے ہیں اور اکثر مر بھی جاتے ہیں۔ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں مت جاؤں۔“ پیٹرچو بولا۔
”صبر سے سنو۔۔۔ لیکن ہمارے لڑکے نے گیس لیمپ تلے بیٹھنے والوں سے دوستی نہیں کی۔ اس نے رات کو پڑھنے والوں سے دوستی کی جو لوگوں کے دکھ نہیں بھول سکتے تھے۔۔۔ جلد ہی لڑکے نے ضروری کتابیں خریدنے کے لیے اپنے گرم کپڑے بیچ دیے۔ پھر اس نے وطن کی آزادی کے لیے ایک بندوق خریدی۔ آپ سمجھ رہے ہیں؟ وہ ترک جوئے کے زمانہ تھا۔ لڑکا اپنے شہر واپس چلا آیا۔ اس نے محض بغاوت کا خواب نہیں دیکھا۔ بلکہ اس نے دوسروں کو تیار کیا، مگر ایک رات احمد آغا کی قیادت میں ترکوں نے غیر متوقع طور پر اس گھر کے دروازے پر دستک دی، جہاں اس کے دوست جمع تھے۔ لڑکے نے چپکے سے گلی کا جائزہ لیا اور پچھلے دروازے سے دوستوں کو پڑوسی کے صحن کے راستے باہر نکال دیا اور سرگوشی کی، ’دوڑ جاؤ۔‘ پھر وہ خود گھر میں آیا بیرونی دروازہ کھولا اور احمد آغا کو نشست گاہ میں لے آیا۔ وہ ایک بڑا کمرہ تھا جس کی چھت پر تصویر کشی کی گئی تھی۔ اس نے وقت گزارنے کے لیے گفتگو شروع کی، لیکن بھاپ اڑاتی کافی اور نہ ہی شائستہ گفتگو نے احمد آغا کو متاثر کیا۔ اس نے پستول نکال کر لڑکے کے سینے میں گولی مار دی۔“
”آہ بدقسمتی ہے۔ کیا ہمارا لڑکا مر گیا؟“ الو نے پوچھا۔
”نہیں، یہی اس کہانی کی سب سے اہم بات ہے۔“ ماضی نے کہا، ”احمد آغا کی گولی لڑکے کے سینے سے ٹکرائی اور واپس پلٹ کر دوسرے ترک کے بازو پر جا لگی۔ سب ترکوں کو خوف نے جکڑ لیا۔ ’خدا کی حکمت!‘ وہ چیخے۔ ’اللہ اس شخص پر گولی چلانے سے منع کرتا ہے۔‘ آپ جانتے ہیں۔ وہ توہم پرست ہوتے ہیں۔“
”اچھا، گولی واپس کیسے پلٹ گئی تھی؟” پیٹرچو نے پوچھا۔
”کیونکہ لڑکے کے سینے پر اپنے باپ کے گھر کی چابی لٹکی ہوئی تھی۔ آج بھی بچے اسی طرح چابیاں پہنتے ہیں، تاکہ وہ گم نہ ہوں۔۔ ایک چھوٹا لڑکا چھلانگ لگاتا ہے تو اس کی گردن کی چابی بھی چھلانگ لگاتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ چھپن چھپائی اور آنکھ مچولی کھیلتی ہے، وہ خاموشی سے بچے کے دل پر دستک دیتی ہے۔ اس کو یاد دلاتی ہے کہ اس کا اپنا گھر ہے۔۔۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے والد کے گھر کی چابی نے باغی کو بچایا۔ چابی ہر جگہ اس کے ساتھ تھی۔ اس نے سمندر پار کیا، پہاڑوں پر چڑھا اور آزادی کی جنگ لڑی۔“
”میں نے بھی ایک چابی، زنجیر میں پہنی ہوئی ہے، میرے دل کے بالکل قریب۔۔۔“ پیٹرچو نے سرگوشی کی۔
”وہ چابی تمہارے دل سے کیا کہتی ہے؟“ ماضی نے پوچھا۔
”کاش میں بھی گھر سے بھاگتے وقت چابی اپنے پاس رکھتا، لیکن پرندوں کے پاس چابی نہیں ہوتی۔ ان کے پاس صرف جبلت ہوتی ہے۔“ الو بولا۔
”دیر ہو گئی ہے۔“ پڑھی لکھی بلی نے کہا۔
”دیر نہیں ہوئی، ابھی سویر ہے۔“ الو چلایا، ”صبح ہو رہی ہے۔ اہم فیصلے صرف صبح ہوتے ہیں۔ تم نے کیا فیصلہ کیا پیارے لڑکے؟“
”میں ماضی کی کہانی سمجھ گیا ہوں۔ وہ نصیحت نہیں کرتا بلکہ انسان کو اپنی کہانی سے سکھاتا ہے۔ میں گھر میں رہوں گا، میں ماضی کے، مستقبل کے اور اپنے والد کے گھر کی چابی کے بارے میں سوچوں گا۔ آپ سب کو سلام!“ پیٹرچو نے کہا۔
لڑکے نے جس طرح سے جواب دیا۔ اس نے مجھے حیران نہیں کیا۔
’آپ کون ہیں؟‘ پیٹرچو جیسا کوئی بچہ پوچھے گا۔۔
”میں کہانیاں سناتا ہوں۔ کوئی ان کو بتائے۔ ان پریوں کی کہانی میں سب کچھ سچ ہوتا ہے اور اگر آپ میری رائے جاننا چاہتے ہیں تو اس کہانی میں مجھے پڑھی لکھی بلی کا کردار سب سے زیادہ پسند آیا۔ وہ کتنی سمجھداری سے پیٹرچو کو پرانے گھر کی اٹاری میں لے گئی۔ (تاکہ اسے سوچنے سمجھنے اور درست فیصلہ کرنے کا وقت مل جائے۔)