پاکستان اور بھارت میں بھی زلزلے کی پیش گوئی!! سائنس کیا کہتی ہے؟

ویب ڈیسک

عالمی ادارہِ صحت کے مطابق پچھلے بیس سالوں میں دنیا بھر میں قدرتی آفات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں آدھی تعداد وہ ہے، جو صرف زلزلوں میں لقمہ اجل بنی۔ لیکن اس سب کے باوجود نکتہِ عروج پر پہنچنے والی سائنس کے پاس ہنوز زلزلوں کی پیشگی اطلاع دینے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے
.
ترکیہ اور شام میں حالیہ ہولناک زلزلے میں پندرہ ہزار ہلاکتوں نے ایک بار پھر دنیا بھر میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے اور ہر طرف ایک ہی سوال زیر بحث ہے کہ زلزلوں کی پیشگی اطلاع دینے کا کوئی ایسا نظام ابھی تک وجود میں کیوں نہیں آ سکا ہے، جس سے قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ بدقسمتی سے پچھلے کئی عشروں کی تحقیق کے بعد بھی سائنسی ماہرین یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ابھی تک دنیا میں کوئی ایسا موثر نظام نہیں بن سکا ہے جس کے ذریعے کسی علاقے میں زلزلے کے آنے کی حتمی پیش گوئی کی جا سکے

ماہرینِ ارضیات کے مطابق پچھلے کچھ عرصے میں زیرِ زمین ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کو جاننے اور ان تبدیلیوں کی اطلاع لوگوں تک پہنچانے کے لئے جتنا بھی کام کیا گیا ہے، اس سے زلزلے کا شکار ہونے والے لوگوں کی جان بچانے میں کوئی خاص مدد نہیں مل سکی

ترکیہ اور شام میں آنے والے ہولناک زلزلے میں ہزاروں افراد ہلاک جب کہ کئی زخمی ہو گئے ہیں۔ زلزلے کے بعد ایک ڈچ سائنس دان توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جنہوں نے زلزلے سے چند روز قبل اس کی پیش گوئی کی تھی

نیدرلینڈز کے محقق فرینک ہوگربیٹس نے پاکستان اور بھارت میں بھی آئندہ چند روز میں زلزلے کی پیش گوئی کی ہے، جس پر دونوں ملکوں میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں

مذکورہ محقق نے پاکستان اور بھارت میں سمیت پورے ریجن میں بھی زلزلے کی پیش گوئی کی ہے، جس کے بعد دونوں ملکوں میں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق تاحال زلزلے کی پیش گوئی کرنے والا کوئی سائنسی طریقہ موجود نہیں ہے

ہوگربیٹس ماہرِ ارضیات نہیں ہیں بلکہ وہ سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر امکانات ظاہر کرتے ہیں کہ کس علاقہ میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آسکتی ہے

ہوگربیٹس کی جانب سے تین فروری کو کی گئی ایک ٹوئٹ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ جلد یا بدیر 7.5 شدت کا ایک زلزلہ اس خطے جنوبی و وسطی ترکیہ، اُردن، شام اور لبنان میں تباہی مچائے گا

اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آسمان میں سیاروں کا محلِ وقوع زلزلوں کی وجہ بن سکتا ہے

فرینک ہوگربیٹس جس ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے ساتھ وابستہ ہیں وہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر کچھ امکانات ظاہر کرتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔

ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق سولر سسٹم میں سیاروں کے ایک خاص پوزیشن پر آنے کے بعد زلزلے آتے ہیں جن کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے

منگل کے روز پاکستان کے ایوان بالا سے سینٹرز کے ایک وفد نے اسلام آباد میں واقع نیشنل سیسمک مانیٹرنگ سنٹر کا دورہ کیا اور پاکستان میں کسی ممکنہ زلزلے کا باعث بننے والی فالٹ لائنز کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس موقع پر سیسمک سنٹر کے سربراہ اور چیف سیسمالوجسٹ زاہد رفیع نے انہیں پاکستان میں زلزلے کے حوالے سے ہونے والی تحقیق سے آگاہ کیا

اس ملاقات کے بعد زاہد رفیع نے بتایا کہ پاکستان میں زلزلے آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ان کا امکان رہے گا لیکن سوشل میڈیا پر نیدرلینڈ کے ایک ریسرچر کے حوالے سے گردش کرنے والی ان پوسٹوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کے قرب و جوار میں کسی زلزلے کی آمد متوقع ہے

زاہد رفیع کے مطابق ”کسی بندے کا تکہ لگ جائے تو اور بات ہے وگرنہ ان اطلاعات میں کسی قسم کی سائنسی منطق موجود نہیں ہے‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں میں بیس کے قریب جدید ترین سیسمک سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ ان سنٹرز کو ڈیجیٹل آلات سے کراچی اور اسلام آباد کے کنٹرول سنٹرز کے ساتھ لنک کرکے عوام تک اطلاعات کی فراہمی کا ایک نظام قائم کیا جا چکا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کا نیشنل سیسمک سنٹر جاپان اور ہوائی کے زلزلہ وارننگ سنٹرز کے ساتھ منسلک ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں زیر زمین ہونے والی تبدیلیوں کی معلومات حاصل کرتا رہتا ہے

انہوں نے کہا ’’ہم نے دو ہزار پانچ کے زلزلے کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں ریسرچ کرکے زلزلوں کا باعث بننے والی فالٹ لائنز کے بارے میں معلومات جمع کی ہیں۔ ان کا تجزیہ ہماری ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے، مکران ڈویژن، چترال، گلگت، کوئٹہ اور کشمیر سمیت کئی علاقوں میں فالٹ لائنز موجود ہیں۔ البتہ کراچی، منڈی بہاوالدین، حافظ آباد ، سانگلہ ہل اور منگلہ ڈیم کے قریبی علاقوں میں بہت چھوٹی چھوٹی فالٹ لائنز ہیں جو ریکٹر سکیل پر دو درجے کے زلزلے کا باعث بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب زلزلہ آتا ہے تو اس سے پہلے زمین میں ایک محدود سی حرکت شروع ہوجاتی ہے۔ عام انسان اس کا ادراک نہیں کر سکتا لیکن جانور اس کو بھانپ لیتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ زلزلے سے پہلے چوہے، سانپ، کیڑے مکوڑے اور پرندے یا دیگر جانور عمارتوں سے باہر نکل جاتے ہیں

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”دنیا بھر میں جاپان کی طرح بلند وبالا عمارتوں میں شاک آبزارور لگانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ایسی ٹیکنالوجی سامنے آ رہی ہے جس سے زلزلے کے نقصات کو کم کیا جا سکتا ہے‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ لوگ ترکی کے زلزلے کے پیچھے ایک بڑے ملک کا ہاتھ ہونے کا ذکر کر کے ایک سازشی تھیوری کو آگے بڑھا رہے ہیں، ان کے بقول: ترکی کا زلزلہ ’مین میڈ‘ نہیں ہے یہ صرف ایک قدرتی آفت ہے اور ایسی باتیں پاکستان میں دو ہزار پانچ کے زلزلے کے دوران بھی سنی گئی تھیں

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات سے منسلک ڈاکٹر سلمان زبیر بھی اس بات سے متفق ہیں کہ اب تک زلزلوں کی مکمل پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موسم یا سیلاب کی پیش گوئی ممکن ہے۔ لیکن زلزلے کے لیے اب تک ایسی کوئی مشین نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکے

ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ زلزلہ آنے سے کچھ دیر قبل کچھ ایسی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں، جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ شاید زلزلہ آجائے۔ ان میں سے ایک حشرات الارض کا زمین سے باہر آجانا ہے

اُن کے بقول جس علاقے میں زلزلہ آنے کا امکان ہو وہاں غیرمعمولی بادل بھی بن سکتے ہیں کیوں کہ زمین کے اندر پلیٹوں کے ٹکرانے سے حدت پیدا ہوتی ہے اوراس حدت کی وجہ سے تبخیر کا عمل تیز ہوتا ہے اور فضا میں غیرمعمولی بادل بنتے ہیں

لیکن یہ سب عمل کچھ دیر پہلے کا ہوتا ہے۔ ایسا عمل چین میں بھی دیکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اب تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو تین یا چار دن پہلے کسی زلزلے کی پیش گوئی کر دے

یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے وائس چانسلر اور پنجاب یونیورسٹی کے کالج برائے ارضی اور ماحولیاتی علوم جامعہ پنجاب کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید کہتے ہیں ”زلزلے کا باعث بننے والی زیر زمین پلیٹوں کی حرکت کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے اور اس کا چند منٹ پہلے بھی حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ زلزلہ کب اور کتنی شدت کا آئے گا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ تاریخی ریکارڈ اور ارضیاتی ریسرچ کی روشنی میں ہم زیر زمین فالٹ لائنز کا تجزیہ کرکے ان علاقوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں زلزلے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔“

ارضیاتی امور کے ماہر اور پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف جیالوجی کے ایک سابق استاد رؤف نظامی نے بتایا ”زیر زمین پلیٹوں اور چٹانوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے بعض پلیٹوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور کسی کمزور پلیٹ پر زیادہ دباؤ پڑنے سے انرجی پیدا ہوتی ہے، جو زلزلے کا باعث بنتی ہے۔ اگر زلزلے کا باعث بننے والی لہر کا مرکز زمین کے قریب ہو یا اس کا رخ افقی جانب ہو تو پھر اس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ ہم صرف احتیاطی تدابیر ہی اپنا سکتے ہیں۔ اس ماہر ارضیات کے مطابق ہونا یہ چاہیے کہ فالٹ لائنز والے علاقوں میں ہونے والی تعمیرات میں بلڈنگ کوڈز کا خیال رکھا جائے اور ان علاقوں میں اربنائزیشن میں زیادہ اضافہ نہ ہونے دیا جائے“

ماہرین کا ماننا ہے کہ بعض اوقات زلزلوں کے بارے میں غلط اطلاعات زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ پاکستان میں بعض لوگ علم نجوم کے زریعے بھی قدرتی آفات کی ٹو ہ لگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close