قلات کے گلی کوچے اجنبی لوگوں کی چلت پھرت سے اُس روز کچھ جلد ہی جاگے، فوج کی بھاری گاڑیوں کے شور اور زنجیر کی کڑیوں پر دھیمی رفتار سے رینگنے والے ٹینکوں کی دھمک سے ماحول بوجھل ہو گیا۔
منھ اندھیرے نمازِ فجر کے لیے مسجد کو جانے والے حیران تھے کہ آج اس شہر پر جانے کیا افتاد آن پڑی ہے کیونکہ فوج صرف شہر کے اندر ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے پہاڑوں اور آنے جانے کے راستے پر بھی قابض تھی۔
کچھ دیر ہی گزری ہوگی کہ جنگلی درختوں اور اونچے پہاڑوں سے شور مچاتی ٹھنڈی یخ ہوا کی تاثیر بدل گئی، شہر دھماکوں کے شور سے لرزا اور بارود کی بُو نے فضا کی پاکیزگی ختم کر دی۔
چھ اکتوبر 1958 کی وہ صبح اس ماحول میں ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ فوج صرف شہر کے اندر اور گردونواح میں ہی نہیں تھی بلکہ قلات تا کوئٹہ ایئرپورٹ 96 میل طویل شاہراہ کے علاوہ گرد وپیش کی پہاڑیوں پر بھی تعینات تھی۔ علاقے کے لوگ اس طرح کا کوئی واقعہ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے تھے۔
’یہ کون سی فوج ہے اور یہاں کیا کر رہی ہے؟‘ لوگوں نے سوچا، یہی سوال قلعہ میری کے مکین یعنی خان آف قلات اور بلوچستان کی دیسی ریاستوں کی یونین کے صدر میر احمد یار خان کے ذہن میں بھی پیدا ہوا۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کے مخبر اور محل کے کچھ دیگر ذمہ داران خبر لائے کہ پاکستان کی مسلح فوج نے محل کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔
’میں نے کون سے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں کہ انہیں رکھنا بھی پڑے‘ ، خان کے ذہن میں یہ خیال آیا اور گزر گیا۔ وہ لکھتے ہیں: ”میں نے خود کو فوراً ہی فوج کے حوالے کر دیا۔“
کیا یہ واقعہ عین اسی طرح رونما ہوا، جیسے خان بیان کرتے ہیں؟
سات اکتوبر کو پاکستان کے بڑے شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات کو گذشتہ شب سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی پی) نے جو خبر فراہم کی تھی، اس میں درج تھا کہ علی الصبح فوجی دستوں نے جب قلعہ میری کا گھیراؤ کیا تو اس کے محافظوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔
جوابی کارروائی سے قلعے کی بندوقیں جلد ہی خاموش ہو گئیں اور خان نے پیغام بھیجا کہ اگر مجھ سے کچھ سروکار ہے تو اندر آ کر بات کر لی جائے۔ پیغام کے جواب میں فوجی دستے کی حفاظت میں ڈپٹی کمشنر کو قلعے کے اندر بھیجا گیا۔
اخبار میں لکھا ہے کہ خان نے بدعہدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے لیے جانے والے وفد پر فائرنگ کرا دی جس سے وفد کے تین ارکان زخمی ہو گئے۔
صورت حال ایک بار پھر نازک ہو چکی تھی چنانچہ ایک تازہ حملہ کیا گیا۔ ایک اور اخبار کے مطابق یہ لڑائی تقریباً آٹھ گھنٹے تک جاری رہی۔ لڑائی میں بندوقوں کے علاوہ بھاری ہتھیار استعمال ہوئے جن میں ٹینک بھی شامل تھے۔
اس لڑائی کے بعد خان بالآخر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو گئے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر ان سے ’صدر جمہوریہ‘ کے احکامات کی تعمیل کروائی گئی جس کے تحت وہ اپنے منصب سے معزول کر دیے گئے جبکہ ان کے اعزازات اور تمام مراعات کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔
صدر جمہوریہ یعنی میجر جنرل اسکندر مرزا ایسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئے؟ اس سلسلے میں پانچ تا سات اکتوبر 1958 اخبارات میں کئی اطلاعات شائع ہوئیں، جن میں الزام لگایا گیا کہ خان آف قلات پورے بلوچستان پر قابض ہو کر اسے پاکستان سے علیحدہ کر دینے کی سازش میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بیرونی ممالک، خاص طور پر افغانستان سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان دنوں اس طرح کی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ خان آف قلات نے ’تاریخ بلوچستان‘ اور ’بلوچ قوم‘ کے ناموں سے دو کتابیں بھی شائع کرائی ہیں جن میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔
’تاریخ بلوچستان‘ نامی کتاب کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے آخری حصے میں ایک فتویٰ شائع کیا گیا ہے جس میں بانیِ پاکستان اور ملک کے پہلے وزیر اعظم کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔
خان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے قلعے سے پاکستان کا قومی پرچم اتار کر اپنی سابق ریاست کا پرچم لہرا دیا تھا اور اس موقع پر ایک جشن بھی منایا گیا۔ ان سرگرمیوں کی حقیقت کیا تھی؟ کیا خان بغاوت کے لیے آمادہ ہو چکے تھے؟ خان آف قلات ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 1956 کے آئین کے تحت ملک جب ون یونٹ میں تبدیل ہو گیا تو ان سابقہ ریاستوں میں سرکاری معاملات کو نمٹانے کے لیے جن افسروں کو تعینات کیا گیا تھا، مقامی لوگوں کو ان سے بڑی شکایات تھیں۔
وہ چاہتے تھے کہ نہ مقامی لوگوں کی عزت نفس مجروح کی جائے اور نہ مقامی رسوم و رواج پر کوئی آنچ آئے۔ ان معاملات کے بارے میں عوامی بے چینی میں اضافہ ہو گیا تو خان آف قلات نے صدر اسکندر مرزا سے رابطہ کیا۔
صدر نے انہیں یقین دلایا کہ وہ بلوچستان کی ان ریاستوں کو ون یونٹ سے نکال دیں گے۔ صدر نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس سلسلے میں برطانیہ کے ایک معروف ماہر قانون سے مشورہ کریں کہ ون یونٹ اور اس میں ان ریاستوں کے انضمام کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ صدر نے انہیں اس سفر کے لیے زرمبادلہ بھی فراہم کیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک میں آئندہ عام انتخابات کی آمد آمد تھی اور اسکندر مرزا چاہتے تھے کہ وہ آئندہ مدت کے لیے بھی صدر منتخب کر لیے جائیں لیکن معروضی حالات ان کے خلاف تھے۔
اس لیے وہ چاہتے تھے کہ انتخابات کسی نہ کسی صورت ملتوی کر دیے جائیں اور ایسا ممکن نہ ہو تو ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے۔خان آف قلات کو انہوں نے اپنے راز میں شریک کیا اور بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مارشل لا لگا کر نواب آف بھوپال کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
نواب بھوپال نے پاکستان پہنچ کر خان آف قلات سے اس سلسلے میں مشورہ کیا تو انہوں نے اِنہیں اسکندر مرزا کے اصل منصوبے سے آگاہ کر دیا، جس پر انہوں نے اسکندر مرزا کے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور واپس چلے گئے۔
خان آف قلات دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اسکندر مرزا سمجھتے تھے کہ ان کے منصوبے کی ناکامی کا واحد ذمہ دار میں ہوں‘ جس کا انتقام لینے کے لیے قلات آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا۔
اس کے برعکس سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا کہ خان نے بغاوت کے لیے بڑے پیمانے پر تیاری کر رکھی تھی جس وقت فوج کے قلعہ میری کا محاصرہ کیا، اس وقت بھی باغی قبائلی سرداروں اور ان کے لشکریوں کی ایک بڑی تعداد قلعے میں موجود تھی۔
یہ آپریشن حکومت کے دعوے کے مطابق چاہے بغاوت سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو یا اس کا سبب اسکندر مرزا کی آتش انتقام رہی ہو، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
بلوچستان کے قوم پرست حلقوں میں جس پر کئی دہائیاں گزرنے کے بعد اب بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔سرکاری ذریعے کے مطابق اس آپریشن میں تین افراد ہلاک ہوئے۔
یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب فوجی دستہ خان کو گرفتار کر کے قلعے سے باہر لا رہا تھا، اس وقت تین سو افراد نے دستے پر حملہ کر دیا۔
جوابی کارروائی میں تین افراد ہلاک ہو گئے جب کہ خان دعویٰ کرتے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
خان کے مطابق جب انہیں گرفتار کر لیا تو فوجی دستہ انہیں لے کر شہر کی سڑکوں پر نکل آیا۔
جنگوں کی قدیم روایت کے مطابق اس کا مقصد شہر والوں کا حوصلہ توڑنا اور خان کی تذلیل ہو سکتا ہے۔ یہ مناظر دیکھ کر قلات کے لوگ دکھی ہوئے اور اپنے سابق حکمران کو خدا حافظ کہنے کے لیے ان کی طرف لپکے جس پر مسلح دستے نے نہتے شہریوں پر گولی چلا دی، فائرنگ سے بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا۔
خان نے اس آپریشن میں مرنے والوں کی تعداد تو نہیں لکھی لیکن یہ ضرور بتایا ہے جانی نقصان بہت زیادہ تھا۔
انہوں نے شہر کی جامع مسجد کی بے حرمتی کا ذکر بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپریشن کے دوران مسجد میں ہاتھوں میں قرآن اٹھائے ہوئے نہتے شہریوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔
خان نے مسجد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران سابق ریاست قلات کے جھنڈے کی بھی توہین کی گئی جو جامع مسجد کے مینار پر لہرا رہا تھا اور اس پر کلمہ طیبہ درج تھا، البتہ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ جھنڈا مسجد پر کیوں لہرا رہا تھا؟
انہوں نے قلعے سے قومی پرچم کے اتارے جانے اور سابق ریاست کا جھنڈا لہرائے جانے کے الزامات پر بھی خاموشی اختیار کی ہے۔
کیا قلات میں واقعی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا تھا یا نہیں، اس کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن جیمز مناہن نے ’انسائیکلو پیڈیا برائے بے ریاست اقوام‘ کی جلد اوّل میں دعویٰ کیا ہے کہ والیِ قلات میر احمد یار خان احمد زئی نے 20 جون 1958 کو پاکستان سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔
تاہم یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی تصدیق خان آف قلات نے کہیں کی ہے اور نہ حکومت پاکستان نے ہی ان پر ایسا کوئی الزام لگایا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ کی کسی کتاب میں بھی ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا، اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ جامع مسجد کے مینار پر ریاست کا پرانا پرچم کیوں نصب تھا؟
آپریشن کے بارے میں سرکاری خبر ایجنسی کی طرف سے اخبارات کو فراہم کی گئی اطلاع میں بتایا گیا آپریشن کے دوران کوئٹہ ایئرپورٹ پر ایک جہاز تیار کھڑا تھا، گرفتاری کے فوراً بعد خان کو جہاز میں سوار کرا کے کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ کر دیا گیا۔
خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ خان کو پیش کش کی گئی تھی کہ یہاں سے جاتے ہوئے وہ اپنی ضرورت اشیا اور اہل خانہ کو ساتھ لے جا سکتے ہیں جب کہ خان دعویٰ کرتے ہیں کہ آپریشن کے دوران جس وقت محل میں لوٹ مار جاری تھی اور قیمتی اشیا غائب کی جا رہی تھیں، ان کے اہل خانہ کو ایک کمرے میں بند کردیا گیا تھا، بعد میں انہیں پنجاب کے ایک پرفضا مقام چوآسیدن شاہ منتقل کر دیا گیا جب کہ خان کو لاہور جیل میں نظر بند کردیا تھا۔
قلات آپریشن کے ردعمل میں کیا ہوا؟
اسکندر مرزا کی اپنی یاداشتوں، ان کے صاحبزادے ہمایوں مرزا کی کتاب، ایوب خان کی خود نوشت، یہاں تک کہ اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کی کتابوں میں اس کا کچھ تذکرہ نہیں ملتا لیکن خان آف قلات نے اپنی کتاب میں ان واقعات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔
خان کے مطابق یہ ردعمل دو طرح کا تھا۔ اس کی پہلی نوعیت عسکری تھی جس میں کئی قبائلی سرداروں اور بعض مقامات پر لوگوں نے ذاتی طور پر حصہ لیا۔
انہوں نے مختلف جھڑپوں میں بہادری کا مظاہرہ کرنے والے کئی انفرادی واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے جن میں تین نوجوانوں کا ذکر خاص طور قابل ذکر ہے، جنہوں نے ایک دستے کو تین دن تک ایک مقام پر روکے رکھا۔
خان کے مطابق سب سے بڑی مزاحمت جھالاوان کے نواب نوروز خان نے کی جن کی عمر نوے برس تھی۔
ان مزاحمت کاروں کے گھر بموں سے اڑادیے گئے جب کہ نواب کو بات چیت کے بہانے دھوکے سے گرفتار کر لیا گیا۔
گرفتاری کے بعد ان کے کئی ساتھیوں کو حیدر آباد اور سکھر کی جیلوں میں پھانسیاں دے دی گئیں جب نواب نوروز خان کی سزائے موت ان کی پیرانہ سالی کے باعث عمر قید میں بدل دی گئی، ان کا انتقال بھی جیل میں ہی ہوا۔
مزاحمت کی دوسری سطح سیاسی ہے۔ خان کے مطابق احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوس کا سلسلہ ان کی گرفتاری کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا اور جابرانہ ہتھکنڈوں اور سختیوں کے باوجود جاری رہا۔
سیاسی مزاحمت میں شدت 1961 کے انتخابات کے بعد اس وقت پیدا ہوئی جب بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت ہونے والے ان انتخابات میں بلوچستان سے ایسے نمائندے منتخب ہو کر ایوان میں پہنچے جو قلات آپریشن کے مخالف تھے یا کسی نہ کسی طرح اس سے متاثر ہوئے تھے۔
ان نمائندوں نے مغربی پاکستان اسمبلی میں جاکر قلات آپریشن، خان آف قلات کی گرفتاری اور بعد کی صورت حال پر بڑی قوت کے ساتھ آواز بلند کی، اس طرح یہ مسئلہ دنیا کے سامنے ایک بار پھر اجاگر ہوا۔
خان آف قلات نے لکھا ہے کہ غیر ملکی سفارت کاروں نے مغربی پاکستان اسمبلی میں ہونے والی ان تقاریر کو ریکارڈ کر کے دنیا تک پہنچایا جس سے ایوب حکومت دباؤ کا شکار ہو گئی، انہوں نے اس سلسلے میں صحافیوں کے کردار کی بھی تعریف کی ہے۔
یہ صورت حال ایوب خان کی آمریت کے لیے کچھ خوش گوار نہ تھی کیوں کہ اسکندر مرزا کے بعد اس دور میں بھی بلوچستان کے ساتھ یہی طرف عمل روا رکھا گیا تھا۔
خان کے مطابق ایوب خان کے ایک دورہ کوئٹہ کے موقع پر ایک بہت بڑے جلسۂ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں، خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے قائدین نے بھی شرکت کی۔
جلسے میں ایوب حکومت کو خبر دار کیا گیا کہ اگر خان آف قلات اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ ختم نہ کیا تھا تو نتائج کی تمام تر ذمہ داری ان پر ہوگی۔
حکومت کی طرف سے اس احتجاجی تحریک کے خلاف سخت ردعمل کا اظہا ر کیا گیا اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں لیکن تحریک ٹھنڈی پڑنے کے بجائے مزید پرجوش ہوتی چلی گئی۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ حکومت کے طرز عمل میں بھی تبدیلی رونما ہوئی اور اس نے صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے کر حقیقت پسندانہ فیصلے کیے جن کے نتیجے میں چھ نومبر 1962 کو خان آف قلات کو رہا کر دیا گیا اور خان اعظم قلات کے لقب سمیت ان کے تمام اعزازات بحال کر دیے گئے۔
میجر جنرل اسکندر مرزا کو اتنے بڑے ہنگامے کا بہانہ اس جرگے نے فراہم کیا تھا جو 17 دسمبر 1957 کو قلات میں منعقد ہوا۔ جرگے میں شریک قبائلی سرداروں نے خان آف قلات کو ایک چھ نکاتی میمورنڈم پیش کیا تھا جس میں ون یونٹ کا انتظام چلانے کے طریقہ کار اور اس کے ذمہ داران کے طرز عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
خان آف قلات نے یہ میمورنڈم جنرل اسکندر مرزا کو پیش کیا اور ان قبائلی سرداروں کے وفد کے ساتھ ان سے ملاقات کی۔ یہی ملاقات تھی جس میں سرداوں کے غم و غصے نے اسکندر مرزا کو ایک انتہائی قدم اٹھانے کا موقع فراہم کیا کیونکہ انھیں اس ملاقات میں کسی نہ کسی طرح یہ تاثر مل گیا تھا کہ اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ ہتھیار اٹھانے سے بھی گریز نہ کریں گے۔
خان آف قلات کہتے ہیں کہ انھوں نے اگرچہ معاملے کو ٹھنڈا رکھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اسکندر مرزا کے اپنے سیاسی عزائم تھے جن کی تکمیل کے لیے ایک بڑے ہنگامے کی انھیں ضرورت تھی تاکہ ان کے ہاتھ میں مارشل لا کے نفاذ کا جواز آسکے۔ یہ میمورنڈم اور قبائلی عمائدین کی شدت جذبات نے انھیں اس کا جواز فراہم کر دیا۔
بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)