ڈبل کیبن گاڑیوں کی پشت پر سوار، سر پر پگڑی باندھے، کرتا شلوار میں ملبوس بندوق بردار تن آور افراد آس پاس کی گاڑیوں کو ڈبل کیبن کو راستہ دینے کے اشارے کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو کراچی بالخصوص شہر کے پوش علاقوں کی رہائشی ہر آنکھ نے دیکھا ہے۔
سندھ کے دیگر دیہی علاقوں میں بھی یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور دیہی پنجاب میں بھی یہ رواج عام ہے جس کے لیے اکثر سیکیورٹی کی خراب صورت حال اور بڑھتی ہوئی قبائلی دشمنی اور خاندانی تنازعات کو جواز بتایا جاتا ہے۔
اگرچہ سادہ کپڑوں میں ملبوس بندوق بردار افراد کے مناظر عام ہیں لیکن بہت سے دیکھنے والے ان افراد کی روزمرہ کی زندگی، ان کے پس منظر اور یہ گن مین کیوں بنے ہیں، اس حوالے سے واقفیت نہیں رکھتے۔ اگرچہ بہت سے مبصرین سیکیورٹی کمپنیز سے وابستہ نجی سیکیورٹی گارڈز کی کم تنخواہوں، طویل اوقات اور ناقص تربیت کے حوالے سے لکھ چکے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ امیر اور بااثر افراد کے لیے کام کرنے والے ان غیر رسمی گارڈز کے حالات نجی سیکیورٹی کمپنیز سے وابستہ گارڈز سے زیادہ بدتر ہوتے ہیں۔
قبائلی سردار یا روحانی پیشوا ان گارڈز کو ہائر کرتے ہیں جبکہ ان سے کوئی رسمی معاہدہ نہیں کیا جاتا۔ یہ نسلوں سے چلے آنے والے خاندانی تعلقات کی وجہ سے اپنے آجر کے ساتھ اپنی وفاداری نبھاتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے خلاف جا کر سزا ملنے کا خوف ہوتا ہے لیکن یہ خوف اپنی ذات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ان گارڈز کے اہل خانہ قبائلی سرداروں یا روحانی پیشواؤں کے زیرِکنٹرول آبائی علاقوں میں مقیم ہوتے ہیں۔
ان محافظین کو مقررہ کم سے کم اجرت سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ ان کے پاس مناسب حفاظتی سامان نہیں ہوتا، نہ ان کا انشورنس کروایا جاتا ہے، حتیٰ کہ بندوق کے استعمال یا حفاظت کے کورس کروا کر انہیں تربیت تک نہیں دی جاتی۔
بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک گارڈ گوہرام* نے کہا کہ ’یہ لوگ ایسے پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جہاں قبائلی وقار کو اہمیت دینے کا رواج ہے‘۔ گوہرام چند ماہ قبل کراچی ڈیفنس کے مصروف کمرشل علاقے میں دو قبائل کے درمیان ہونے والے مقابلے میں بھی شریک تھے۔ اس واقعے میں سیکڑوں گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق ہوئے جن میں ایک گارڈ بھی شامل تھا۔
گوہرام ڈان کو بتاتے ہیں کہ ’بلوچ کلچر میں اگر میں نے جوابی کارروائی نہیں کی تو یہ میرے خاندان کے لیے باعثِ توہین ہوگا اور میرا ضمیر بھی مطمئن نہیں ہوگا‘۔ ان کے خیال میں ہتھیار ڈالنا، اپنے قبیلے اور اس کے سربراہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔ تو انتقامی کارروائی کوئی آپشن نہیں بلکہ یہ لازمی ہے۔ شرم کے خوف سے وہ انتہائی خطرات کے باوجود مقابلہ کرتے ہیں۔
گوہرام جو کراچی کے شوٹ آؤٹ میں شامل تھے، کہتے ہیں، ’اب مجھے میرے قبیلے والے ایک جنگجو کے طور پر دیکھتے ہیں‘۔
بہت سے دیگر غیر رسمی گارڈز بھی گوہرام کی طرح اپنے متعلقہ قبیلے کے وقار کو ترجیح دیتے ہیں لیکن وہ اپنی حفاظت کے متعلق بھی خدشات میں مبتلا ہیں۔
سابق گن مین وزیر* نے ڈان کو بتایا کہ سردار کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ان کے قافلے پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا۔ ’انہوں نے ہم سے اسلحہ، موبائل فونز، پیسے سب کچھ چھین لیا اور ہمیں مارا بھی لیکن ہم جب اپنے سردار کے بنگلے پر واپس پہنچے تو انہوں نے بھی ہمیں سزا دی کہ ہم نے ڈاکوؤں سے لڑائی کیوں نہیں کی‘۔
وزیر نے بتایا کہ اگر وہ ان ڈاکوؤں سے مزاحمت کرتے تو خدشہ تھا کہ وہ ہمیں مار دیتے۔ لیکن سردار کو اس کی پروا نہیں تھی۔ وزیر نے بتایا کہ انہیں جھوٹے الزامات پر 4 ماہ کی قید کی سزا ہوئی اور ان کے سردار نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر وزیر کو مقدمے میں پھنسایا۔
قید سے رہائی کے بعد وزیر نے اپنا پیشہ تبدیل کرلیا۔ وہ کہتے ہیں، ’آج میں ایک مزدور ہوں اور میں اپنی بزدلی کا شکر گزار ہوں جس نے میری جان بچائی‘۔
بہت سے قبائلی گارڈز کو انہیں حالات سے گزرنا پڑتا ہے جس سے وزیر گزرے۔ نجی سیکیورٹی کمپنیز کے گارڈز کے برعکس ان غیررسمی گارڈز کا اپنے آجروں کے ساتھ رسمی معاہدہ نہیں ہوتا اور انہیں کوئی قانونی تحفظ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے۔
اگرچہ یہ اسلحہ بردار افراد ایسے ماحول میں پلے بڑھے ہوتے ہیں جہاں ان کے ارد گرد اسلحہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اسلحے سے متعلق انہیں محض بنیادی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو بندوق لوڈ کرنا، ان لو ڈ کرنا اور ہوا میں فائر کرنے تک محدود ہے۔ حفاظت پر مامور ہونے کی وجہ سے وہ خطرات کا سامنا کرتے ہیں لیکن انہیں تربیت نہیں دی جاتی کہ اسلحے کیسے استعمال کرنا ہے یا اس کی دیکھ بھال کیسے کرنی ہے، ان خامیوں کی وجہ سے وہ محافظین کا کردار مؤثر انداز میں ادا نہیں کرسکتے۔
نسل در نسل لوگ گارڈز یا گن مین بنتے ہیں۔ یہ مسلح گارڈز کی اولاد ہوتے ہیں جنہیں تعلیم یا دیگر مہارتوں جیسے زراعت یا تجارت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی اور وہ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل کر گارڈز بن جاتے ہیں۔ ان کی نسلوں کی زندگی ایک ہی چکر میں گھومتی ہیں جس سے جاگیردار اشرافیہ کی طاقت مضبوط ہوتی ہے کیونکہ ان کے خاندان زندہ رہنے کے لیے اپنے آجر پر انحصار کرتے ہیں۔ غلامی انہیں ورثے میں ملتی ہے جس سے شاذو نادر ہی بچا جاسکتا ہے۔
وفاداری کا صلہ دینے کے لیے کچھ جاگیردار اپنے گارڈز کو سرکاری محکمہ جات میں بطور چوکیدار، باغبان یا ڈرائیور بھرتی کروا دیتے ہیں لیکن ان کی یہ نوکری صرف کاغذی ہوتی ہے اور انہیں جاگیردار کے بنگلے پر ڈیوٹی دینا پڑتی ہے جبکہ وہ حکومت کی طرف سے ایسے کام کی تنخواہ لیتے ہیں جو وہ کرتے بھی نہیں۔ سینئر گارڈز کے بیٹوں کو اپنے والد کی وفاداری کی جزا کے طور پر سرکاری دفاتر میں معمولی نوکریاں مل جاتی ہیں۔
اس طرح کی ملازمتوں سے گارڈز کو آمدنی کا ایک اور ذریعہ مل جاتا ہے جوکہ بطور گارڈ سندھ میں مقررہ کم سے کم تنخواہ 37 ہزار کی صرف ایک تہائی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
دیہی معاملات پر قریبی نظر رکھنے والے میر جنگی خان مگسی نے کہا کہ صرف وفادار گن مین کو 9 سے 12 ہزار کی تنخواہ ملتی ہے جبکہ آجر کی موجودگی میں انہیں کھانا اور رہائش کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اتنی کم تنخواہ کی وجہ سے پیسے کے لیے وہ چاپلوسی کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ میر جنگی مگسی نے بتایا کہ ’وہ سردار کی رہائش گاہ کا دورہ کرنے والے افسران کی جانب سے دیے جانے والے نقدی کو قبول کرلیتے ہیں‘۔
اس کے برعکس اگر یہی قبائلی گارڈز کو شہری بزنس مین ہائر کرتا ہے تو انہیں بہتر معاوضہ بھی ملتا ہے اور ان کی زندگی کے حالات بھی قدرے بہتر ہوتے ہیں۔ عارف* اور سجاد* دو کزنز ہیں جن کا تعلق دیہی سندھ سے ہے، وہ کراچی کے ایک کاروباری شخص کے لیے بطور گن مین کام کرتے ہیں۔ اس بزنس مین نے ان کے قبیلے کے سردار کی سفارش پر انہیں ملازمت پر رکھا۔
وہ ڈان کو بتاتے ہیں کہ ’ہم اب ماہانہ 35 ہزار کماتے ہیں جوکہ اس 12 ہزار تنخواہ سے کئی زیادہ ہے جو سردار ہمیں دیتا تھا‘۔ اس سے نہ ان قبائلی گارڈز کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ انہیں ملازمت پر رکھنے والے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ دونوں کزنز نے بتایا کہ ان کا آجر پہلے نجی کمپنی کے سیکیورٹی گارڈز پر ماہانہ ایک لاکھ 60 ہزار خرچ کرتا تھا جوکہ صرف 10 گھنٹے کام کرتے تھے۔ ’اب وہ ہم دونوں کو 10 گھنٹوں کے کام کے 70 ہزار ادا کرتے ہیں جبکہ ہم گھر کا سودا لانے، ڈرائیونگ اور اس جیسے دیگر کام بھی کردیتے ہیں‘۔
وہ واقف ہیں کہ اگر وہ کسی نجی سیکیورٹی کمپنی میں بھرتی ہوجائیں تو انہیں زیادہ مراعات ملیں گی لیکن وہ اس میں بھرتی کے عمل کو دشوار سمجھتے ہیں۔ ’ہم زیادہ بہتر حالات میں ہیں اور ہمارے پاس جو کچھ ہے، ہم اس سے خوش ہیں‘۔
کھیتوں میں محنت کرنے سے بچنے کے لیے یہ افراد قبائلی گارڈز بن جاتے ہیں۔ دیگر افراد بااثر شخصیت سے وابستگی کے لیے بھی گن مین بن جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ کام کرکے اور ان کے قریب رہ کر انہیں شہرت اور دولت ملے گی۔
اس کے علاوہ وہ لوگ بھی سردار یا چیف کے لیے کام کرتے ہیں کیونکہ اس سے انہیں اپنے سرکردہ جرائم سے استثنیٰ مل سکتی ہے۔ وہ چیف کے ’ملیشیا‘ کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس کا حصہ بننے سے وہ سردار کے قانون کے ماتحت آجاتے ہیں۔
مظفر* نے ڈان کو بتایا، ’مجھ پر ڈکیتی اور واردات کے سنگین الزامات تھے۔ پولیس میری تلاش میں تھی لیکن جب میں ایک بااثر سردار کا گن مین بن گیا تو پولیس نے میرا تعاقب کرنا چھوڑ دیا‘۔
یہ افراد سرداروں کے ساتھ کام کرکے جرائم سے بچ جاتے ہیں—تصویر: گوگل
ان محافظین پر اکثر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ اپنے سردار کی ایما پر وہ شہر کے رہائشیوں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ اگر کسی گارڈ کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شکایت بھی کی جاتی ہے تو ان کے لیے اپنے آبائی علاقوں میں روپوش ہوجانا آسان ہوتا ہے اور پولیس ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرپاتی۔
کراچی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی نبیل* نے ڈان کو بتایا کہ ان کے محلے میں ایک گھر کے باہر تعینات گن مین فیملیز کو ہراساں کرتے ہیں۔ کہا کہ ’ہماری اسٹریٹ میں ایسے بہت سے گن مین موجود ہیں جن کے مالکان ان کے خلاف کی جانے والی شکایات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ ہمیں اپنی سیکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں کیونکہ ہمیں یہ نہیں پتا کہ آیا یہ اسلحہ بردار افراد قابلِ بھروسہ ہیں یا یہ کوئی جرائم پیشہ افراد ہیں‘۔
مؤثر قوانین نہ ہونے اور پولیس فورسز کی جانب سے جاگیرداروں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی وجہ سے شہری علاقوں کے رہائشیوں کے پاس ان گارڈز سے احتیاط اور دوری برتنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ وہ ان کے قبائلی سرداروں کی ناراضی مول لینے سے محتاط رہتے ہیں۔ سردار کی ایک ہدایت پر یہ مسلح افراد توڑ پھوڑ مچا سکتے ہیں حتیٰ کہ رہائشی ان کے ڈرائیورز سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں گاڑی کے قریب آنے پر وہ ہنگامہ کھڑا نہ کردیں۔
غریب گھرانوں سے بھرتی کیے جانے والے یہ مسلح افراد جاگیرداروں کے اثر و رسوخ اور ان کے خوف میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم اپنی ساکھ بنانے اور سردار کے زیرِ سایہ آکر تحفظ کے خواہاں افراد اپنی زندگیوں کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر قانونی اصلاحات اور سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ طاقت کے اس ڈھانچے کو توڑا جا سکے جو بااثر جاگیرداروں کو بلا روک ٹوک اقتدار پر قابض رہنے کی اجازت دیتا ہے۔
*رازداری کی غرض سے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ڈان۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)