انسانوں کی ایجاد کردہ بدترین چیزیں کیا ہیں؟

ویب ڈیسک

انسانی ذہانت نے جہاں حیرت انگیز اختراعات اور ترقی کی نئی راہیں کھولیں، وہیں اس نے ایسی ایجادات بھی کیں جنہوں نے کئی مسائل کھڑے کیے اور دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ یقیناً انسانی اختراعات کا ایک روشن رخ بھی ہے لیکن کئی ایجادات انسانی تخلیقی صلاحیتوں کے تاریک پہلو کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ایجادات اس سوال کو جنم دیتی ہیں کہ کیا ترقی کی بھاری قیمت چکانی ضروری ہے؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کی کچھ ایجادات واقعی انسانیت کو نئی بلندیوں تک لے جاتی ہیں، لیکن کچھ ہمیں نیچے گرا دیتی ہیں، اور بعض اوقات ان کے اثرات کا اندازہ ہمیں تب تک نہیں ہوتا جب تک بہت دیر نہ ہو جائے۔

تو آئیے، انسان کی ذہانت کے اس تاریک پہلو پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں، کچھ بدترین ایجادات کا۔۔

کیمیکل ہتھیار

کیمیکل ہتھیار بنانے کا مقصد زندگی کو سنوارنا یا بہتر بنانا نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانا ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران، مسٹرڈ گیس (سلفر مسٹرڈ) نے قتل اور زخمی کرنے کا ایک ہولناک نیا طریقہ متعارف کرایا۔ ان ہتھیاروں کے متاثرین اکثر تکلیف دہ اور آہستہ موت کا شکار ہوتے، ان کے پھیپھڑے زہریلی گیس سے جل جاتے، آنکھیں بند ہو جاتیں اور جِلد ناقابل شناخت ہو جاتی۔

جو لوگ زندہ بچ جاتے، وہ زندگی بھر کے زخموں اور دائمی بیماریوں کے ساتھ میدان جنگ کی ہولناک یادوں کے قیدی بن جاتے۔

لیکن یہیں بات ختم نہیں ہوئی۔ سیرین اور VX جیسے اعصاب پر اثر کرنے والے مہلک کیمیکلز کی تیاری نے انسان کی موت کو ’فن‘ میں تبدیل کرنے کی خوفناک صلاحیت کو ظاہر کیا۔

یہ مادے بے بُو اور بے رنگ ہوتے ہیں اور چاول کے دانے سے بھی چھوٹے قطرے کے ذریعے ہلاک کر سکتے ہیں۔ ان کا سامنا کرنے سے جھٹکے، مفلوج ہونا، اور سانس کا رک جانا شامل ہے، اکثر چند منٹوں کے اندر۔

جدید معاہدے انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کئی حکومتیں اب بھی ان کے خفیہ ذخیرے رکھتی ہیں۔

دلچسپ حقیقت: جنیوا پروٹوکول، جس نے کیمیکل ہتھیاروں پر پابندی عائد کی، پر 1925 میں دستخط کیا گیا۔ لیکن یہ ممالک کو خفیہ طور پر انہیں تیار کرنے سے نہ روک سکا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران، دونوں فریقین نے ان کے استعمال سے پرہیز کیا، لیکن زیادہ تر جوابی کارروائی کے خوف سے۔

بارودی سرنگیں

بارودی سرنگیں جنگ کے لیے تیار کی گئیں، لیکن ان کے اثرات میدان جنگ سے کہیں زیادہ عرصے تک رہتے ہیں۔ جنگوں کے ختم ہونے کے کئی دہائیوں بعد بھی، یہ پوشیدہ قاتل معصوم لوگوں کو زخمی اور ہلاک کرتے رہتے ہیں۔

عام شہری، خاص طور پر بچے، اس تباہی کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ سرنگ پر قدم رکھنے سے صرف جان نہیں جاتی بلکہ زندہ بچ جانے والے سنگین زخموں، اعضا کے کٹنے اور زندگی بھر کے نفسیاتی صدمے کا سامنا کرتے ہیں۔

سرنگوں سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگ کھیتوں، اسکولوں، اور دیگر بنیادی سہولیات تک محدود رسائی کے باعث غربت کے چکر میں مبتلا رہتے ہیں۔

بین الاقوامی کوششوں کے باوجود بارودی سرنگوں پر پابندی لگانے کے لیے، دنیا بھر میں لاکھوں سرنگیں اب بھی زمین میں دفن ہیں۔ انہیں ہٹانا ایک انتہائی سست اور مہنگا عمل ہے، جس کے لیے خصوصی آلات اور تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔

دلچسپ حقیقت: دنیا بھر میں 60 سے زائد ممالک میں 100 ملین سے زیادہ بارودی سرنگیں دفن ہیں، جو زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں۔ موجودہ صفائی کی رفتار پر انہیں ہٹانے میں 1,000 سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

پلاسٹک کی سنگل یوز اشیاء

1950 کی دہائی میں پلاسٹک ایک قسم کا معجزہ سمجھا جاتا تھا۔ ہلکا، سستا، اور پائیدار ہونے کی وجہ سے اس نے کئی صنعتوں کو بدل دیا۔ پیکجنگ، صحت، تعمیرات – تقریباً ہر شعبے نے اسے اپنایا۔

لیکن اس کی پائیداری – یعنی نہ ٹوٹنے کی صلاحیت – نے اسے ماحولیاتی تباہی میں بدل دیا۔ سنگل یوز پلاسٹک، جیسے تھیلے، بوتلیں، اور اسٹراز ہمارے سمندروں اور زمینوں کو گندہ کرتے ہیں، جنگلی حیات کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، اور ہمارے خوراکی نظام میں داخل ہو جاتے ہیں۔

جانور اکثر پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھا لیتے ہیں، جس سے ان کے جسم میں مہلک رکاوٹیں یا زہر پیدا ہو جاتا ہے، جبکہ مائیکرو پلاسٹک ہر سطح پر ماحولیاتی نظام میں سرایت کر چکے ہیں۔

پلاسٹک کا ورثہ درحقیقت ایک زہریلا سیارہ ہے۔ مائیکرو پلاسٹک سمندر کی گہرائیوں سے لے کر آرکٹک کی برف تک ہر جگہ پایا گیا ہے۔

یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اوسط شخص ہر ہفتے کھانے اور پانی کے ذریعے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک نگلتا ہے۔
اب ذرا اس کے بارے میں سوچیے۔

دلچسپ حقیقت: ہر منٹ تقریباً 10 لاکھ پلاسٹک کی بوتلیں دنیا بھر میں خریدی جاتی ہیں، جن میں سے زیادہ تر ماحول کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ اندازہ ہے کہ اب تک تیار کیے گئے تمام پلاسٹک کا صرف 10 فی صد سے بھی کم ری سائیکل کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا

ایک ایسے دور میں جب حکومتیں مین اسٹریم میڈیا کو کنٹرول کرکے اپنی من پسند کہانیاں پیش کرتی ہیں اور سچائی کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں، سوشل میڈیا ایک مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر ابھرا ہے۔ یہ وہ ذریعہ ہے جہاں عام لوگ اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں، حقائق کو سامنے لا سکتے ہیں اور تصویر کا وہ رخ دکھا سکتے ہیں جسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ پہلو سوشل میڈیا ایک مثبت رخ پیش کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بات یہیں تک محدود نہیں

سوشل میڈیا جو ابتدا میں دوستوں سے جڑنے کا ذریعہ تھا، وہ اب کہیں زیادہ خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ہمارے بات چیت کے انداز کو اکثر نقصان دہ طریقوں سے بدل دیا ہے۔

الگورتھمز غصے کو ترجیح دیتے ہیں، غلط معلومات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہیں، اور ذہنی صحت تقابل اور سائبر بلیئنگ کے دباؤ میں متاثر ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ، آن لائن زندگیوں کی مصنوعی اور مثالی تصویر کشی غیر حقیقی معیار قائم کرتی ہے، جس کے نتیجے میں شدید بےچینی، ڈپریشن، خود اعتمادی کے مسائل اور یہاں تک کہ خودکشیوں کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔

دوسری جانب، ان پلیٹ فارمز کے پیچھے موجود کمپنیاں ہماری اس لت سے منافع کماتی ہیں اور ہم جب بے مقصد اسکرول کرتے ہیں، وہ ہمارا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں۔

حقیقت میں، سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرتی ہیں، جیسے کیسینو میں کام کرنے والے، تاکہ ایک ایسا ماحول تخلیق کریں جو ممکنہ حد تک نشہ آور ہو۔

اب ذرا سوچیے کہ آپ روزانہ کتنے گھنٹے اس نشہ آور ماحول میں ایک ’پروڈکٹ‘ کے طور پر گزارتے ہیں۔

دلچسپ حقیقت:
اوسطاً ایک شخص روزانہ تقریباً 2.5 گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتا ہے۔ اپنی زندگی کے اختتام تک، یہ وقت پانچ سال سے زیادہ بن سکتا ہے۔

ریئلٹی ٹی وی

ریئلٹی ٹی وی محض سنسنی خیزی اور جھانکنے کی خواہش پر مبنی ہے۔ اکثر اوقات یہ شوز لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے پر اکساتے ہیں اور تنازعات کو تفریح کا ذریعہ بناتے ہیں۔

نتیجہ؟ زہریلے رویے کا پروان چڑھنا۔ شرکاء کو غیر معمولی حالات میں دھکیل دیا جاتا ہے، جہاں پروڈیوسرز ڈرامہ پیدا کرتے ہیں تاکہ ناظرین کو مصروف رکھا جا سکے۔ تعلقات کیمروں کے سامنے مکمل طور پر ٹوٹ جاتے ہیں، اور کئی مواقع پر شرکاء کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔

یہ اثرات صرف شرکاء تک محدود نہیں رہتے۔ ناظرین اس منفی اثر کو جذب کرتے ہیں، اور مجموعی طور پر معاشرہ زیادہ مایوس اور عجیب ہو جاتا ہے۔

حقیقت میں (الفاظ کی مناسبت سے)، جو کبھی ہلکی پھلکی تفریح تھی، وہ اب انسانیت کے بدترین پہلوؤں کی عکاسی کرنے والا آئینہ بن چکی ہے۔

دلچسپ حقیقت: چھپی ہوئی کیمرے والا شو ’کینڈیڈ کیمرا‘، جو عام طور پر پہلا ریئلٹی ٹی وی شو سمجھا جاتا ہے، 1948 میں ’کینڈیڈ مائیکروفون‘ کے نام سے ABC نیٹ ورک پر نشر ہوا۔

جوہری ہتھیار

جوہری ہتھیار انسانی تباہی کے عروج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری نے ان کی تباہ کن طاقت کا مظاہرہ کیا، جس میں 200,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور گہرے اور دیرپا زخم چھوڑ گئے۔

بچ جانے والے، جنہیں ’ہیباکوشا‘ کہا جاتا ہے، دہائیوں تک تابکاری بیماری، کینسر اور سماجی بدنامی کا شکار رہے۔ تباہی صرف جسمانی نہیں تھی؛ اس نے عالمی سیاست کو بھی بدل دیا اور ایک ایسا خوف پیدا کیا جو آج بھی ہر زندہ انسان کے دل میں قائم ہے۔

سرد جنگ کے دوران اسلحے کی دوڑ نے ہزاروں وار ہیڈز کا ذخیرہ جمع کیا، جس نے خوفناک عالمی توازن پیدا کیا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے عروج کے دوران دنیا میں 70,000 سے زائد جوہری وار ہیڈز موجود تھے۔

ناقابل یقین، ہے نا؟

آج، نو ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، اور ان کے تقریباً ذخائر درج ذیل ہیں:

امریکہ: ~5,200 فعال اور محفوظ شدہ وار ہیڈز

روس: ~5,800 فعال اور محفوظ شدہ وار ہیڈز

چین: ~400 وار ہیڈز (مزید اضافہ جاری ہے)

فرانس: ~290 وار ہیڈز

برطانیہ: ~225 وار ہیڈز

بھارت: ~164 وار ہیڈز

پاکستان: ~170 وار ہیڈز

شمالی کوریا: 30-40 وار ہیڈز (محدود صلاحیت کے ساتھ)

اسرائیل: ~90 وار ہیڈز (مبہم پالیسی کے تحت)

انسانیت کا خود کو چند منٹوں میں نیست و نابود کرنے کا ہنر واقعی ناقابل یقین ہے۔۔ ہم سب انسان ہیں، اور ہم نے ایسی چیز بنائی ہے جو پوری دنیا کو سو بار تباہ کر سکتی ہے۔۔ واقعی، ناقابل یقین!

اسمارٹ فونز

اب، ظاہر ہے، اسمارٹ فونز کا موازنہ فہرست میں موجود دیگر اشیاء سے کرنا مشکل ہے، لیکن ذرا غور کریں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اسمارٹ فونز نے ہماری دنیا کو ایسے طریقوں سے بدل دیا ہے جس کا مقابلہ بہت کم ایجادات کر سکتی ہیں۔ یہ ہمیں جوڑتے ہیں، تفریح فراہم کرتے ہیں، اور انسانی علم کا خزانہ ہماری جیبوں میں رکھتے ہیں۔

لیکن انہوں نے معاشرت کو بھی مکمل طور پر بدل دیا ہے – اور اکثر اچھے سے زیادہ برے طریقوں سے۔

جیسا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ذکر کیا گیا، بہت سے لوگوں کے لیے اسمارٹ فونز ایک لت بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مسلسل اسکرولنگ اور توجہ حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے ایپس کے باعث گھنٹوں ضائع ہوتے ہیں اور بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ مسلسل رابطہ کام اور ذاتی زندگی کے درمیان حد کو دھندلا کر دیتا ہے، جس سے لوگوں کے لیے رابطہ منقطع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

لیکن اسمارٹ فونز کی انسانی قیمت صرف صارفین تک محدود نہیں ہے۔ ان ڈیوائسز بنانے والی فیکٹریوں میں اکثر مزدوروں کو خراب حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ کچھ فیکٹریوں میں مزدور 16 گھنٹے کی شفٹوں میں کم اجرت پر کام کرتے ہیں، جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ذہنی دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ چین جیسے ممالک میں کچھ فیکٹریوں نے عمارتوں کے گرد جال لگا دیے تاکہ ملازمین خودکشی کرنے کے لیے چھلانگ نہ لگائیں۔

اب ذرا تصور کریں! ماحولیاتی نقصان اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ اسمارٹ فونز کی تیاری کے لیے ضروری نایاب دھاتوں کی کان کنی ماحولیاتی نظام کو تباہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں مزدوروں کا استحصال کرتی ہے۔

لہٰذا، جب آپ ہر چند مہینوں میں نیا اسمارٹ فون خریدنے کے بارے میں سوچیں- تو اس پر دوبارہ سوچیں۔

مصنوعی ذہانت؟

مصنوعی ذہانت (AI) بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس کے تاریک پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی غلط معلومات پھیلانے میں استعمال ہوتی ہے، چہرے کی شناخت نجی زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے، خودمختار ہتھیار خوفناک خواب دکھاتے ہیں، اور اے آئی روبوٹ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ 100 یا 1000 سال بعد انسانیت کا تصور کیسا ہوگا۔

ہم نے واقعی ایک پنڈورا کا ڈبہ کھول دیا ہے۔۔

اگرچہ اے آئی مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے، لیکن اس کا غلط استعمال انسانی رویے کے بدترین پہلوؤں کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ جیسے جیسے اے آئی نظام زیادہ خودمختار ہوتے جا رہے ہیں، خطرات بھی بڑھ رہے ہیں – روزگار کی کمی سے لے کر بدنیتی پر مبنی افراد کے ذریعے ان کے غلط استعمال تک۔

حقیقت یہ ہے کہ جدت اور تباہی کے درمیان باریک لکیر ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہوتی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ، اے آئی کی مدد سے حقیقت اور تخیل کے درمیان موجود واضح لکیر کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر آنے والے برسوں میں۔

ہمیں بالکل اندازہ نہیں ہے کہ کیا ہوگا جب (یا اگر) اے آئی شعور حاصل کر لے گا۔ کیا یہ اپنے فیصلے خود کرنے لگے گا؟ اور کیا ہم اسے بند کرنے کے قابل ہوں گے، اگر کچھ غلط ہو جائے؟

یہ یقیناً تاریخ کی ان نایاب (یا واحد) ایجادات میں سے ایک ہے جس کے انسانیت پر اثرات کی پیش گوئی ہم بالکل بھی نہیں کر سکتے۔۔ بالکل بھی نہیں!

(اس فیچر کی تیاری میں کیوریئس میٹرکس کے ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close