ملیر اور گڈاپ میں ریتی بجری کی چوری اور درختوں کی کٹائی: ایک سنگین ماحولیاتی مسئلہ

شاھد رضا

کراچی کے علاقے ملیر اور گڈاپ قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ یہ علاقے اپنی خوبصورتی، زرخیز زمین اور قدرتی ماحول کے لیے جانے جاتے تھے، مگر بدقسمتی سے آج یہ قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار اور درختوں کی اندھا دھند کٹائی کا شکار ہیں۔ ترقی کے نام پر یہ غیر قانونی سرگرمیاں ان علاقوں کے ماحولیاتی توازن کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔

جب سے علاقے میں میگا ہاؤس اسکیم بحریہ ٹاؤن کی بنیاد رکھی گئی ہے، اس دن سے اس پورے علاقے کی ریتی بجری کی چوری جنگلات کی کٹائی پہاڑوں کی کٹائی ندی نالوں کی کٹائی ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام بھی نہیں لے رہا۔ سپر ہائی وے سے لے کر جام شورو کے حدود سے آگے بڑھتے ہوئی قبضہ گیر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ان سرگرمیوں میں مقامی لوگ بھی شامل ہیں، جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ریتی بجری، جو تعمیراتی کاموں میں بنیادی مواد کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، ملیر اور گڈاپ کے علاقے سے غیر قانونی طور پر نکالی جا رہی ہیں۔ یہ سرگرمی نہ صرف زمین کی ساخت کو بگاڑ رہی ہے بلکہ دریاؤں اور ندیوں کے نظام کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ریتی اور بجری کی چوری سے زمین کی تہہ کمزور ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے زمینی کھسکاؤ اور کٹاؤ جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف ان علاقوں کی زرخیزی کو ختم کر رہا ہے بلکہ آبی حیات کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔

درخت، جو زمین کے لیے قدرتی حفاظتی ڈھال ہیں، ترقیاتی منصوبوں، زرعی زمین کے حصول، اور ایندھن کے لیے کاٹے جا رہے ہیں۔ درخت آکسیجن پیدا کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور ہوا کو صاف رکھتے ہیں۔ ان کی کٹائی سے نہ صرف فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ گلوبل وارمنگ کے اثرات بھی شدت اختیار کر رہے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی سے جنگلی حیات کی پناہ گاہیں ختم ہو رہی ہیں اور کئی نایاب نسلیں معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور تھدو ندی کرکٹی ندی کے گردونواح میں جنگل کی کٹائی شروع کی گئی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ 20 سے 25 لاکھ میں جنگل کا یہ حصہ بیچ دیا گیا ہے اور جس کی کٹائی ہو رہی ہے۔ سو سال پرانے درختوں کو چند پیسوں کے عوض کاٹ رہے ہیں، بقول شاعر:
”درخت تھے جنگلوں کا زیور، زمین کی شان،
کٹ گئے تو چھن گئی سبز زمین کی پہچان.“

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا ماحولیاتی بحران کے حل کے لیے کوششیں کر رہی ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مقامی لوگوں، جو ان علاقوں کے قدرتی محافظ ہونے چاہیے تھے، کی کچھ تعداد اس تباہی میں شریک ہے۔ یہ لوگ قلیل مدتی مالی فائدے کے لیے نہ صرف اپنے علاقے کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ایک غیر محفوظ ماحول وراثت میں دے رہے ہیں۔

مقامی لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علاقے کے قدرتی وسائل کا تحفظ کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ درختوں کو کاٹنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور ریتی بجری کی چوری جیسے غیر قانونی کاموں میں ملوث نہ ہوں۔ اگر وہ خود ان سرگرمیوں میں شریک نہ ہوں اور ان کے خلاف آواز بلند کریں تو یہ ماحولیاتی تباہی رک سکتی ہے۔

آج تھدو ندی، کھار ندی، حب ندی، مول ندی اور ملیر ندی میں مختلف جگہوں سے ریتی بدری چوری کی جا رہی ہے، جبکہ ڈسٹرکٹ ملیر میں دفعہ 144 کے تحت ریتی بدری اٹھانے بے سخت پابندی کی قانون لاگو ہے، اس کے باوجود ریتی بجری کی چوری ہو رہی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے ماحول کو بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ اگر ہم نے آج ان مسائل پر توجہ نہ دی تو ہماری زمین اور ہمارا ماحول ہمیشہ کے لیے تباہ ہو سکتا ہے۔ ملیر اور گڈاپ کے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ چند سکوں کے لیے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں یا ایک محفوظ اور خوبصورت ماحول کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ وقت کی پکار یہی ہے کہ ہم قدرتی وسائل کو بچانے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک بہتر دنیا میں جی سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close