پاکستان میں بولی جانے والی زبان سندھی میں سرحد پار انڈین نوجوانوں کی دلچسپی

سنجنا بھمبھانی

میں اپنے والد سے یہ سن کر حیران رہ گئی کہ ہماری مادری زبان سندھی ہے۔ میں نے اس زبان کے بارے میں کبھی سُنا ہی نہیں تھا۔ میرے والد نے وضاحت کی کہ جس علاقے میں سندھی زیادہ تر بولی جاتی ہے، وہ صوبہ سندھ ہے جو انڈیا میں نہیں بلکہ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں واقع ہے۔‘

شاید آپ یہ جملہ پڑھ کر حیران ہوئے ہوں لیکن یہ تقسیمِ ہند کے بعد اپنی مادری زبان کی کھوج کی کہانی ہے جو انہوں نے اپنے اِن الفاظ میں بیان کی ہے:

جب میں تقریباً آٹھ سال کی تھی تو نئی دہلی میں میرے پرائمری اسکول کے ایک اُستاد نے سوال کیا کہ ’آپ کے گھر میں کون کون سی زبانیں بولی جاتی ہیں؟‘

میں انڈین زبانوں میں سے صرف ہندی بولتے ہوئے بڑی ہوئی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے خاندان کی دوسری علاقائی زبان کون سی ہے۔ اور یہاں اس حقیقت سے میں آگاہ ہوئی کہ میری مادری زبان سندھی ہے جو سرحد پار پاکستان میں ایک بڑے صوبے میں بولی جاتی ہے۔

میں نے اس زبان کے بارے میں کبھی سُنا ہی نہیں تھا۔ میرے خاندان نے اپنی آبائی زبان کو کیسے کھو دیا۔ دوسرے انڈین خاندانوں کے برعکس ہم اب اپنی علاقائی زبان کیوں نہیں بولتے۔

اس کا جواب ایک ایسے واقعے میں پوشیدہ ہے، جس نے نہ صرف میرے خاندان کی تاریخ کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ برصغیر کی تقسیم کی صورت میں زبان کو ہی نئی شکل دے ڈالی۔

میری دادی جان کا تعلق پاکستان کے صوبے سندھ سے ہے جو برصغیر کی تقسیم سے پہلے مذہبی اور ثقافتی طور پر مخلوط صوبہ تھا، جہاں ہندو اور مسلمان دونوں ہی رہتے تھے، تاہم مسلمان اس علاقے میں اکثریت میں تھے۔

سندھی سب سے زیادہ بولی جانے والی علاقائی زبان تھی۔ جب ملک تقسیم ہوا تو سندھ پاکستان کا حصہ بنا اور اس کی ہندو اقلیت بشمول میری دادی اور ان کا خاندان ہندوؤں کے خلاف ظلم و ستم کے خوف سے انڈیا آ گئے۔

اس طرح سندھ نے اپنی ہندو برادری کی اکثریت کو کھو دیا اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف اور ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے بہت سے ہندوؤں نے اپنا گھر بار کھو دیا۔ وہ مقام کہ جہاں اُن کی مادری زبان ’سندھی‘ بولی جاتی تھی۔

14 سال کی عمر میں میری دادی جان نے سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ گلی محلے کہ جہاں وہ پلی بڑھیں اور اپنا بچپن گُزارا، سب چھوڑ دیا۔ حتٰی کے رشتہ دار اور دوست، جنہیں وہ بے حد پیار کرتی تھیں، سب پیچھے رہ گئے۔

ان کے بچپن کی ایک نشانی ایسی تھی، جسے میری دادی سرحد پار لا سکتی تھیں اور وہ تھی ان کی سندھی زبان۔

یاد رہے کہ انڈیا دنیا کے سب سے زیادہ لسانی طور پر متنوع ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاں اندازاً ہم مجموعی طور پر 122 سے 456 زبانیں بولتے ہیں۔

نئی دہلی میں بھی انڈیا کے کئی دوسرے بڑے شہروں کی ہی طرح لوگ کم از کم دو زبانیں بولتے ہیں۔

جب میری دادی نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑا تو وہ اپنے ساتھ اس زبان کو لے کر آئیں جو اس بات کی علامت ہے کہ انہوں نے کیسے ایک مخلوط ثقافت میں پرورش پائی۔

اب ایک نئے ہندوستان یعنی موجودہ انڈیا میں پہنچ کر انہیں اپنی نئی ریاست، دلی کی عام زبان ہندی پر عبور حاصل کرنا پڑا۔ یہ وہ زبان ہے جس میں آج میں انہیں دادی کہہ کر پکارتی ہوں۔

دیگر سندھیوں نے مقامی آبادی سے بات چیت کے لیے عام طور پر ان ریاستوں کی زبان کو ہی اپنایا، جہاں انہیں پناہ ملی اور یوں نوجوان نسل سندھی سے دور ہوتی چلی گئی۔ دوسرے خاندانوں کی طرح جب یہ زبان ہم سے بھی روٹھ گئی تو اب دوبارہ اس کی بحالی ایک چیلنج سے کم نہیں۔

سندھی کے بارے میں ایک سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دو منقسم اور سیاسی حریف انڈیا اور پاکستان کی لسانی خصوصیات کو یکجا کرتی ہے۔

سندھی ’پراکرت‘ زبانوں کے گروہ سے تعلق رکھتی ہے جو ہندوستان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہندی سے قبل رائج تھی، لیکن سندھی ادب کا بڑا حصہ ترمیم شدہ فارسی عربی رسم الخط کا حصہ بن چکا ہے۔

سندھی پاکستان اور انڈیا کی ریاستوں کی کچھ زبانوں سے بھی کافی مختلف ہے۔ اس زبان کا لہجہ قدرے کرخت ہے۔

انڈیا کے شہر گاندھی دھام میں تولانی کالج آف آرٹس اینڈ سائنس میں سندھی کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ویمی سدرنگانی نے خاص طور پر ایسے چار الفاظ ɓ, ɗ, ɠ and ʄ کا خاص ذکر کیا ہے۔

ان الفاظ سے کرختگی کو نکالنا بہت مشکل بتایا گیا ہے کیونکہ یہ دوسری زبانوں میں بھی بہت عام ہیں۔ سندھی میں چار دیگر لہجوں یا آوازوں کا بھی اثر ہے جو سنسکرت سے اس میں شامل ہوئے مگر اب خود یہ زبان جدید ہندی میں متروک ہو چکی ہے۔

ان کے مطابق ’اگر آپ ان کا استعمال کرتے ہوئے بڑے نہیں ہوئے تو انہیں سیکھنا مشکل ہے۔‘

سدرنگانی نے اس کی وضاحت میں مزید بتایا کہ ان آوازوں کے درست تلفظ کی ادائیگی کے بغیر سندھی کو لکھنا اور پڑھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

کرن تھادھانی انڈیا نژاد امریکی ہیں، جن کے دادا دادی تقسیم کے دوران سندھ سے انڈیا کے علاقے احمد آباد منتقل ہو گئے تھے۔

کرن تھادھانی کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جو زبان سے دوبارہ جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی پیدائش تو امریکہ کی ہے تاہم اب وہ برطانیہ میں لندن رہتی ہیں جہاں وہ سندھی کی کلاسز لے رہی ہیں تاہم اس کے تلفظ میں انہیں مشکل ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں ہمیشہ کلاس کے دوران اپنی زبان کی درستی کی کوشش کرتی ہوں اور مجھے بار بار کہا جاتا ہے کہ اس کو دوبارہ کہیں اور میں بار بار کہتی ہوں ’اوہ ڈیئر یہ مجھ سے ٹھیک سے بولا ہی نہیں جا رہا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کچھ الفاظ منھ سے نکلتے ہوئے ٹھیک محسوس ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر وہ لہسن اور پیاز کے (متبادل سندھی) الفاظ کی ادائیگی درست کرنا جانتی ہیں کیونکہ کھانا ان کے خاندانی مباحثوں کا ایک بڑا حصہ ہے، لیکن دوسرے الفاظ انہیں زیادہ مشکل محسوس ہوتے ہیں اور غیر مقامی محسوس ہوتے ہیں جیسے کہ لفظ گڈی (گُڏي) جس کا مطلب گڑیا ہے اس میں لفظ ڈ (ڏ) کے اوپر (نرم امریکی انداز میں) ان سے زور نہیں لگتا۔

تھادھانی کے والدین کے مطابق اگرچہ ان کی بیٹی نے بولنا شروع کرتے شروع میں سندھی لفظ ہی بولے۔

’جب میں نے امریکہ میں اسکول جانا شروع کیا تو ایسا بھی ہوا، جب میں نے غلطی سے سندھی میں کچھ بول دیا۔‘

تھادھانی اٹلانٹا کے سفید فام اکثریتی مضافاتی علاقے میں رہتی تھیں، جہاں کمیونٹی میں میل جول بڑھانے کے لیے جن چیزوں میں ان کو دباؤ محسوس ہوا ان میں سے ایک ان کی ’سندھیت‘ (سندھی شناخت) کو پسِ پشت ڈالنا تھا۔

’اب میرا اپنی پہلی زبان کے ساتھ واقعی ملا جلا سا ایک تعلق ہے‘ تاہم آج تک وہ سندھی میں اپنے گہرے جذبات کا اظہار کرنا آسان سمجھتی ہیں۔

’میرے پاس اب بھی سندھی کے مکمل الفاظ نہیں ہیں لیکن کچھ ابتدائی اور سب سے کم عمری کے احساسات جو میرے پاس ہیں، ان سے میں سندھی میں جہاں پہنچ سکتی ہوں، وہاں انگریزی میں نہیں پہنچ سکتی۔‘

مجھے سندھی الفاظ اور تاثرات کی ایک حد سے متعارف کرایا گیا ہے جو مجھے اس مضمون کے لیے گفتگو کے ذریعے دلکش محسوس کرتے ہیں۔

’لفظ ’اڳ پوءِ‘ ایک آسان اصطلاح ہے جو میں نے مصنف اور مورخ ساز اگروال سے سیکھی۔ اس کے معنی ہیں کہ جب آپ یہ کام کر رہے ہیں تو لگے ہاتھوں یہ بھی کر لیں۔‘

آج سرحد کے اس پار بولی جانے والی سندھی پاکستانی سندھی سے کافی مختلف سنائی دیتی ہے کیونکہ اس میں کچھ آوازیں ہندی سے متاثر ہو کر اپنی اصل ادائیگی کھو رہی ہیں۔

سدرنگانی کے خیال میں زبان پر مکمل عبور حاصل کرنے کے لیے دونوں رسم الخط یعنی فارسی، عربی اور دیوناگری، سیکھنا ضروری ہے۔

وہ کہتی ہیں ’فارسی، عربی، سندھی بھی اس لیے ضروری ہے تاکہ سندھ کے ساتھ تعلق برقرار رکھا جا سکے۔‘

انڈین شہری ہونے کے ناطے میرے لیے صوبہ سندھ کا دورہ کرنا اپنے خاندان کے آبائی گھر کو خود دیکھنا اور وہاں سندھی زبان کے موجودہ حالات کے بارے میں جاننا مشکل ہوگا کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی کشیدگی حائل ہے۔

تاہم سرحد کے دونوں طرف میرے جیسے نوجوان سندھی دیگر طریقوں سے آپس میں جڑ رہے ہیں، خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں، جہاں ہندو اور مسلمان دونوں سندھی بولنے والے نقل مکانی کر کے آباد ہیں۔

فراز احمد کھوکھر ایک مسلمان سندھی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان کے شہر حیدرآباد (سندھ) میں نو سال کی عمر تک رہے۔

اس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے ’سندھی یوتھ کلب‘ کی بنیاد رکھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ میں ان کے روابط پاکستانی سندھیوں کی نسبت انڈین سندھیوں کے ساتھ زیادہ رہے۔

وہ کہتے ہیں ’جب میں پاکستان میں تھا، تب میری انڈین سندھیوں سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ مغربی ممالک میں، جہاں زیادہ تنوع اور کھلے پن کا ماحول ہے، لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، دوست بنتے ہیں، چاہے وہ کہیں سے بھی آئے ہوں۔‘

یاد رہے کہ سندھی یوتھ کلب کے اراکین میں انڈین اور پاکستانی سندھی دونوں شامل ہیں۔

اگرچہ سندھ کے سرکاری اسکولوں میں سندھی پڑھائی جاتی ہے، لیکن فراز احمد کھوکھر کے مطابق پاکستان میں بھی یہ زبان کچھ چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔

فراز احمد نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں سندھی خاندان اپنے گھروں میں سندھی کم بولنے لگے ہیں اور اس کے بجائے بول چال میں زیادہ تر اردو کا استعمال کر رہے ہیں۔ شہری علاقوں میں سندھی کا مقابلہ اردو اور اب تیزی سے انگریزی سے بھی ہو رہا ہے۔

اپنے خاندان میں زبان کو محفوظ رکھنے کے لیےفراز کھوکھر کے والدین انہیں سندھی کے بجائے انگریزی بولنے پر ڈانٹتے تھے اور خاص طور پر جب وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے بات کرتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب میں سوچتا ہوں تو میں خوش ہوتا ہوں کہ انہوں نے ایسا کیا۔‘ اسی کی وجہ سے وہ پاکستان واپسی پر لوگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں، خاص طور پر ان شہروں اور دیہاتوں میں، جہاں سندھی اب بھی بنیادی زبان ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر میں سندھی اچھی طرح نہ جانتا تو جب میں سندھ جاتا تو محض شہری علاقوں تک ہی محدود رہ جاتا۔‘

تقسیم ہند کے بعد انڈیا میں سندھی زبان کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انڈیا کو لسانی بنیادوں پر مختلف ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مثلا گجرات میں رہنے والے گجراتی بولتے ہیں اور پنجاب میں پنجابی، اور ایسے میں سندھی زبان کی اپنی کوئی جگہ نہ بن سکی۔

انڈین مصنفہ ریتا کوٹھاری اپنی کتاب ’دی برڈن آف ریفیوج: سندھی ہندوز آف گجرات‘ میں لکھتی ہیں کہ راجستھان اور گجرات جیسی ریاستوں میں رہنے والے ہندو سندھیوں کو ایک اور مسئلے کا سامنا بھی تھا۔ ان کے مطابق اگرچہ وہ ہندو تھے لیکن مذہبی کشیدگی عروج پر ہونے کے باعث ان کا مسلم اثرات سے بھرپور ثقافتی ورثہ غیر منقسم ہندوستان میں شبہات کا باعث بنا۔

کیونکہ وہ ایک مسلم اکثریتی صوبے سے آئے تھے، فارسی-عربی رسم الخط میں لکھتے تھے اور گوشت خور بھی تھے، جس کے باعث ان کی ’ہندو شناخت‘ پر سوال اٹھایا گیا۔

اس کے علاوہ سندھیوں کو بطور ایک تاجر برادری مخصوص انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

یا جب 1950 میں انڈیا نے اپنا آئین اپنایا اور 14 سرکاری زبانوں کو تسلیم کیا، تاہم ان میں سندھی شامل نہیں تھی۔

کچھ عرصے بعد انڈیا میں سندھیوں نے کامیابی کے ساتھ مہم چلا کر اپنی زبان کو سرکاری زبانوں کی فہرست میں شامل تو کروا لیا، لیکن تب تک یہ زبان پہلے ہی ماند پڑنے لگی تھی۔

آج بھی انڈیا کے قومی ترانے میں سندھ کا ذکر موجود ہے، وہی ترانہ جو میں نے ہر صبح اسکول میں گایا مگر مجھے اس وقت اس کے ساتھ اپنی شناخت سے تعلق کی پہچان نہ تھی۔

جب میں اس دن کے بارے میں سوچتی ہوں، جب مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنی مادری زبان کا نام اسکول میں بتاؤں تو مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد مجھے لینگویجز آف انڈیا نامی فہرست میں سندھی کو شامل کرنے کی اجازت ملی تھی۔

اس پر مجھے ایک طرح کا اطمینان محسوس ہوا کیونکہ میں اس بات پر کشمکش کا شکار تھی کہ اپنے استاد سے ایک ایسی زبان شامل کرنے کی اجازت مانگوں، جو اب پاکستان کے ایک خطے سے جڑی تھی۔

اس وقت مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میری یہ گھبراہٹ کئی دہائیوں سے جاری اس سیاسی بحث کی بازگشت تھی جو سندھی زبان، اس کے بولنے والوں اور انڈیا میں ان کی جگہ کے بارے میں سنائی دیتی تھی۔

سندھی بولنے والوں نے اب آن لائن بھی ایک نیا کمیونٹی نیٹ ورک بنا لیا ہے ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو میری طرح سندھی نہیں سیکھ سکے مگر اب بڑے ہو کر اسے سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

فراز کھوکھر کہتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پر سندھی ویڈیوز دیکھتے ہیں اور پاکستانی و انڈین سندھیوں کے تیار کردہ سوشل میڈیا مواد اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اتارا شاہانی کہتی ہیں کہ ’آپ کو اکثر سندھ کے اس پار رہنے والے سندھیوں کے تبصرے ملیں گے، جو انڈین سندھی گلوکاروں کے گانوں پر بہت مثبت ردِ عمل دیتے ہیں اور انہیں پسند کرتے ہیں۔‘

سندھی کھانے بھی ایک ایسا ذریعہ ہیں جس کے ذریعے ہماری کمیونٹی اپنی زبان اور ثقافت سے جُڑی رہتی ہے۔

سندھی مصنفہ ساز اگروال کہتی ہیں کہ ایک مشہور سندھی ڈش سائی بھاجی ہے جو دال، پالک، سبز پتوں والی سبزیوں سمیت دیگر سبزیوں کا امتزاج ہوتا ہے جسے ٹماٹروں اور مسالوں کے ساتھ پکایا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ شوربہ بن جائے۔ اسے چاول اور پاپڑ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ بہت صحت بخش ہے، اور بچپن میں مجھے یہ بالکل پسند نہیں تھی۔‘

تاہم جب انہوں نے بڑے ہو کر اپنے بچوں کے لیے اسے پکایا، تو حیران رہ گئیں کہ وہ اسے بے حد پسند کرتے تھے۔ ’سائی بھاجی سندھی ثقافت کی ایک پہچان ہے۔‘

انہوں نے سندھی کڑھی کا بھی ذکر کیا، جو مجھے اس کھانے کے طور پر یاد ہے جس کے لیے میری دادی مشہور تھیں۔ یہ چنے کے آٹے، سبزیوں اور املی کے رس سے بنی ایک کھٹی میٹھی کڑھی ہوتی ہے جو دیگر برادریوں کی کڑھی سے مختلف ہوتی ہے۔

اس کا خیال بھی مجھے اپنے دادا دادی کے کھانے کے کمرے میں لے جاتا ہے جہاں میں اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر یہ ڈش کھاتی اور وہ اپنی مادری زبان میں گفتگو کرتے۔

اس وقت واحد سندھی جملہ جو مجھے یاد تھا، وہ تھا ’گُٹے واڑی بھاکی‘ جس کا مطلب ہے ’محبت بھری سخت جپھی۔‘

میں یہ جملہ تب کہتی، جب اپنے والدین اور دادا دادی کو گلے لگاتی۔

مگر اس مضمون پر تحقیق کرتے ہوئے، میرے والد نے مجھے بتایا کہ میں یہ جملہ پچھلے 10 سال سے غلط بول رہی ہوں۔

تو شاید سندھی سے دوبارہ جُڑنے کا میرا پہلا قدم یہی ہوگا کہ میں اس کا صحیح تلفظ سیکھوں۔ میں نے حال ہی میں ایک سندھی زبان سیکھنے کے کورس میں داخلہ لیا ہے۔ اگر میں اچھی طرح مشق کروں تو کون جانتا ہے شاید ایک دن میں اپنی فیملی میں سندھی زبان کے دوبارہ اپنانے میں کردار ادا کر سکوں۔

میرے سندھی کلاسز میں داخلہ لینے کے چھ دن بعد میری دادی کی وفات ہو گئی۔

میں یہ مضمون پریما بھمبھانی کے نام کرتی ہوں، جنہوں نے ایک پوری زبان کو سرحد پار اپنے ساتھ لے جانے کا بوجھ اٹھایا اور اس کی اتنی یادیں محفوظ رکھیں کہ آج میں اس سے دوبارہ جُڑ سکوں۔

بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close