
کہتے ہیں جب ہوائیں بدلتی ہیں تو پرندے بھی راستہ بدل لیتے ہیں، مگر سندھ کی زمین پر جو منظر اب ابھرتا جا رہا ہے، وہ صرف ہواؤں کا قصہ نہیں، پانی کے ناپید ہوتے خوابوں کا نوحہ بھی ہے۔
2023 تک سندھ کی جھیلیں، دلدلی علاقے اور کھلے پانی کے ذخائر دنیا بھر کے مسافر آبی پرندوں کا مسکن تھے۔ یہ پرندے، جو ہزاروں میل کا سفر کر کے یہاں کے دلکش اور زرخیز آبی ذخیروں تک پہنچتے تھے، نہ صرف فطرت کے بے مثال مظاہر تھے بلکہ سندھ کے حیاتیاتی تنوع کی خوبصورت علامت بھی۔
لیکن اب، سرمئی آسمانوں پر کم ہوتے پرندوں کے غول ایک بے زبان ماتم کی صورت بکھرتے نظر آتے ہیں۔
کبھی سندھ کی نیلگوں جھیلیں اور دلدلی چراگاہیں ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے جنت ہوا کرتی تھیں۔ انڈس فلائی وے کے سفر پر نکلنے والے لاکھوں مسافر پرندے ہر سال طویل مسافت طے کر کے یہاں اترتے، پر پھیلاتے اور سندھی دھرتی کو اپنی خوبصورت آوازوں اور رنگین پروں سے سجاتے تھے، لیکن اب اب فضا میں وہ پرشور قافلے ماند پڑتے جا رہے ہیں۔
سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے 11 اپریل کو صوبے کی آب گاہوں و آبی گذرگاہوں پر موسم سرما میں انڈس فلائی وے کے مسافر آبی پرندوں کے اعدادوشمار ’اینئوئل واٹرفاؤل سروے‘ کے نتائج کا اعلان کیا ہے، جو سندھ کی آب گاہوں پر ایک تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق 2023 کے بعد سے ان پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ کبھی جو تعداد بارہ لاکھ تک جا پہنچی تھی، اب سکڑتے سکڑتے پانچ لاکھ پینتالیس ہزار رہ گئی ہے۔ اور اس افسوسناک زوال کی سب سے بڑی وجہ پانی کی قلت ہے۔
سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ، اینوئل واٹرفاؤل سروے 2025 کے مطابق سال 2022 میں جب سندھ کی زمینوں پر سیلاب آیا تھا، تو جھیلیں اور آب گاہیں میٹھے پانی سے لبریز ہو گئی تھیں۔ شکار پر عائد پابندیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور یوں 2023 میں سندھ میں بارہ لاکھ مہمان پرندوں کی تاریخی آمد ریکارڈ کی گئی تھی، مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ اگلے ہی برس، یعنی 2024 میں یہ تعداد کم ہو کر چھ لاکھ انتالیس ہزار پر آ پہنچی، اور اب، 2025 میں مزید کم ہو کر پانچ لاکھ پینتالیس ہزار رہ گئی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو بتاتے ہیں ”محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو نے کہا کہ ’آبی پرندے ایک ملک سے دوسرے ملک خوراک کی تلاش، شدید موسمی اثرات سے بچنے کے لیے عارضی طور پر آتے ہیں۔“
عالمی سطح کی اب گاہیں سندھ میں ہونے کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں مسافر آبی پرندے سندھ میں اترتے ہیں مگر 2023 کے بعد ان مسافر پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔
یہ محض اعداد کا کھیل نہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا کا نوحہ ہے، جس میں پانی کی کمی نے ان خوبصورت مہمانوں کی راہوں کو روک دیا ہے۔
ممتاز سومرو کے مطابق ’’سندھ میں پانی کی شدید کمی اور مسلسل خشک سالی نے ان آب گاہوں کو اجاڑ دیا ہے جو کبھی مہمان پرندوں کے لیے محفوظ ٹھکانے تھیں۔‘‘
سندھ کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ان 19 آب گاہوں میں سے، جو ’عالمی رامسر کنوینشن‘ کے تحت تسلیم کی گئی ہیں، 10 صرف سندھ میں موجود ہیں مگر ان میں سے اکثر اب پانی کی طلب میں کراہ رہی ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، مگر آبی پرندوں کی گنتی کے لیے صوبے کے 40 فیصد حصے میں ہر سال سروے کیا جاتا ہے۔ اس سال کیے گئے سروے میں سندھ کی مشہور جھیلوں جیسے کینجھر، منچھر، حمل، ہالیجی، لنگھ جھیل اور نریڑی لیگون سمیت 30 سے زائد مقامات کا جائزہ لیا گیا۔ جس کا نتیجہ مایوس کن تھا۔
جہاں کبھی دلدلی میدانوں میں پرندے اپنے گھونسلے بناتے اور چرچراتی آوازوں سے سماعتوں میں مٹھاس گھولتے تھے، اب وہاں خشک مٹی کی دراڑیں اور سنّاٹے کا راج ہے۔ رن آف کچھ وائلڈ لائف سینچری، جو کبھی ہزاروں پرندوں کا مسکن تھی، اب پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔
سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ سروے رپورٹ 2025 کے مطابق بدین کے قریب نریڑی لیگون میں سب سے زیادہ ایک لاکھ بائیس ہزار پرندے دیکھے گئے، جبکہ بدین ہی کے نزدیک رن آف کچھ کے علاقے میں ساڑھے اکیانوے ہزار پرندوں کا اندراج ہوا۔ رن پور ڈیم ننگر پارکر کے مقام پر 22,826 پرندوں نے وقتی بسیرا کیا۔
مگر یہ تعداد بھی پچھلے برسوں کے مقابلے میں نمایاں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ خاص طور پر رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچری کے دلدلی علاقے، جو کبھی ہزاروں پرندوں کے غولوں سے لبریز رہتے تھے، اب پیاسی زمینوں میں بدل رہے ہیں۔
آئی یو سی این IUCN ریڈ لسٹ آف تھریٹینڈ اسپیشیز 2025 کے مطابق اس سال کے سروے میں نہ صرف اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے بلکہ مہمان پرندوں کی تصاویر بھی لی گئیں۔ گرے لیگ گوز، کاٹن پگمی گوز، انڈین اسپاٹ بلڈ ڈک، اوریئنٹل ڈارٹر، لیسر فلیمنگو اور دیگر 57 اقسام کے پرندے ریکارڈ ہوئے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد کامن ٹیل اور شاولر کے علاوہ،انڈین اسپاٹ بلڈ ڈک اور کاٹن پگمی گوز کی کچھ تعداد بھی دیکھی گئی۔
خاص طور پر خطرے سے دوچار نسل گریٹ وائیٹ پیلکن کی خاصی تعداد کا نظر آنا ایک مثبت اشارہ ضرور ہے، مگر مجموعی صورتحال اب بھی تشویشناک ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں 13 مئی کو ’ورلڈ مائیگریٹری برڈ ڈے‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد نقل مکانی کرنے والے پرندوں کو درپیش خطرات کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے اسی مناسبت سے اپنی رپورٹ جاری کی ہے، تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ کس طرح ہم اپنے آبی ورثے اور فطری حسن کو کھوتے جا رہے ہیں۔
سندھ کی جھیلوں پر اتری شاموں میں، کبھی جب سورج سنہری پانیوں پر آخری کرنیں بکھیرتا تھا اور آسمان پر پرندوں کے جھنڈ قطار در قطار پرواز کرتے تھے، وہ منظر اب یادوں کا ایک باب بن رہا ہے۔ پانی کی گرتی سطح، انسانی مداخلت اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے نہ صرف پرندوں کی دنیا اجاڑ دی ہے بلکہ سندھ کے فطری حسن کو بھی دھندلا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، سندھ میں دریائے سندھ سے پانی کے کم ہوتے اخراج، جھیلوں کو ملنے والے فطری چشموں کا بند ہونا، اور آبپاشی کے غیر متوازن منصوبے اس بحران کے بڑے اسباب ہیں۔
حالیہ تحقیق (WWF-Pakistan, 2024) بھی یہی بتاتی ہے کہ پاکستان میں 78 فیصد آبی گزرگاہیں ماحولیاتی دباؤ کا شکار ہیں، جن میں سندھ کی پٹی سرِفہرست ہے۔
مزید براں، غیرقانونی شکار، شہری پھیلاؤ، صنعتی آلودگی، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے ان آب گاہوں کی قدرتی ہیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر فوری طور پر آبی گاہوں کی بحالی، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، اور شکار پر سخت پابندیوں جیسے اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں سندھ کے یہ مہمان پرندے ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں۔
13 مئی کو دنیا بھر میں منایا جانے والا ”ورلڈ مائیگریٹری برڈ ڈے“ اس سال سندھ کے لیے ایک کربناک لمحہ بن کر آ رہا ہے۔
دنیا بھر میں یہ دن ہجرت کرنے والے پرندوں کو درپیش خطرات، ان کے قدرتی مسکن کے تحفظ اور ان کی ماحولیاتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے، لیکن سندھ کی کہانی اس دن ایک سوال بن کر ابھرے گی کہ کیا آئندہ نسلیں بھی ان پرندوں کے جھنڈ دیکھ سکیں گی یا صرف تصاویر اور قصے رہ جائیں گے؟
عالمی ادارے جیسے WWF اور BirdLife International بھی پاکستان میں آبی گاہوں کے تحفظ پر زور دیتے آئے ہیں، مگر اب عمل کا وقت ہے، محض اعلانات کا نہیں۔
مسافر پرندے نہ صرف خوبصورتی کا استعارہ ہیں بلکہ ہمارے ماحولیاتی توازن کے ضامن بھی۔ اگر سندھ کی آب گاہیں سسکتی رہیں تو صرف پرندے نہیں، ہماری دھرتی کی خوشبو، رنگ اور موسیقی بھی خاموش ہو جائے گی۔