
کبھی یہ جھیل ایک نیلگوں خواب ہوا کرتی تھی، جس کے کناروں پر ماہی گیر صبح دم جال ڈالتے اور شام کو مچھلیوں سے بھری کشتیوں سمیت واپس آتے۔ آج وہاں صرف نمک اُڑتا ہے، ریت کے طوفان آنکھوں میں ریت بھر دیتے ہیں اور زمین ایک بےجان ویرانے میں بدل چکی ہے۔۔ یہ ہے ارالکُم صحرا کی کہانی، جو کسی زمانے میں ارال سی کہلاتی تھی۔
المیہ یہ ہے کہ سمندر جس جھیل کے نام کا حصہ تھا، اب اس کی شکل اور نام صحرا نے اپنے نام کر لیا ہے۔۔ ارال سی اب صرف ایک سایہ ہے اس شاندار جھیل کا جو یہ کبھی ہوا کرتی تھی۔۔ اور اس تبدیلی نے پورے علاقے کے موسم کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
1960ء کی دہائی تک، ارال سی دنیا کے سب سے بڑے اندرونی آبی ذخائر میں سے ایک تھی۔ سات دہائیوں کے دوران، یہ جھیل چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو گئی، یہاں تک کہ اس کا بیشتر رقبہ مکمل طور پر بخارات بن کر اڑ گیا اور پیچھے ایک ریگستان چھوڑ گیا۔
اگر یہ جھیل آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہوتی، تو بحیرہ کیسپیئن اور لیک سپیریئر کے بعد سطح کے لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی جھیل ہوتی۔ موجودہ تیسری بڑی جھیل، لیک وکٹوریا، نے بھی گزشتہ دہائیوں میں سائز میں کچھ تبدیلی دیکھی ہے، لیکن ارال سی جیسی شدید نہیں۔ اب تو باقی ماندہ جھیلیں اصل سطح کے صرف 10 فیصد سے بھی کم پر مشتمل ہیں۔
یہ جھیل اب قازقستان اور ازبکستان کی سرحد پر واقع ہے، لیکن یہ کیسے اپنی موجودہ حالت تک پہنچی، یہ سمجھنے کے لیے ہمیں سوویت دور میں واپس جانا ہوگا۔
ارال سی، جو 1960ء کی دہائی تک دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی، 68,000 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ نمکین پانی کی جھیل تھی، لیکن دو بڑے دریا، سیردریا اور آمو دریا اسے تازہ پانی فراہم کرتے تھے، یوں اسے ایک متوازن آبی نظام حاصل تھا۔ ان دو دریاؤں سے اس نمکین جھیل میں تازہ پانی کی آمد سے ایک خشک و نیم صحرائی علاقے میں یہ آبی ذخیرے زندہ تھا۔
سوویت دور میں زراعت، خاص طور پر کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ان دریاؤں کے بہاؤ کو نہروں میں موڑا گیا۔ یہ منصوبے اگرچہ زرعی لحاظ سے کامیاب سمجھے گئے، لیکن اس کے نتائج ارال سی اور یہاں کی ماحولیات کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ جھیل میں پانی کی آمد کم ہوتی گئی اور اس کا حجم تیزی سے سکڑنے لگا۔
سوویت حکومت نے ”Virgin Lands“ اسکیم (غیر آباد زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کے منصوبے) کے تحت وسطی ایشیا کے بنجر علاقوں کو زرعی زمینوں میں بدلنے کا فیصلہ کیا اور دریاؤں سے پانی کا بڑے پیمانے پر رخ موڑ دیا گیا۔ نتیجتاً ارال سی میں پانی کی آمد 90 فیصد تک کم ہو گئی۔ 1980ء کی دہائی تک جھیل دو حصوں میں بٹ چکی تھی: بڑی ارال اور چھوٹی ارال۔
جنوبی حصہ "بڑی ارال” اب بھی سرحد پر موجود تھا، جبکہ "چھوٹی ارال” مکمل طور پر قازقستان میں واقع ہو چکی تھی۔
صورتحال مزید بگڑتی گئی۔ دو دہائیاں اور گزریں اور بڑی ارال بھی دوبارہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: ایک مشرقی شاخ اور ایک مغربی شاخ۔ آج مشرقی شاخ مکمل طور پر غائب ہو چکی ہے اور اس کی جگہ ایک نمکین و خشک میدان نے لے لی ہے، جسے اب ارالکُم صحرا کہا جاتا ہے، زمین کا سب سے نیا صحرا۔
جھیل کی اصل وسعت اب بھی دیکھی جا سکتی ہے، کیونکہ خشک ہو چکی جھیل کی تہہ سفید نمک اور تلچھٹ سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اب صرف ایک معمولی سا حصہ باقی رہ گیا ہے۔
سیٹلائٹ تصاویر میں یہ تبدیلی نہایت خوفناک نظر آتی ہے۔ خشک جھیل کی تہہ سفید نمک، تلچھٹ اور صنعتی کیمیکلز سے ڈھکی ہوئی۔۔۔ آج ارال سی کے صرف 10 فیصد حصے باقی بچے ہیں، جن میں بھی آئندہ سالوں میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔
ارالکُم سے اٹھنے والے نمکین ذرات فضا میں شامل ہو کر ہزاروں کلومیٹر دور تک پھیلتے ہیں، جن کے نتیجے میں سانس کی بیماریاں، کینسر، جلدی امراض اور بچوں کی پیدائش میں پیچیدگیاں سامنے آئی ہیں۔
یہ صرف پانی کی کمی کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے خطے کا مائیکروکلیمٹ تبدیل ہو چکا ہے۔ اب وہاں کی سردیاں پہلے سے زیادہ سخت اور گرمیاں مزید جھلسا دینے والی ہو گئی ہیں۔ بارش کا پیٹرن بدل چکا ہے، اور زراعت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اگرچہ زیادہ تر ارال ناقابلِ واپسی طور پر تباہ ہو چکی ہے، لیکن بین الاقوامی امداد سے قازقستان نے ”کوک-ارال بند“ تعمیر کیا، جس سے سیردریا کا پانی چھوٹی ارال میں دوبارہ بحال ہونا شروع ہوا۔ گزشتہ بیس برسوں میں اس کا پانی 4 میٹر (13 فٹ) تک بڑھا ہے، اور چند مقامی مچھلیوں کی اقسام واپس آ چکی ہیں۔
ارال سی کی یہ المناک کہانی ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ قدرتی وسائل کے ساتھ غیر دانشمندانہ چھیڑچھاڑ کس طرح صدیوں پر محیط ماحولیاتی نظام کو تباہ کر سکتی ہے۔ یہ صرف ایک جھیل کا قصہ نہیں، یہ ایک تہذیب، ایک معیشت، اور ہزاروں زندگیاں کھا جانے والی خاموش تباہی ہے۔
اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے کیا۔