ناٹو ناٹو: کیا بھارت نے پیسے دے کر آسکر خریدا؟

ویب ڈیسک

”ہمیں لگتا تھا کہ پیسوں کے بدلے صرف بھارت میں ایوارڈ خریدے جا سکتے ہیں۔ لیکن نہیں، ہم غلط تھے۔ ’مال دکھاؤ، اکیڈمی ارکان کا موڈ بناؤ اور آسکر جیت لو‘ ورنہ اتنے اچھے گانے چھوڑ کر ناٹو ناٹو کو ہی آسکر کیوں ملتا“

یہ ایک عام تاثر ہے، جو اس وقت بھارت میں فلمی شائقین میں پایا جاتا ہے۔ بھارتی فلموں کے شائقین کی اکثریت مایوس ہے۔ انہیں ایک طرف تو یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ ان کے سینما کو دنیا بھر میں پسند کیا جا رہا ہے لیکن جن فلموں اور گانوں کو پذیرائی مل رہی ہے، ایوارڈز دے جا رہے ہیں، وہ ان سے خوش نہیں ہیں

انہیں لگتا ہے کہ آر آر آر اور اس کے گیت ہماری فنکارانہ صلاحیتوں کی صحیح عکاسی نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں آسکر تھما دیا گیا۔ ان کے بقول اس گانے کے تخلیق کار ایم ایم کیراونی گذشتہ تیس سالوں میں کہیں زیادہ اچھے گیت کمپوز کر چکے ہیں، لیکن آسکر ملا بھی، تو کس پر!

کچھ لوگوں کی مایوسی ایک قدم آگے بڑھ کر سازشی نظریات کے دائرے تک پہنچتی ہے، انہیں لگتا ہے یہ سودے بازی ہوئی ہے

یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ ساؤتھ میں ناٹو ناٹو کی نسبت کہیں زیادہ اچھے گیت تسلسل سے تخلیق ہو رہے ہیں لیکن ان میں سے کتنے عالمی سطح تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں؟

کیا بھارت کے پاس ایسی فلموں اور گیتوں کی بین الاقوامی سطح پر نمائش کے لیے مناسب پلیٹ فارم موجود ہیں؟

ناٹو ناٹو کو بیسٹ اوریجنل گیت کا ایوارڈ ملا ہے۔ اس کی کچھ شرائط اور ایک مخصوص طریقہ کار ہے، جس میں سے چھید کر کے گزرنا ناممکن ہے

آسکر جیتنے کے لیے اوریجنل گانے کے زمرے میں ووٹنگ کے تین مراحل ہیں۔ آپ کو ایک تین منٹ کی وڈیو پیش کرنی پڑتی ہے۔ آسکر میوزک پینل کے پوائنٹس سسٹم کے ذریعے پہلے راؤنڈ میں پندرہ نامزدگیاں ہوتی ہیں

بعد میں دوسرے راؤنڈ کے ذریعے عموماً پانچ گانے، یا اکا دکا مواقع پر چار یا تین یا یہاں تک کہ دو، حتمی طور پر نامزد کیے جاتے ہیں

اس کے بعد ان پانچ میں سے بہترین گیت کو فاتح قرار دیا جاتا ہے، جس کا فیصلہ اکیڈمی کے مستقل اور عارضی ارکان ووٹنگ سے کرتے ہیں

اکیڈمی ارکان نے ناٹو ناٹو کو بہترین اوریجنل گیت کا ایوارڈ دیتے ہوئے مسٹر کیراونی کا تیس سالہ کام نہیں دیکھا بلکہ محض ایک گیت دیکھا، جو نامزدگی کے لیے درست طریقے سے بھیجا گیا تھا اور اس کا فہرست میں موجود باقی گانوں سے موازنہ کیا

آر آر آر کی ریلیز سے پہلے جب ناٹو ناٹو مارکیٹ میں آیا تو اس نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے۔ اس کی دھن اور تال کو پسند گیا

یہ مقامی مارکیٹ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ بالکل جیسے آر آر آر کے ساتھ ہوا تھا۔ لوگ زبان نہیں سمجھتے تھے لیکن اس کی دھن پر رقص کرنے کو بے تاب تھے۔ آر آر آر کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہا تھا اور ناٹو ناٹو کو یقیناً اس کا فائدہ ہوا

مگر محض اس حد تک کہ اس کی رسائی عالمی پلیٹ فارمز تک ہوئی۔

رواں برس جنوری میں جب ناٹو ناٹو کو گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، تب سے یہ بات تواتر سے کہی جا رہی تھی کہ اب آسکر کے اسٹیج پر نئی تاریخ رقم ہوگی

البتہ اس وقت گلوڈن گلوب جیتنے کی ایک وجہ یوکرین کی حمایت اور روس کی مخالفت کو قرار دیا گیا۔ حالانکہ میوزک کی شعبے میں ملنے والے بین الاقوامی ایوارڈز کا دور دور تک کوریوگرافی سے کوئی تعلق نہیں

بالی وڈ سپر اسٹار دپیکا پڈوکون آسکر نائیٹ اسٹیج پر ’ناٹو ناٹو‘ کی پرفارمنس کا اعلان کرنے آئیں تو ان کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ وہ بار بار رکتے ہوئے اپنی بات مکمل کرنے میں کامیاب ہوئیں اور اس دوران شائقین کی چیخ و پکار سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ گانا بھارت سے باہر بھی کتنا مقبول ہے

جب اس کی جیت کا اعلان ہوا تو داد دینے کے لیے لیڈی گاگا بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اب آپ یہ بھی پوچھیں گے کہ انہیں اس اسٹنٹ کے کتنے پیسے دیے گئے تھے؟

’ناٹو ناٹو‘ ہندوستانی دیہی لوک رقص اور گیت کی ایک جدید شکل ہے، جسے فلم کی ضرورت کے مطابق پیش کیا گیا۔ ناقدین اس گانے کو روایتی لوک موسیقی اور جدید فلم سنگیت کے درمیان ایک بامعنی توازن قرار دیتے ہیں

یہ ایم ایم کیراونی یا بھارتی فلم سنگیت کی بہترین نمائندگی نہ سہی، لیکن ایک پہچان ضرور ہے۔ راجمولی نے اسے لڑائی کے پس منظر میں فلم کے اندر ڈالا، جہاں گھونسوں اور لاتوں کے بجائے دشمن کو رقص سے شکست دی جاتی ہے

یہ گیت ہندوستانی سنیما کے لیے نئے امکانات کا دروازہ کھولتا ہے۔ اے آر رحمان اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ سلم ڈاگ ملینیئر پر آسکر جیتنے کے بعد دنیا بھر سے شائقین کی ایک بڑی تعداد بھارتی گیتوں کی طرف متوجہ ہوئی

سامعین کا یہ ریلا ایک فنکار سے ہوتا ہوا دوسرے اور پھر کئی دیگر تک پہنچتا ہے۔ وہ ایک نئے خطے کو دریافت کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس کی تہذیب دیکھنا اور میوزک سننا چاہتے ہیں

یہ کسی بھی بھارتی پروڈکشن کا پہلا گیت ہے، جسے بہترین اوریجنل نغمے کی کیٹیگری میں آسکر ملا ہے

اس سے پہلے اے آر رحمان یہ ایوارڈ جیت چکے ہیں، لیکن فرق یہ تھا کہ ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ بھارت کی پروڈکشن نہیں تھی بلکہ فلم مارکیٹ سے وابستہ برطانوی ادارے اس کے پروڈیوسر تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close