ترکی اور ’پی کے کے‘ کے درمیان امن کا موڑ: ایک چالیس سالہ تنازع کا اختتام؟

ویب ڈیسک

یکم مارچ 2025 کو ایک ایسا اعلان سامنے آیا جس نے ترکی کی دہائیوں پر محیط داخلی جنگ میں ایک تاریخی موڑ کا عندیہ دیا۔ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) نے ترک حکومت کے خلاف اپنی چالیس سالہ مسلح بغاوت کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے اور جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے جیل میں قید رہنما عبداللہ اوجالان کی وہ اپیل تھی جس میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ہتھیار ڈالنے کی تلقین کی تھی۔ پی کے کے نے اس اپیل پر لبیک کہا، مگر اس کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی کہ جب تک اوجالان رہا نہیں ہوتے، مکمل غیر مسلح ہونے کا عمل ممکن نہیں۔

پی کے کے کے اس اعلان کو ترکی میں خوش آمدید کہا گیا ہے، تاہم حکام اور کردوں کے درمیان کشیدگیاں اب بھی برقرار ہیں، اور یہ سوال باقی ہے کہ آیا انقرہ کردوں کو جمہوری رعایتیں دے گا یا نہیں۔

کردوں کو یہ بھی توقع ہے کہ ترکی، شام کے شمال مشرق میں داعش کے خلاف امریکی اتحادی فورس کے طور پر لڑنے والی بنیادی طور پر کردوں پر مشتمل "شامی جمہوری افواج” (SDF) کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں بند کرے گا۔ ترک اور کرد افواج کے درمیان جاری وسیع تر تنازعے کے نتیجے میں اب تک تقریباً چالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بہرحال پی کے کے کا حالیہ اعلان جہاں ایک نئی امید کو جنم دیتا ہے، وہیں اس کے اطراف خدشات، عدم اعتماد اور سیاسی پیچیدگیاں بدستور موجود ہیں۔

 چالیس سالہ تنازع کی کہانی

1970 کی دہائی میں کرد قوم پرستی نے مارکسی سیاسی نظریات کی جانب رخ اختیار کیا، جس نے کرد قوم پرستوں کی ایک نئی نسل کو متاثر کیا۔ ترکی میں عبداللہ اوجالان کی قیادت میں ایک گروہ نے ایک عسکری علیحدگی پسند تنظیم تشکیل دی، جسے پارتییا کارکیرین کردستان (PKK) یعنی کردستان ورکرز پارٹی کہا جاتا ہے۔

پی کے کے کی ابتدائی نظریاتی بنیاد انقلابی سوشلسٹ خیالات اور کرد قوم پرستی کے امتزاج پر تھی، جس کا مقصد ایک آزاد مارکسسٹ-لیننسٹ ریاست ’کردستان‘ کا قیام تھا۔ پی کے کے نے ترکی میں کردوں کے ثقافتی و سیاسی حقوق اور خود ارادیت کے لیے ترک ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کی۔

پی کے کے کی ابتدائی تاریخ کی بات کی جائے تو ابتدائی دور (1978–1984) میں پی کے کے نے ترکی میں کرد عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ترک حکومت کے نظام پر حملے کیے اور علاقے میں اپنا پروپیگنڈا پھیلایا۔ ان کی حکمتِ عملی گھات لگا کر حملے، ہنگامے، احتجاج اور حکومت مخالف مظاہروں پر مبنی تھی۔

ان ابتدائی برسوں کے دوران پی کے کے نے ترکی میں موجود دیگر کرد اکثریتی تنظیموں کے خلاف ’تسلط کی جنگ‘ بھی لڑی۔ اس دور میں پورے ترکی میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جنہوں نے ترک حکومت کو غیر مستحکم کر دیا۔ پی کے کے نے اپنی گوریلا طرز کی مسلح کارروائیاں تین دہائیوں سے زائد عرصے تک جاری رکھیں۔

پی کے کے، جسے مختلف اوقات میں KADEK اور کونگرہ-گِل کے نام سے بھی جانا گیا، کو بین الاقوامی طور پر کئی ریاستوں اور تنظیموں بشمول نیٹو، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

 عبداللہ اوجالان اور پی کے کے

1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں پی کے کے کے رہنما عبداللہ اوجالان شام سے ترکی میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے رہے۔ اس کے ردعمل میں ترک حکومت نے ایک سخت کاؤنٹر انسرجنسی (باغیوں کے خلاف) مہم شروع کی اور شام پر دباؤ ڈالا کہ وہ اوجالان کو اپنے ملک میں آپریشنل بیس کے طور پر کام کرنے سے روکے۔

جب اوجالان کو شام چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، تو وہ کینیا میں گرفتار ہوئے اور ترکی کے حوالے کر دیے گئے تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ اگرچہ انہیں 1999 میں سزائے موت سنائی گئی، مگر چونکہ ترکی اس وقت یورپی یونین میں شمولیت کے لیے درخواست دے رہا تھا، جہاں سزائے موت پر پابندی ہے، لہٰذا ان کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔

پی کے کے سے امن مذاکرات اور ’جمہوری کنفیڈرلزم‘

مارچ 2013 میں، ترک حکومت اور پی کے کے کے درمیان امن قائم کرنے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد کرد عہدیداروں نے جیل میں قید اوجالان کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا، جس میں انہوں نے کہا: ”آج ہم ایک ایسے مقام پر ہیں جہاں بندوقیں خاموش ہوں گی اور خیالات بولیں گے۔ یہ وقت ہے کہ مسلح جنگجو ترکی کی سرحدوں سے باہر چلے جائیں۔ یہ اختتام نہیں، بلکہ ایک نئی شروعات ہے۔“

اب تک یہ جنگ بندی برقرار ہے۔ اوجالان امن کے لیے پے در پے اپیلیں کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ایک دیرپا امن کے لیے جس فلسفے کو تجویز کیا ہے، اسے ’جمہوری کنفیڈرلزم‘ کہا جاتا ہے۔

اس تصور کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ چونکہ کردستان کے لیے ایک آزاد ریاست یا وسیع خودمختاری حاصل کرنا ممکن نہیں رہا، اس لیے ’جمہوری کنفیڈرلزم‘ ایک ایسی جمہوریت کو فروغ دیتا ہے جو ریاست کے بغیر ہو، یعنی لوگ مقامی سطح پر خود کو منظم کریں، خود کفیل بنیں، اور ایک وفاقی ریاست کے اندر اپنے حقوق اور خودمختاری حاصل کریں۔

واضح رہے کہ تقریباً تیس ملین کرد مشرقِ وسطیٰ میں آباد ہیں، جن میں اکثریت ایران، عراق، شام اور ترکی میں رہتی ہے اور یہ ترکی کی کل آبادی (جو کہ تقریباً اناسی ملین ہے) کا تقریباً پانچواں حصہ ہیں۔ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) جسے عبداللہ اوجالان نے 1978 میں قائم کیا، 1984 سے ترک حکام کے خلاف ایک بغاوت کی قیادت کر رہی ہے۔ اس بغاوت کا مقصد بنیادی طور پر ایک آزاد کرد ریاست کے قیام کے لیے ثقافتی اور سیاسی حقوق حاصل کرنا تھا۔ اس جاری تنازعے کے نتیجے میں اب تک تقریباً چالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایک متضاد حکمتِ عملی: تشدد اور سیاست

پی کے کے نے اپنی عسکری شاخ کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی اپنی موجودگی درج کرائی۔ ’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ (HDP) جیسے سیاسی پلیٹ فارم پر کردوں کی نمائندگی بڑھی، جس سے ترک ریاست کے اندرونی توازن پر اثر پڑا۔ تاہم ایچ ڈی پی پر پی کے کے سے روابط کے الزامات بھی لگتے رہے، جن کی بنیاد پر حکومت نے بارہا اس جماعت پر کریک ڈاؤن کیا۔

ترکی میں 2013 میں ’گیزی پارک‘ مظاہرے اور 2016 میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد صدر اردوان کی حکومت نے اقتدار کو مزید مرکزیت دی اور سخت اقدامات کیے، جن میں جنوب مشرقی ترکی میں کردوں کے خلاف وسیع کارروائیاں بھی شامل تھیں۔

 علاقائی میدانِ جنگ: شام اور عراق

پی کے کے کے اثرات صرف ترکی تک محدود نہیں۔ اس کے ساتھ منسلک گروہ، خاص طور پر شامی ’پیپلز پروٹیکشن یونٹ‘ (YPG) اور ’شامی جمہوری افواج‘ (SDF)، شام میں داعش کے خلاف امریکہ کے اہم اتحادی رہے ہیں، جبکہ ترکی انہیں اپنی سرحدوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

2016 کے بعد ترکی نے شام میں کئی فوجی مہمات چلائیں جن میں ’یپغ‘ کو پیچھے دھکیلنے کے ساتھ ساتھ شمالی شام میں سیف زون قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ 2018 میں عفرین پر ترک حملے نے نہ صرف کردوں میں اضطراب پیدا کیا بلکہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا۔

عراق میں بھی PKK کے خلاف ترک افواج کی کارروائیاں جاری رہیں۔ خاص طور پر 2019 کے ’آپریشن کلاو‘ کے بعد ترکی نے شمالی عراق میں مستقل اڈے قائم کر کے پی کے کے کی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

حالیہ پیش رفت: جنگ بندی اور اس کے مضمرات

2023 میں تباہ کن زلزلوں کے بعد پی کے کے نے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا، جس سے دونوں اطراف میں کشیدگی میں کمی آئی۔ یہ ایک نفسیاتی اور سیاسی موقع تھا، جسے بعد میں 2025 کی یکطرفہ جنگ بندی میں تبدیل کیا گیا۔ اس قدم کو ترکی میں عمومی طور پر سراہا گیا، لیکن کئی اہم سوالات بدستور جواب طلب ہیں، جیسا کہ: کیا ترکی عبداللہ اوجالان کی رہائی کے امکان پر غور کرے گا؟ کیا کردوں کو حقیقی ثقافتی و سیاسی حقوق دیے جائیں گے؟ کیا شام میں کرد علاقوں پر ترک فوجی دباؤ میں کمی آئے گی اور کیا پی کے کے کی جنگ بندی دیرپا اور مخلص ہے؟

 بین الاقوامی ردِ عمل

امریکہ، جو شامی کردوں کا اہم حمایتی رہا ہے، اس اعلان کا محتاط خیرمقدم کر رہا ہے۔ واشنگٹن کے لیے یہ توازن نازک ہے: ایک طرف وہ نیٹو اتحادی ترکی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، دوسری طرف داعش کے خلاف لڑنے والے کردوں کو بھی تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ اسی لیے، امریکہ کی طرف سے اس وقت تک کسی بڑی سفارتی پیش رفت کی امید کم ہے، جب تک دونوں فریق عملی اقدامات نہ اٹھائیں۔

داخلی سیاست اور انتخابی اثرات

ترکی میں اس جنگ بندی کا سیاسی اثر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر اردوان اس موقع کو جمہوری اصلاحات کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو انہیں کرد ووٹروں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے، جو ماضی میں PKK کے سیاسی ونگ HDP کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ تاہم اگر حکومتی بیانیہ صرف ’دہشتگردی کے خاتمے‘ تک محدود رہا، تو اس سے کردوں میں مایوسی پیدا ہو سکتی ہے۔

 امن کی راہ یا عارضی وقفہ؟

پی کے کے کا جنگ بندی کا اعلان ایک تاریخی لمحہ ضرور ہے، مگر اس راہ میں کئی کانٹے بچھے ہیں۔ امن تب ہی ممکن ہوگا جب ترک حکومت سیاسی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کردوں کو حقیقی خودمختاری اور ثقافتی آزادی فراہم کرے، اور PKK اپنی عسکریت کو مکمل طور پر ختم کر کے سیاسی عمل میں شامل ہو۔

یہ امن کی راہ کا آغاز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ دونوں فریق تاریخ سے سیکھ کر مستقبل کی تعمیر کریں، ورنہ یہ صرف ایک عارضی وقفہ ہوگا، جس کے بعد پھر ایک نیا دورِ تصادم جنم لے سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close