
سندھ، جو دنیا کے اولین تہذیبوں کی ماں، صدیوں سے جنت نظیر سرزمین کہلاتی آئی ہے، آج بےبسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ وہ سرزمین، جس کی کوکھ سے سندھو تہذیب کا جنم ہوا، جہاں سے انسانیت نے تمدن سیکھا، پہلے اسے عالمی یتیم خانہ بنایا گیا، ڈیموگرافی تبدیل کی گئی، آج کارپوریٹ فارمنگ، ماحولیاتی ناانصافی اور ریاستی بےحسی کا شکار ہے۔ سندھ کا وہ بھرم جس پر اسے ناز ہے، دنیا کی تہذیبوں کی ماں ہونا، اب ٹوٹ رہا ہے، سوال یہ نہیں کہ سندھ کا بھرم ٹوٹ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم خاموش رہ کر اس بھرم کو ٹوٹنے دے رہے ہیں؟
سندھو دریا پر تعمیر ہونے والے چھ کینال، کارپوریٹ فارمنگ اور جنگلات کی کٹائی کو ٹھیکے پر دینا۔۔۔!! یہ معیشت دشمن، زراعت رشمن اور ماحول دشمن اقدامات سندھ کی زمین پر مسلط کر دیے گئے ہیں، جیسے کہ یہ سرزمین کسی نیلامی کا مال ہو۔ سندھ کو گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں، کھیرتھر نیشنل پارک، پئے اور میانی کے جنگلات میں آگ لگنا اور حکومتی مشنری کا خوابِ خرگوش میں سونا، کیا یہ محض ”اتفاق“ ہے؟ یا یہ منظم سازش ہے، جس کا مقصد سندھ کے قدرتی وسائل کو ملیا میٹ کرنا ہے؟
پانی، جو زندگی کی علامت ہے، اب سندھ سے چھینا جا رہا ہے۔ دریائے سندھ کے بہاؤ کو بند کرنا، سندھ کے ڈیلٹا کو بنجر بنانا اور مینگروز کے جنگلات کی کٹائی، یہ سب وہ زخم ہیں جو سندھ کی روح پر لگائے جا رہے ہیں۔
سندھ دھرتی کی خوبصورتی کہیں یا قدرت کا انعام کراچی سندھ کے تین آبی گذرگاہوں کا ڈیلٹا ہے، سندھو دریا جو اتنا وشال اور وسیع دریا ہے کہ مختلف جگہوں، علائقوں سے ہوتا سمندر میں جا گرتا ہے۔ کراچی سے لے کر بدین تک سندھو دریا کا ڈیلٹا ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے، پچھلے ستتر سالوں کے استحصال اور سندھو دریا میں ڈاکے کی وجہ سے اب سندھو دریا میں پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے، وہیں کراچی کی ملیر ندی اور لیاری ندی دو بڑی آبی گذر گاہیں بھی تباہی کے دہانے پر ہیں، جس کی وجہ سے سمندر کا پانی بدین سے لے کر کراچی تک زمینوں کو نگل رہا ہے۔ پانی۔۔ ہاں پانی جو زندگی ہے، سندھ سے چھینا جا رہا ہےـ ڈیلٹا، جو کبھی مچھیروں کی زندگی، زمین کی زرخیزی اور ماحولیاتی توازن کا محور تھا، آج نمکین پانی کے پھیلاؤ اور ماحولیاتی تباہی کی زد میں ہے۔
ملیر اور کھیرتھر سے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے، ملیر کی زرعی زمینوں کی لیز توسیع پر پابندی عائد کی گئی ہے، زرعی زمینوں کو سیٹ لائٹ ٹائون کے نام پر لاکھوں ایکڑ زمینیں بلڈرز کو دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور اس کے ساتھ ریتی بجری مافیا پوری شدّت سے سرگرم ہے۔ برساتی ندیوں سے بےتحاشا ریت نکالی جا رہی ہے، جس کے باعث نہ صرف زیرِ زمین پانی کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے، زراعت تباہی کے دھانے پر ہے بلکہ بچا کھچا پانی بھی کھارا ہو رہا ہے۔ سندھ کی زرخیز زمین آج پیاسی ہے، اس کی ندیاں سسک رہی ہیں اور اس کے درخت دھواں بن کر فضا میں تحلیل ہو رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک سازش کی طرح محسوس ہوتا ہے، ایک گہری اور خاموش جنگ جو سندھ کے وجود کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس جنگ کے تماشائی بنے رہیں گے؟ یا سندھ کے وارث بن کر کھڑے ہوں گے؟
سندھ صرف ایک خطہ نہیں، یہ ایک تہذیب ہے، ایک تاریخ ہے، ایک شناخت ہے۔ ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم سندھ کو صرف ماضی کی ایک خوبصورت یاد کے طور پر چھوڑنا چاہتے ہیں یا اسے مستقبل کے لیے بچانا ہے۔
سندھ کا بھرم اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اسے ٹوٹنے سے بچانا ہے یا خاموشی سے دیکھتے رہنا ہے؟