موٹرسائیکل کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ۔۔ نئی قیمتیں کیا ہیں؟

موٹر سائیکل کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین کو دھچکا لگنے کا سلسلہ رک نہیں سکا اور آئے روز قیمتوں میں بڑھوتری کی خبریں آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تازہ خبر یہ ہے کہ اٹلس ہونڈا لمیٹڈ نے قیمتوں میں پانچ ہزار سے پندرہ ہزار روپے کا اضافہ کر دیا ہے، جس کا اطلاق آج یکم مئی سے ہوگا

ہونڈا سی ڈی 70 کی نئی قیمت ایک لاکھ 54 ہزار 900 روپے، سی ڈی-70 ڈریم کی ایک لاکھ 65 ہزار 900 روپے، پرائڈر 2 لاکھ 3 ہزار 900 روپے، سی جی 125 کی نئی قیمت 2 لاکھ 29 ہزار 900 روپے، سی جی 125 ایس کی قیمت 2 لاکھ 75 ہزار 900 روپے، سی بی 125 ایف کی قیمت 3 لاکھ 80 ہزار 900 روپے، سی بی 150 ایف کی قیمت 4 لاکھ 73 ہزار 900 روپے اور سی بی 150 ایف۔سلور کی نئی قیمت 4 لاکھ 77 ہزار 900 روپے ہوگی

پاکستان کے دوسرے بڑے موٹرسائیکل اسمبلر یونائیٹڈ آٹو انڈسٹریز نے بھی 9 مئی سے یونائیٹڈ 70 سی سی اور 125 سی سی ماڈل کی قیمت میں 3 ہزار سے 5 ہزار روپے تک اضافے کا اعلان کر دیا، جس کی وجہ بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو بتایا گیا ہے

کراچی میں نئی اور پرانی موٹر سائیکلوں کی مارکیٹ اکبر روڈ پر ڈیلر محمد صابر شیخ نے بتایا کہ اٹلس ہونڈا کی جانب سے 70 سی سی اور 125 سی سی کے دہائیوں پرانے ماڈل کا 96 فیصد مقامی سطح پر بنانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اس تناظر میں روپے کی قدر میں کمی کے نام پر قیمتوں میں اضافہ جائز نظر نہیں آتا

انہوں نے یاد کیا کہ دسمبر 2017 میں سی ڈی 70 اور سی جی 125 بالترتیب 63 ہزار 500 روپے اور ایک لاکھ 5 ہزار 500 روپے میں دستیاب تھی

ان کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل کی قیمتوں میں اضافہ سی کے ڈی کٹس کی درآمد اور ربر اور پلاسٹک کے پرزہ جات کی مقامی سطح پر تیاری کی وجہ سے ہے کیونکہ ان پرزوں کا خام مال بھی درآمد کیا جا رہا ہے

خیال رہے کہ 4 مارچ کو ڈان کی رپورٹ کے مطابق اسمبلرز نے روپے کی قدر میں کمی اور مہنگے خام مال کی وجہ سے موٹر سائیکل کی قیمتوں میں 5 ہزار سے 25 ہزار روپے تک کا اضافہ کر دیا تھا

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے اسمبلرز فوری طور پر قیمتیں بڑھا دیتے ہیں، تاہم جب مقامی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ قیمتیں کم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں

بجلی کا جھٹکا

مقامی سطح پر سستے ایندھن سے 63 فیصد سے زیادہ بجلی کی پیداوار اور حالیہ مہینوں میں بنیادی ٹیرف میں غیر معمولی اضافے کے باوجود سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) نے صارفین سے مئی میں ایک روپے 17 پیسے فی یونٹ اضافی فیول لاگت کی مد میں تقریباً 10 ارب روپے مزید وصول کرنے کے لیے درخواست دی ہے

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے ڈسکوز کی بذریعہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) دائر کردہ ٹیرف پٹیشن کو منظور کرتے ہوئے 3 مئی کو عوامی سماعت طلب کرلی تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ آیا ماہانہ فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) میکانزم کے تحت ٹیرف میں مجوزہ اضافہ درست ہے یا نہیں

رپورٹ کے مطابق منظوری ملنے پر ڈسکوز اپنے صارفین سے مارچ میں استعمال کی گئی بجلی کی مد میں تقریباً 9 ارب 93 کروڑ روپے کی اضافی رقم وصول کریں گے حالانکہ بجلی کی پیداوار میں مقامی سستے ایندھن کا حصہ 63.5 فیصد رہا

ایف سی اے میں اضافہ بنیادی اوسط ٹیرف میں 7 روپے فی یونٹ سے زائد اضافے، سلسلہ وار سرچارجز اور فرنس آئل اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) جیسے درآمدی ایندھن کی لاگت میں کمی کے باوجود ہوا ہے

خوراک، توانائی کی بلند قیمتوں کے سبب مہنگائی کی شرح 38 فیصد پر پہنچنے کا خدشہ

آنے والے مہینوں میں افراط زر بلند رہے گی اور خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے یہ اپریل میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتی ہے

وزارت خزانہ نے ہفتہ کو جاری کردہ اپنی ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک میں کہا ’اگرچہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ظاہر ہو رہا ہے لیکن وہ اب بھی وبائی امراض سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں بلندی کی سطح پر ہیں‘

آؤٹ لک میں کہا گیا کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے سست بحالی کی وجہ سے ضروری فصلوں کی فراہمی مقامی ضروریات سے کم رہی جس کے نتیجے میں مہنگائی میں شدت آئی

وزارت کی اس رپورٹ کے برعکس دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے قوم کو گندم کی ریکارڈ پیداوار پر مبارکباد دی ہے

وزارت نے آؤٹ لک میں کہا کہ زراعت میں اس سال خریف کی فصلوں کے لیے بیج، زرعی قرضہ اور کھاد سے متعلق معلومات کی دستیابی تسلی بخش رہے گی

تاہم ہو سکتا ہے کہ موسمی حالات سازگار نہ رہیں کیونکہ آئندہ تین ماہ،اپریل سے جون تک اوسط سے زائد بارشیں ہونے کی توقع ہے

 مہنگائی نے میٹھی عید کو کڑوا بنا دیا

رواں سال میٹھی عید کپڑے، جوتے اور مصنوعی زیورات بیچنے والے بہت سے دکانداروں کے لیے کڑواہٹ گھل گئی کیونکہ مہنگائی کے مارے شہریوں کی بڑی تعداد نے قیمتوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے خریداری کے لیے مارکیٹ کا رخ نہیں کیا

تاجروں نے قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی اور درآمدات پر پابندیوں کو ٹھہرایا

ایم اے جناح روڈ پر میمن مسجد کے قریب واقع کپڑا مارکیٹ (جسے عام طور پر کاغذی بازار کہا جاتا ہے) میں بغیر سلے کپڑے اور شلوار قمیض کی بھاری قیمتوں کی وجہ سے خریداروں کی کمی دیکھی گئی

چیئرمین کاغذی بازار اولڈ سٹی تاجر اتحاد یعقوب بالی نے کہا کہ مردوں کے لیے فیصل آباد سے آنے والے شلوار قمیض کے کپڑے کی قیمت گزشتہ ایک سال کے دوران اوسطاً نصف تک بڑھ گئی ہے یعنی 400 روپے فی میٹر فروخت ہونے والے کپڑے کی قیمت اب 600 روپے ہو گئی ہے

گزشتہ سال کے دوران کاٹن کے سوٹ کی قیمتوں میں کم از کم 60 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ورائٹی کے لحاظ یہ 100 روپے سے 1000 روپے فی میٹر میں دستیاب ہیں

خواتین کے کپڑوں کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جس کے بعد فی سوٹ 1200 روپے سے 5 ہزار روپے میں فروخت ہونے لگا ہے

یعقوب بالی نے کہا کہ اس عید پر تقریباً 30 سے 40 فیصد مردوں نے شلوار قمیض نہیں سلوائے

انہوں نے قیمتوں میں اضافے کے لیے کئی عوامل کو ذمہ دار ٹھہرایا، جن میں روپے کی قدر میں کمی، ایندھن کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے زیادہ اخراجات، بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ اور سوت، لیس، کڑھائی اور کپڑے کی بڑھتی قیمتیں شامل ہیں

’سوسائٹی صدر کوآپریٹو مارکیٹ لمیٹڈ‘ کے صدر شیخ محمد فیروز نے کہا کہ امپورٹڈ اور مقامی دونوں طرح کے کپڑوں سے بنے شلوار قمیض کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اس سال عید پر کاروبار کی صورتحال انتہائی مایوس کن رہی۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کی شلوار قمیض کی فروخت کم ہو کر 60 فیصد رہ گئی ہے جبکہ مردوں کے سوٹ کی فروخت گزشتہ سال کی عید کے مقابلے میں 40 فیصد رہی، بہت سے تاجر اپنے شلوار قمیض کے اسٹاک کا صرف آدھا فیصد حصہ ہی فروخت کر سکے، روپے کی گراوٹ کی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے دوران چینی کپڑے کی قیمت دگنی ہو کر 400 روپے فی میٹر ہو گئی ہے۔

آل سٹی تاجر اتحاد کے سیکریٹری جنرل محمد احمد شمسی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے تیار شدہ درآمدی اشیا پر پابندی، غیر متوقع شرح تبادلہ اور بھاری درآمدی محصولات کے سبب رواں برس عید الفطر کے لیے مارکیٹ میں درآمدی اشیا کی موجودگی مایوس کن رہی

نتیجتاً کنفیکشنری، بیکری، بچوں کی اشیا، شیمپو، صابن، کراکری، الیکٹرانک، مصنوعی زیورات وغیرہ کی اسمگلنگ طلب اور رسد کے فرق کو پُر کرتی رہی

نارتھ ناظم آباد کی حیدری مارکیٹ میں بچوں کے ملبوسات کے ایک ڈیلر نے کہا کہ ’درآمدی ملبوسات اور جوتے گزشتہ ایک سال کے دوران 40 فیصد مہنگے ہو گئے ہیں جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے صرف ان کی درآمدات 20 فیصدرہیں، رواں برس بچوں کے ملبوسات اور جوتوں کی فروخت 40 فیصد تک رہی‘

آل حیدری بزنس ٹریڈرز اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر سید محمد سعید نے کہا کہ ’بچوں کے درآمد شدہ ملبوسات، جوتے، لوازمات وغیرہ کی فروخت کم رہی جبکہ مقامی صنعتوں کی تیار کردہ مصنوعات طلب اور رسد کے فرق کو ختم کرنے میں کامیاب رہیں، تاہم مہنگائی کے سبب عید کی خریداری میں 30 سے 40 فیصد کمی واقع ہوئی‘

اگرچہ مقامی صنعت نے بھی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنالی ہے لیکن لوگوں کی قوت خرید میں کمی کے سبب اس کی صلاحیت کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کیا جا سکا

سونے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ

دریں اثنا سونے کی قیمتیں گزشتہ روز فی تولہ 686 روپے اضافے کے ساتھ 2 لاکھ 19 ہزار 500 روپے اور 800 روپے فی 10 گرام اضافے کے ساتھ ایک لاکھ 88 ہزار186 روپے ہوکر نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں

آل سندھ صراف جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق عالمی سطح پر سونے کی فی اونس قیمت 6 ڈالر اضافے سے ایک ہزار 990 ڈالر ہو گئی

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک لاکھ 87 ہزار 200 روپے اور ایک لاکھ 60 ہزار 494 روپے فی 10 گرام تھی، جبکہ عالمی مارکیٹ میں ایک ہزار 824 ڈالر فی اونس تھی۔

اس دوڑ میں ٹیٹرا پیک دودھ بھلا کیوں پیچھے رہتا

دوسری جانب، نیسلے پاکستان لمیٹڈ نے سرکلر کے ذریعے ڈیلرز کو فی لیٹر ٹیٹرا پیک کی قیمت میں تقریباً دس روپے اضافے کی اطلاع دی ہے، جس کا اطلاق 10 مئی سے ہوگا، جبکہ اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی، جنوری میں دودھ کا فی لیٹر پیک دو سو بیس روپے میں دستیاب تھا

جبکہ ڈھائی سو ملی لیٹر کے دودھ کے ڈبے کی قیمت ستر روپے کر دی گئی ہے، جو جنوری میں تریسٹھ روپے میں دستیاب تھا

نیسلے پاکستان نے رواں ہفتے سہ ماہی فروخت کی رپورٹ میں بتایا کہ جنوری تا مارچ کے دوران 49 ارب 50 کروڑ روپے رہی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 31 فیصد اضافہ ہے، کمپنی کا تین مہینے کے لیے بعد از ٹیکس نفع بڑے اضافے کے بعد 5 ارب 66 روپے ریکارڈ کیا گیا، جو گزشتہ برس اسی عرصے میں 4 ارب 45 کروڑ روپے تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close