
صدیوں سے سونا انسان کے لیے ایک خواب، ایک لعنت اور ایک ہتھیار رہا ہے، وہ دھات جس نے سلطنتیں بنائیں اور برباد کیں، محبتیں سنواریں اور خون بہایا۔. مگر جہاں سونا اپنی طلسماتی تاریخ رکھتا ہے، وہیں تانبا بھی قدیم انسانی تہذیب کی روح میں رچا بسا ہے۔ یونانیوں نے اسے افروڈائٹ، محبت کی دیوی، سے منسوب کیا۔ یہ دھاتیں، جو آتش فشانی چٹانوں کی گہرائیوں میں جنم لیتی ہیں، انسانیت کے لیے برکت بھی ثابت ہو سکتی ہیں اور مصیبت بھی۔
یہی متضاد کیفیت آج بلوچستان کی تقدیر بن چکی ہے۔ پاکستان کا جنوب مغربی خطہ جو افغانستان، ایران اور بحیرۂ عرب کے سنگم پر واقع ہے۔ 3 لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے اس خطے میں ایسے پہاڑ، صحرا، اور درّے ہیں جو قدرتی حسن کے خزانے بھی چھپائے ہوئے ہیں اور قیمتی معدنیات بھی۔
سونے کی تلاش سے شروع ہونے والا عمل اب بلوچستان کو عالمی سرمایہ داری کے لیے ایک نئی سرزمین میں بدل رہا ہے، لیکن جیسے ہی غیر ملکی کمپنیاں چاغی کے پہاڑوں میں کھدائی کرتی ہیں، یہاں کے باسی اپنے پرانے زخموں اور نئے خطرات کے بیچ جکڑے جا رہے ہیں۔
چاغی کی تانبے کی رگیں
چاغی کے پہاڑ کئی دنیاؤں کے سنگم پر واقع ہیں۔ یہاں کی آتش فشانی چٹانیں، پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کو چیرتی ہوئی صحرا میں سر اٹھائے کھڑی ہیں۔ انہی درّوں میں، ریکوڈک کے نام سے ایک دیو ہیکل کان کھولی جا رہی ہے، ایک اوپن پٹ مائن، جو دنیا کے بڑے معدنیاتی منصوبوں میں شمار ہونے لگی ہے۔ یہ کان کینیڈا کی بیرک گولڈ کمپنی کی ذیلی کمپنی ریکوڈک مائننگ کمپنی چلا رہی ہے۔
مارچ 2025 میں، ٹورنٹو میں منعقدہ ایک کان کنی کانفرنس میں بیرک کے سی ای او مارک بریسٹو نے کہا، ”ریکوڈک تو جیسے ابھی آغاز ہے۔“
یہ منصوبہ 2028 میں پیداوار شروع کرے گا اور آئندہ 37 برسوں میں تقریباً 74 ارب ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔ ریکوڈک میں چودہ پورفیری دریافت ہو چکی ہیں، اور اب کوہِ سلطان کے آتش فشانی خطے میں تلاش جاری ہے۔ یہاں اندازہ ہے کہ 2 کروڑ 60 لاکھ اونس سونا اور 8 کروڑ 90 لاکھ اونس تانبا موجود ہے۔ اس دریافت نے بلوچستان کو پاکستان کے معدنیاتی خوابوں کا مرکز بنا دیا ہے۔
ترقی یا استحصال؟
2024 میں حکومتِ پاکستان نے ’اُڑان پاکستان‘ کے عنوان سے پانچ سالہ منصوبہ پیش کیا، جس میں بلوچستان کو دیہی صنعتی ترقی کا محور قرار دیا گیا۔ بریسٹو نے ریکوڈک کو چلی کی ایسکونڈیڈا اور انڈونیشیا کی گراسبرگ جیسی کانوں کے برابر قرار دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف، جو آئی ایم ایف سے تازہ ترین 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ حاصل کر چکے ہیں، معدنیات کے ذریعے معاشی خودمختاری کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اپریل 2025 میں انہوں نے منرلز انویسٹمنٹ فورم میں اعلان کیا: ”خام مال کو ملک سے باہر جانے نہیں دیا جائے گا۔“
گوادر اور بلوچستان کے ذریعے چین، مشرق وسطیٰ، اور افریقہ کو جوڑنے والا سی پیک منصوبہ اس پالیسی کا حصہ ہے، جس کی لاگت 60 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
معاہدے جنہوں نے مایوس کیا
1993 میں آسٹریلوی کمپنی BHP کو ریکوڈک کے 75 فیصد شیئرز دیے گئے، جس پر بلوچستان میں شدید عوامی ردِ عمل دیکھنے کو ملا۔ یہاں کی مقامی آبادی پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہی تھی، اور وسائل کی اس لوٹ مار کو ایک نئی ناانصافی کے طور پر دیکھا گیا۔ 2006 میں بیرک اور انتوفاگاستا نے مشترکہ کمپنی Tethyan Copper کے ذریعے منصوبہ آگے بڑھایا، لیکن بلوچستان حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً کمپنی نے ICSID میں مقدمہ دائر کیا، اور 2019 میں پاکستان کو 6 ارب ڈالر جرمانہ کیا گیا۔
اب معاہدہ کچھ مختلف ہے، پاکستان کے پاس منصوبے کے 50 فیصد شیئرز ہیں، جن میں 25 فیصد بلوچستان حکومت کے لیے مختص ہیں۔ بیرک کے پاس باقی نصف ہیں، جن میں سے 10 فیصد بطور شراکت بلوچستان کو دیے گئے ہیں۔ بلوچستان کو 5 فیصد نیٹ اسملٹر ریٹرن بھی دیا جائے گا۔ مارک بریسٹو کا دعویٰ ہے: ”دنیا میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں جہاں کسی صوبے کو اتنا فائدہ دیا گیا ہو۔“
لیکن سچ یہ ہے کہ سعودی عرب کی Manara Minerals ان شیئرز کا 10 تا 20 فیصد خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ منصوبے کو سیاسی خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ایک غیر مساوی معیشت
بلوچستان، جو ملک کے معدنیاتی وسائل کا نصف رکھتا ہے، پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں محض 4.5 فیصد کا حصہ ڈال رہا ہے۔ یہاں 70 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سوئی گیس کی مثال لے لیں، اس کا بڑا حصہ پنجاب اور سندھ کو جاتا ہے، لیکن بلوچستان خود اس سہولت سے محروم ہے۔ لوگ ایران سے تیل اسمگل کر کے اپنے چولہے جلاتے ہیں، اور اسی میں ان کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔
ریاستی جبر کی سیاہی
ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے لطیف جوہر، جو اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کہتے ہیں: ”بلوچ عوام کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔“
جوہر کا مؤقف ہے کہ ریکوڈک جیسے منصوبے بلوچستان میں جاری ریاستی جبر سے الگ نہیں سمجھے جا سکتے۔ 2023 میں انہوں نے ٹورنٹو میں مارک بریسٹو سے سامنا کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ منصوبے کی قانونی کارروائی غیر شفاف رہی اور مقامی رضامندی نہیں لی گئی۔
معروف سیاسی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ خبردار کر چکی ہیں کہ فوجی ادارے نجی کمپنیوں کے ذریعے معیشت پر قابض ہو چکے ہیں۔ 2023 میں قائم ہونے والی اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل، جس میں آرمی چیف کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اسی ریاستی گرفت کی علامت ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی ایسے اداروں کے ذریعے کرپشن بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
جون 2025 میں ’انسدادِ دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ‘ منظور کیا گیا، جو بغیر الزام کے تین ماہ کی حراست کی اجازت دیتا ہے۔ ہیومن رائٹس اداروں نے اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ایگزٹ کنٹرول لسٹ، حراستی مراکز، اور انسدادِ دہشت گردی کے سخت قوانین نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانے پر لے لیا ہے۔ ریاست کی یہ جنگ اب بیرونی دشمنوں کے بجائے، اپنے ہی عوام کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔
جبری گمشدگیوں کا زخم
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اب کوئی نئی بات نہیں رہیں، بلکہ یہ ریاستی پالیسی کا ایک مستقل حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ صرف مئی 2025 میں 138 جبری گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے 97 افراد تاحال لاپتہ ہیں جبکہ 12 کو ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے نصف سے زائد کیسز کا تعلق فرنٹیئر کور (ایف سی) سے جوڑا گیا، وہی نیم فوجی دستہ جس کا نام برسوں سے متاثرین کی گواہیوں اور انسانی حقوق کی رپورٹوں میں نمایاں ہے۔
بین الاقوامی و ملکی انسانی حقوق کے اداروں نے بارہا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بحران کی سنگینی کو اجاگر کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تشدد اور غیر قانونی حراست کے واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد کو بلوچ قوم پرست تنظیموں سے ہمدردی یا محض قبائلی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اگرچہ 2022 میں پاکستان نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت جبری گمشدگی جرم قرار دی گئی، مگر عملاً کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اس قانون کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے اس میں سول نگرانی کی کمی پر تنقید کی ہے۔ اس کے برعکس، ریاست نے بلوچستان کے لیے نیا انسدادِ دہشتگردی قانون متعارف کرایا، جس کا مقصد تحفظ نہیں، بلکہ گرفت مزید سخت کرنا ہے۔
لطیف جوہر، جو اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کہتے ہیں: ”بلوچ عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری تحریکیں متنوع ہیں، کچھ مسلح، کچھ پرامن۔ مگر ریاست نے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا ہے۔“
وہ خود بھی اس ریاستی جبر کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کو اغوا اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ ان کا آبائی گھر نذرِ آتش کیا گیا۔ وہ کئی برسوں سے پاکستان واپس نہیں آ سکے۔
ایسے میں جب ریکوڈک جیسے منصوبے کو ترقی اور خوشحالی کے خواب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تو بلوچ قوم کے لیے یہ ایک تلخ مذاق محسوس ہوتا ہے۔ ریاستی استثنٰی، ادارہ جاتی جبر اور خاموشی کی حکمرانی اس ترقی کو غیر منصفانہ، غیر شفاف اور غیر پائیدار بنا دیتی ہے۔
مزاحمت کی آوازیں اور ماہرین کی رائے
اسی جبر کا سامنا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بھی کیا، بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کی نوجوان، فیمینسٹ رہنما، جنہیں احتیاطی حراست میں لیا گیا۔ بی وائی سی ایک مضبوط مگر پرامن سماجی تحریک ہے، جو بلوچ عوام کے اجتماعی حقوق، حقِ خودارادیت، اور فوجی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔
ماہ رنگ کہتی ہیں: ”انسانی جان کا ضیاع معمولی بات نہیں، مگر سامراجی ریاستوں اور نسل کشی کو جواز بخشنے والی قوتوں نے ہمارے لیے یہ معمول بنا دیا ہے۔“
کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں انسانی حقوق کی ماہر اور استاد عبیرہ اشفاق کہتی ہیں، ”مجھے نہیں لگتا کہ بیرک گولڈ اور اس کے مالیاتی شراکت داروں نے بلوچستان میں جاری تنازعہ کا کوئی سنجیدہ یا جامع مطالعہ کیا ہے۔“
عبیرہ، جو زمینی حقوق اور ماحولیاتی انصاف پر کام کرتی ہیں، ماضی میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے منصوبے ملیر ایکسپریس وے کے خلاف کامیاب قانونی جدوجہد کر چکی ہیں۔ وہ ریکوڈک کی قانونی پیش رفت اور ICSID کیس پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور اختلاف رائے کو جرم بنا دینے کی پالیسی پر شدید تشویش ظاہر کرتی ہیں۔
دو سال قبل، گوادر میں انہوں نے بی وائی سی کے قید رہنما صبغت اللہ شاہ سے ملاقات کی تھی، جن کے والد نے ریکوڈک میں بیرونی مفادات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا، اور انہی کی کوششوں سے سپریم کورٹ نے پرانے معاہدے کو منسوخ کیا۔
عبیرہ کا ماننا ہے کہ آج بی وائی سی بلوچ سیاست میں ایک سنجیدہ اور فیصلہ کن قوت کے طور پر ابھر چکی ہے۔
بیرک کا مؤقف اور زمینی حقیقت
ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے بیرک نے جو ماحولیاتی و سماجی اثرات کی رپورٹ (ESIA) جاری کی ہے، اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقامی لوگوں سے مشاورت کی گئی، اور منصوبہ نہ تو کسی کے روزگار کو متاثر کرے گا اور نہ کسی کی زمین کو، کیونکہ یہاں نہ زرعی زمین ہے نہ چرواہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلوچ عوام کا ان زمینوں سے کوئی ”منفرد روایتی یا نسلی تعلق“ نہیں۔
لیکن نقادوں کا کہنا ہے کہ ریکوڈک کو محض سرمایہ کاری کا تنازعہ نہیں، بلکہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ سمجھا جانا چاہیے۔ ICSID نے اس زاویے کو مکمل نظر انداز کیا۔
ایک رپورٹ میں، جو اپریل میں بیرک کو پیش کی گئی، اس بیان کو رد کیا گیا کہ بلوچ محض ایک نسلی اقلیت ہیں: ”بلوچ اپنی تمام سرزمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، اس لیے صرف مخصوص علاقوں میں رضامندی کو کافی سمجھنا گمراہ کن ہے۔“
عبیرہ اشفاق کہتی ہیں، ”یہاں سیاسی تناظر نہایت غیر مستحکم ہے۔ بیشتر مقامی افراد کے پاس نہ انٹرنیٹ ہے، نہ ESIA رپورٹس تک رسائی۔ اور جب کبھی وہ بولنا چاہتے ہیں، ان کے لیے انٹرنیٹ بند کر دیا جاتا ہے۔“
”چاغی اور بلوچستان کے دیگر خطے شدید ریاستی دباؤ، انسانی حقوق کی پامالی، جھوٹے الزامات اور ظالمانہ قوانین کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں سنجیدہ مشاورت یا ترقی ممکن نہیں۔“
بیرک نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں یا ماورائے عدالت قتل میں اس کا کوئی کردار نہیں، اور کہ تمام مالیاتی شراکت داروں نے ”معیاری احتیاطی جائزہ“ لیا ہے۔
بغاوت کے نئے چہرے
ڈیورنڈ لائن کے ساتھ واقع بلوچ علاقے صدیوں سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لوگ بغیر سرحدی چیک پوسٹ کے افغانستان اور پاکستان کے درمیان آتے جاتے رہے ہیں۔ کبھی رشتے داری، کبھی روزگار، کبھی علاج کے لیے، یہ معمول کی زندگی کا حصہ تھا۔ مگر اب جب قیمتی معدنیات کی عالمی دوڑ شدت اختیار کر چکی ہے، تو ان علاقوں پر نئی لکیریں اور پابندیاں کھنچ گئی ہیں۔
چاغی، جو بلوچستان کے نسبتاً پرامن اضلاع میں شمار ہوتا تھا، اب ریاستی عسکریت اور مزاحمت کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ انسداد دہشتگردی کے نام پر سرحدی نگرانی سخت کی گئی ہے، افغانوں کی جبری واپسی کی مہم چلی ہے اور انٹرنیٹ کی بندش معمول بن گئی ہے۔ چمن، اسپین بولدک، گردی جنگل اور سرخاب جیسے علاقے ان پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ریاست انہیں جرائم کے گڑھ قرار دے کر نگرانی بڑھا رہی ہے۔ مگر ان دباؤ کے باوجود، بلوچ مسلح تحریکیں، جیسے بی ایل ایف (BLF) اور بی ایل اے (BLA) چاغی میں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں۔
جنوبی ایشیا کی محقق پرل پانڈیا کہتی ہیں: ”چاغی میں فرقہ وارانہ تشدد کم ہے، مگر علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہو چکے ہیں۔ اور سرفراز بگٹی جیسے سخت گیر شخص کے وزیر اعلیٰ بننے سے سیاسی بات چیت کی گنجائش مزید کم ہو گئی ہے۔“
چاغی ایران کے سیستان و بلوچستان سے متصل ہے، جہاں جیش العدل جیسی مسلح بلوچ تنظیمیں سرگرم ہیں۔ اگست میں اس تنظیم نے مبینہ طور پر پانچ افغان باشندوں کو اغوا کر کے قتل کیا، جنہیں وہ اپنی قیادت پر حملوں کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ اسی دوران، تحریک طالبان پاکستان (TTP) نے بھی بلوچستان میں نئی صف بندی شروع کر دی ہے۔ تاریخی طور پر یہ ژوب کے پشتون علاقوں میں فعال رہی ہے، مگر اب یہ چھوٹے گروہوں کے ساتھ ضم ہو کر چاغی کے قریب اڈے بنا رہی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار ابراہیم بحیث کے مطابق: ”افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد پاکستان کے ساتھ کشیدگی نے چاغی کو ایک نیا اسٹریٹیجک مرکز بنا دیا ہے۔“
مگر پاکستانی ریاست کی سخت گیر پالیسیوں سے عسکریت پسندی کو روکنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جن علاقوں کو ”بے قانون“ کہا جاتا ہے، وہاں غیر قانونی راستوں سے تجارت اور عسکری نقل و حرکت جاری ہے اور اس سب کے بیچ ”ترقی“ کا نعرہ ایک کھوکھلا فریب محسوس ہوتا ہے۔
ریاستی پابندیوں نے عام زندگی کو خطرناک حد تک مشکل بنا دیا ہے۔ قانونی راستوں کی بندش نے عام شہریوں، خاص طور پر مہاجرین، کو غیر قانونی اور جان لیوا راستوں پر مجبور کر دیا ہے۔
”یہ معاملہ تب مزید پیچیدہ ہو گیا جب پاکستان میں قانونی گزرگاہوں تک رسائی محدود ہو گئی،“ افغان امور کے ماہر باہس کہتے ہیں۔ وہ پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ سرحدی پابندیاں علاقائی عدم استحکام کو ہوا دے سکتی ہیں۔ اب وہ دیکھتے ہیں کہ افغانستان کی بڑی غیر رسمی منڈیاں بلوچستان کی طرف کھسک رہی ہیں۔ افغانستان سے معدنیات طالبان کے زیرِ اثر علاقوں کے ذریعے پاکستانی سرحد سے متصل علاقوں میں اسمگل ہوتی ہیں اور پھر انہیں پاکستانی برآمدات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ باہس وضاحت کرتے ہیں، ”افغانستان کی جانب جو کانیں ہیں، وہ اب زیادہ منظم انداز میں کام کر رہی ہیں، کیونکہ طالبان حکومت اپنے وسائل کی ملکیت اور حفاظت میں سنجیدہ ہے۔ اس کے برعکس، بے ضابطہ اور غیر قانونی کان کنی کی سرگرمیاں پاکستانی حدود میں منتقل ہو رہی ہیں، خاص طور پر ان سرحدی علاقوں میں جہاں ریاستی کنٹرول کمزور ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو کم ہی زیرِ بحث آتا ہے۔“
چاغی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دہائیوں پر محیط حکومتی نظراندازی آج ریاستی دباؤ اور عسکری موجودگی کی شکل میں ظاہر ہو رہی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار پاکستان کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں پر گہری تشویش رکھتے ہیں، خاص طور پر ریکوڈک کے ارد گرد۔ ریکوڈک کی سیکیورٹی کے لیے فرنٹیئر کور کے 700 اہلکار پہلے ہی تعینات کیے جا چکے ہیں۔
مارچ میں ایک خوفناک ٹرین ہائی جیکنگ واقعے کے بعد، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اعلان کیا کہ پاکستان ”سرمایہ کاروں اور شراکت داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پیشگی اقدامات کرے گا۔“
پاکستان کے سابق وزیرِ سرمایہ کاری اور بزنس مین محمد اظفر احسن کا 2023 میں کہنا تھا، ”منتخب سول قیادت کو معیشت میں سرمایہ کاری کے عمومی ماحول کی بہتری میں مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کی ترقی کا دارومدار اب ریکوڈک جیسے منصوبوں سے وابستہ ہے۔ تمام فریقین کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ماضی کی عدالتی مداخلت جیسے عوامل دوبارہ نہ دہرائے جائیں، جنہوں نے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔“
لیکن ریاستی مداخلت صرف عدالتوں یا ICSID جیسے بین الاقوامی تنازعات کے مراکز میں نہیں ہوتی، بلکہ زمینی سطح پر بھی نظر آتی ہے، جہاں تشدد، مزاحمت اور جبر کی ایک مکمل تاریخ رقم ہو رہی ہے۔
اے سی ایل ای ڈی ACLED (مسلح تنازعات کے ڈیٹا پروجیکٹ) کے مطابق، 2018 سے اب تک بلوچستان میں کم از کم پچاس عسکری حملے کان کنی کے مقامات یا متعلقہ انفراسٹرکچر پر ہو چکے ہیں۔ ان میں بیشتر چین کی سیندیک کان یا دیگر چینی مفادات کو نشانہ بنانے والے حملے شامل ہیں۔ بم دھماکوں سے لے کر ٹرانسپورٹ ٹرکوں پر حملے، کان کنوں کا قتل اور سیکیورٹی اہلکاروں سے جھڑپیں، یہ سب اس زمینی حقیقت کا عکس ہیں جو اکثر ریاستی بیانیے میں چھپ جاتی ہے۔
مزید برآں، گوادر جیسے بندرگاہی شہروں میں بڑھتی ہوئی معدنی سرگرمیوں نے مزاحمت کو مزید ہوا دی ہے۔ مقامی ٹرک ڈرائیور کئی بار اپنی سیکیورٹی کے بارے میں تشویش ظاہر کر چکے ہیں، اور ہڑتالوں کی دھمکیاں بھی دی جا چکی ہیں۔
تجزیہ کار پانڈیا کہتے ہیں: ”بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال ایک عرصے سے جاری ہے اور یہ استحصال اکثر ’باہر والوں‘ کے ہاتھوں ہوا ہے: جن میں پاکستانی ریاستی ادارے، غیر ملکی کمپنیاں، اور مقامی طاقتور گروہ شامل ہیں۔ یہی احساس مزاحمت کی بنیاد ہے۔“
ریاستی کرپشن، سیاسی جبر اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں مزاحمت اب محض ردِ عمل نہیں، بلکہ بقا کی جنگ بن چکی ہے۔
پاکستان چاغی کے تانبا بردار پہاڑوں سے اپنا اقتصادی مستقبل تراشنا چاہتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس ترقی کی قیمت کون چکا رہا ہے؟
بلوچ عوام اور انسانی حقوق کے کارکنان جبری گمشدگیوں، زمینوں کی زبردستی واگزاری، اور ماحولیاتی تباہی کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ لیکن ریاستی قوتیں ان آوازوں کو دبانے میں مصروف ہیں، اور اس دوران سرمایہ دار کمپنیاں ان خاموش پہاڑوں کے سینہ چیر کر تانبہ نکالنے میں لگی ہیں۔
یہ دوڑ صرف تانبے کی نہیں، طاقت، کنٹرول، اور شناخت کی بھی ہے۔
بشکریہ: کونٹراپنٹل ڈاٹ کام
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)
اردو میں ترجمہ کیا گیا آرٹیکل کا انگریزی لنک