Three Naught Three (افسانہ)

شاہین کمال (کیلگری، کینیڈا)

تیس سالوں کے بعد میں اپنے سسرال لوٹ آئی تھی۔ جو سچ کہوں تو میں تو اس واپسی کہ حق میں نہیں تھی کہ میں دیارِ غیر میں اپنے دونوں بیٹوں کے قریب رہنے کی آرزو مند تھی۔ ماں ہونا بھی کتنا کٹھن ہے نا!!
حالانکہ وہ کل کے بچے جو سوتے ہوئے بھی میرا پلو نہیں چھوڑتے تھے، وہ اب کئی کئی دن سیل فون کا بٹن پریس کر کے ماں کی خیر خبر بھی نہیں لیتے.. پر ممتا کا کیا کیا جائے کہ دل ادھر ہی ہمکتا ہے۔ کہ بیوقوف دل نہ تو دودھ کا حساب مانگتا ہے اور نہ ہی خدمت کی جزا

قیصر، میرے سر تاج، پاکستانی سفارت خانے میں درمیانے درجے کے ملازم تھے۔ ان سے میری ملاقات جکارتہ میں پاکستانی سفارت خانے میں عید ملن پارٹی پہ ہوئی تھی اور وہ تقریب ہمارے ملن کی نوید ٹھہری ۔ ان کی پوسٹنگ کے صدقے میں نے خاصہ ایشیا و افریقہ دیکھ ڈالا، رنگ رنگ کے لوگ اور طرح طرح کے رسم و رواج.. مگر یقین کیجیے بنی آدم کے دکھ سکھ کل عالم میں یکساں ۔ اس میں کوئی تغیر و بہتری نہ ملکی سرحدیں لا سکیں اور نہ ہی مذہب اور ذات برادری

قیصر کی آخری پوسٹگ فن لینڈ میں تھی، گرچہ ہم لوگ وقفے وقفے سے پاکستان آتے رہے مگر قیصر ہمیشہ سے کسی بیرونی ملک ہی میں مستقل سکونت کے حامی تھے

دونوں بیٹے بھی پڑھنے باہر گئے تو وہیں کے ہو گئے اور اب وہیں کہ شہری ہیں۔ ان کے ناطے ہم لوگوں کے لیے بیرونی ملک کی رہائش ممکن تھی، پر جانے آخری دنوں میں قیصر کے سر پر کیا سودا سمایا کہ انہوں نے پاکستان کی رٹ لگا لی۔ میں نے بہت زور لگایا کہ وہ اس ارادے سے باز رہیں پر نا جی… مرد اپنی ہٹ کے پکے۔ اس معاملے میں ہم عورتیں تو عبث ہی بدنام ہیں۔ خیر مجھے ہتھیار یوں بھی ڈالنا پڑے کہ دو سال پہلے میاں جی کا دل چلتے چلتے رک گیا تھا، بس
وہ تو اللہ تعالیٰ کو مجھ بے بس پر رحم آ گیا اور میری اکلوتی پونجی یعنی میرے میاں کے بوڑھے شکستہ دل کو دوبارا مجھے لوٹا دیا

آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں!!!
ماں بچوں کے لیے بے قرار رہتی ہے مگر عورت شوہر سے وفادار ۔ یہ جو میاں بیوی اور بچوں کی مثلث ہے، بڑی ہی جاں لیوا اور عورت کے لیے سخت کٹھن و دشوار۔ بس عورت دونوں کو خوش رکھنے کے جتن میں ساری عمر کسی ماہر نٹ کی طرح تنے ہوئے رسے پر چلتی رہتی ہے۔ خیر پیار کی یہ بازی سرتاج من جیت گئے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ہمراہ پاکستان آنے پر مان گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر چھ ماہ تک یہاں میرا دل نہیں لگا اور طبیعت نے میل نہیں کھایا تو بڑے بیٹے کے پاس سڈنی واپس ۔ چھوٹے کے پاس تو یوں بھی نہیں رہ سکتی کہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں چھ ماہ سورج ڈوبتا نہیں اور اگلے چھ ماہ نکلتا نہیں۔ وہاں تو میرا پاکھنڈی فشارِ خون بڑا فساد مچاتا اور دل افسردگی کی دھند میں ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ سڈنی البتہ طبیعت اور مزاج دونوں کو معتدل رکھتا

قیصر پردیس کی خاک چھان چھان کر اوبھ چکے تھے سو کہنے لگے ”نہیں مجھے انجان مٹی میں دفن نہیں ہونا…“ ساری عمر پردیس میں بِتانے کے بعد اب انہیں کراچی کے بپھرے سمندر، گرمیوں کی حبس بھری دوپہر اور شفق رنگی شاموں کی نمکین ہوا نے بےقرار کر دیا تھا۔ وہ شدت سے نوسٹیلجیا میں مبتلا تھے اور کسی ٹین ایجر عاشق کی طرح اپنے معشوق کے ہجر میں رنجیدہ اور ملن کے لیے آب دیدہ۔ مجھے اپنے جکارتہ کو کہیں بہت بہت پیچھے چھوڑنا پڑا کہ جہاں پیا وہیں جیا۔

کراچی میں ہمارا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں اور کسی بھائی کے ساتھ رہنا قیصر کو گوارا نہیں۔ ابھی ہم دونوں رہائش کے سلسلے میں متفکر ہی تھے کہ قیصر کے بہت پرانے دوست محمود بھائی، جو کہ اب دنیا میں نہیں رہے، ان کے لائق بیٹے مسعود نے یہ مسئلہ نہایت خوش اسلوبی سے حل کردیا۔ ان لوگوں کی کوٹھی کراچی کے ۔ ڈی ۔ اے اسکیم نمبر ون میں عرصے سے خالی پڑی تھی، جس کی دیکھ بھال محمود بھائی کے زمانے میں موجود چوکیدار کا پوتا کرتا ہے۔ مسعود نے بصد اصرار ہم لوگوں کو وہ وہیں رہنے کا کہا اور شیر باز کو ہم لوگوں کے آنے کی خبر دے دی

ایئرپورٹ کے کالے شیشوں کے باہر کراچی کی نمناک رات نے اپنے بچھڑے بیٹے کا گلے لگا کر سواگت کیا اور ہم اوبر میں بیٹھ کر دھندلاتے ستاروں اور برقی قمقموں کی مصنوعی جگمگاہٹ کے درمیان سفر کرتے ہوئے، مٹتے نقوش اور رنگ اتری چادیوای پر مشتمل اداس کوٹھی کے زنگ آلود پھاٹک پر اوبر سے باہر آئے، جہاں کمسن پٹھان چوکیدار اپنی روایتی مستعدی سے چوکس کھڑا ہمارا منتظر تھا

صبح میں نے کوٹھی کا تفصیلی جائزہ لیا اور قیصر کو اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا کہ کوٹھی ہماری ضرورت سے بہت زیادہ بڑی ہے، سو ہم لوگ کوٹھی سے ملحق اینکسی میں منتقل ہو جائیں گے۔ مجھے کاٹیج کے طرز پر بنی اینکسی پہلی نظر میں بھا گئی تھی، اوپر دو بیڈ روم اور نیچے ایک کشادہ ڈرائینگ روم، اسٹڈی اور بڑا سا روشن ہوا دار کچن اور کچن کی مغربی دیوار میں باغ کی جانب کھلتی کھڑکی، جس کے ساتھ لگی دو آدمیوں کی ڈائننگ ٹیبل، بالکل پکچر پرفیکٹ!

یہ اینکسی ہمارے لئے آئیڈیل تھی۔ باغ فی الحال اجڑا ہوا تھا، خیر دیکھا جائے گا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ میں شیر باز کے ساتھ مل کر اینکسی کی صفائی ستھرائی میں جت گئی اور مہینے بعد یوں لگا جیسے جنموں جنم سے یہیں رہتے آئے ہیں

اینکسی کا ایک مقفل دروازہ، جس پر ایک کہنہ تالا جھولتا رہتا تھا، پہروں مجھے متجسس رکھتا۔ آخر کار میں نے مسعود سے اجازت لے کر اس اسٹور کو کھولا، جہاں کچھ بہت پرانے فرنیچر اور کتابوں کے کارٹن تھے۔ وہاں سے ایک قدرے بہتر حال میں روکنگ چیئر اور کتابوں کے کارٹن کی تلاشی پر کچھ کتابیں اور ایک بوسیدہ چمڑے کی بھوری پڑتی جلد والی ڈائری اٹھا لائی۔ گزشتہ کل برستی بارش کی مدھر
رم جھم میں برآمدے میں روکنگ چیئر پر جھولتے ہوئے گرما گرم بھاپ اڑاتی کافی کے ساتھ میں نے کسی مقدس صحیفے جیسی عقیدت کے ساتھ بھوری بوسیدہ چرمی ڈائری کھولی اور۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے سامنے دھندلے اور کہیں کہیں سے مٹے الفاظ میں مختلف تاریخوں میں روداد دل تحریر تھی اور نیلے لفافوں میں کچھ ذاتی خطوط اور دو آفیشل خط بھی۔ خوشنما
تحریر ہجر کے سوز میں سلگتی، نا انصافی پہ نوحہ کناں تھی۔ جگر تھام کے آپ بھی میرے ساتھ ساتھ پڑھیں۔

20 مئی 1970ع

میرے خدا میری سمجھ سے یہ معمہ بالاتر ہے۔ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اس سے بھی بڑا اور مہیب سوال کہ کیوں ہو رہا ہے؟ میں نے اپنی تمام سروس میں ایمان داری کو ترجیح دی اور راست بازی کو پہلا اصول رکھا، میری سروس کے ٹریک ریکارڈ اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا۔ میری پچھلی تمام سروسز مری، سیالکوٹ، منٹگمری، ڈیرہ غازی خان اور جہلم سب میری صلاحیتوں اور شب و روز کی محنتوں اور کاوشوں کے گواہ ہیں پھر اب لاہور میں ایسا کیا کر دیا میں نے؟
پچھلے سال ہی تو مجھے تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا تھا۔
اب اس جرنیلی دور میں جب قانون کی گرفت زیادہ مضبوط ہونی چاہیے تھی ایک ناجائز کام کو روکنے اور بریگیڈیئر کے بہنوئی کی رشوت قبول نہ کرنے کے پاداش میں اس بد ہیبت اور زندہ پھڑکتے تھرکتے گوشت کے شیدا اور ساغر و مینا کے رسیا جرنیل نے مجھے معطل کر دیا! معطلی بھی بد عنوانی کے الزامات کے ساتھ۔ نیا نیا مارشل لاء تھا اور تازہ تازہ کرسی کے نشے میں مدہوش اس نشئی نے بیک جنبشِ قلم 303 بیوروکریٹ کو برطرفی کا پروانہ پکڑا دیا ۔
میں نے انیس سو پچاسں میں ہندوستان سے خالی ہاتھ ہجرت کی اور پاکستان میں کسی بھی قسم کی جائداد کلیم نہیں کی۔ پاکستان کی خدمت کے جذبے سے سرشار یہاں اپنی ذہانت اور محنت کے بل پر مقابلے کا امتحان پاس کیا اور اسسٹنٹ کمشنر اور پھر ڈپٹی کمشنر تعینات ہوا۔ اب میری ذات کا سارا مان اور بھرم بھاری جرنیلی بوٹ تلے کچلا گیا اور آج میں کرپٹ اور بدنام آفیسر گنا جاتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

21 مئ 1970ع

تو بھی نہ کہیں اجڑ کر رہ جائے
وحشت میں بدل نہ جائے دستور
اے ملک تیرے بہت سے شہری
بن باس پہ ہو نہ جائیں مجبور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5 جون 1970

میرا بھیانک سفر جاری ہے، جسے میں کسی اندھیری سرنگ میں ہوں، جہاں روشنی کی کوئی کرن نہیں۔ یہ خیال مجھے رات دن ڈستا ہے کہ میں کسی کام کا نہیں اور یہ تصور ہی روح کا آزار ہے۔ مانو کہ ایک میخ ہے جو سینے میں گڑی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں نہیں آ رہا اور میں عرصے دراز سے اپنی تنہائی کا قیدی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

29 جولائی1970ع

جانِ پدر،
تمہارے اسکول کے ساتھیوں کے تعارف اور تمہاری سائیکلنگ کی مشق کی روداد نے مزہ دیا۔ مجھے تم تینوں کی جدائی بہت شاق ہے اور تم تک پہنچنے کا شدت سے تمنائی۔ سوچو وہ کیسا خوشیوں بھرا دن ہوگا جب ہم ماضی کی طرح
اکٹھے ہوں گے۔ تمہاری مما بتا رہی تھیں کہ جرمن زبان کے مضمون میں تمہاری تئیس غلطیوں کی نشاندہی کے سبب تم پہروں دھاروں روتی رہی۔جانِ پدر، بھلا یہ کوئی رونے کی بات ہے؟ نئی زبان سیکھنا ایک دقت طلب امر ہے اور یہ کڑا صبر اور کامل لگن مانگتا ہے۔ یہ کیا کم خوشی کی بات ہے کہ تم نئی زبان سیکھ رہی ہو اور جلدی ہی اپنے بل بوتے پر نئے افق کی اڑان بھرو گی۔ اداس مت ہو میری پیاری بلکہ پوری بہادری کے ساتھ جس کا تم تینوں نے اب تک مظاہرہ کیا ہے، اسی ہمت کو بروکار لاتے ہوئے خوش رہو بلکہ چڑیا کی طرح مگن چہچہاؤ، خوش گوار نکھرے دن کے سورج کی طرح روشن اور اٹکھیلیاں کرتی ہواؤں کی طرح سرشار رہو۔ میری جان غلطیوں پر رویا نہیں کرتے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہو کر فتحیاب ٹھہرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

14اگست 1970ع

کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوار وطن
کبھی کبھی تجھے تنہائیوں میں سوچا ہے
تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8 اکتوبر 1970ع

میری پیاری۔
حیات کے اس گھور اندھیرے میں، میں تمہیں اور صرف تمہیں ہی سوچ رہا ہوں اور حیران ہوں کہ مقدر ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والا ہے۔ اب جبکہ میں خوش گمان تھا کہ مجھے وطن سے سفر کرنے کی اجازت مل جائے گی اور جدائی کی یہ کٹھن طویل رات ڈھل کر صبح وصال کی پرنور گھڑی ہمارا مقدر ہوگی تو مجھے سی ایم ایل ہیڈ کوارٹر سے یہ شاہی فرمان موصول ہوا کہ انہیں تمہاری بیماریوں سے متعلق وہاں کے ڈاکٹر کا تصدیق نامہ چاہئے کیونکہ میں نے اپنی درخواست میں انہیں تمہاری بیماری کے متعلق بتایا تھا۔ کیا میونخ میں کوئی پاکستانی کونسلیٹ ہے جہاں تم جلد از جلد اپنی بیماری کا تصدیق نامہ جمع کرا سکو؟
مجھے کامل یقین تھا کہ میں جلد ہی تم لوگوں کے پاس ہوں گا مگر اب سب کچھ بہت دور ہوتا محسوس ہو رہا ہے اور میرے ہاتھوں سے امید کی ڈور چھوٹتی جا رہی ہے ۔ مجھے لگتا ہے میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔ چھ ماہ سے میں تم لوگوں سے دور جدائی کی اذیت جھیل رہا ہوں، ہم دونوں کس قدر بے بس ہیں۔ میری جانِ حیات اس سلسلے میں تم جو کچھ بھی کر سکتی ہو جلد از جلد کرو کہ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ یہ لوگ میرے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے میری بےگناہی کی اور کتنی سزا جھیلنی پڑے گی۔ بریگیڈیئر کے بہنوئی کی رشوت قبول نا کرنا میرا ناقابلِ معافی جرم ٹھہرا۔ نہ جانے اپنے اصولوں کی پاسداری کی اور کتنی قیمت چکاؤں گا میں؟ مجھ سے انہوں نے میرا نام اور مان سب چھین لیا، کس کو خبر کہ ہماری جدائی کتنی طویل ہے۔ میں تو شاید نہ آ سکوں تم بچوں کی چھٹیوں پر انہیں لے کر پاکستان آ جانا مگر یاد سے واپسی کی ٹکٹوں کی کنفرم بکنگ کے ساتھ کہ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
جانے اب کب ملنا ہو یا۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

10 اکتوبر 1970ع

ہمارے واسطے یہ رات بھی مقدر تھی
کہ حرف آئے ستاروں پہ بے چراغی کا
لباس چاک پہ تہمت قبائے زریں کی
دل شکستہ پہ الزام بد دماغی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے آگے ڈائری خالی تھی اور اس کے کور میں حفاظت سے کچھ تصویریں رکھی ہوئی تھیں۔ چار پانچ تصاویر جن میں ہنستے کھیلتے خوبصورت بچے اور ان کی کامنی سی ماں تھی۔ وہ تصاویر بہت ہی خوب صورت اور خوش باش فیملی کی آئینہ دار تھیں۔

ایک اکیلی تصویر، جو کسی بہت ہی خوب صورت عورت کی تھی۔ پیار لٹاتی نشیلی آنکھیں اور قاتل مسکراہٹ والی بلا شبہ قدرت کا شاہکار۔

اس تصویر کی پشت پر لکھا تھا
آپ کی، صرف اور صرف آپ کی۔
اسی تحریر کے نیچے انگریزی میں سرخ روشنائی سے
The Kristine Keeler of Karachi
لکھا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ڈائری گود میں رکھے کئی لمحوں تک گم سم رہی پھر میں نے گوگل پہ سرچ کیا جہاں حیرت کا ایک جہان میرا منتظر تھا۔

اخبار کی شہ سرخی میں موصوف کی خودکشی کی خبر تھی اور یہ سارا سانحہ اسی اینکسی میں پیش آیا تھا. یہ پڑھ کر میں سہی معنوں میں کپکپا کر رہ گئی۔
میرے سامنے اسکرین پر ایک ضخیم فائل کھلی پڑی تھی۔ عینی شاہدین کے بیانات، وکلاء کی جرح، وقوع کی ترتیب یا ٹائم لائن اور اخبارات کے تراشے۔ ان سب کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ان میں کچھ مسنگ تھا، جیسے کوئی کڑی ٹوٹی ہوئی ہے اور واقعات میں جھول ہے

کئی دن میرا جی اداس اور ذہن الجھا رہا. پھر میں نے فیسبک پر اس بچی کو ڈھونڈنے کی سعی کی جو اب خود بھی نانی دادی بن چکی ہوگی. اور۔۔ اور۔۔۔۔ لو اینڈ بی ہولڈ ۔
مجھے وہ مل گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے اینکسی کے اسٹور روم سے اس کے والد کی ڈائری ملی ہے اور اب یہ بطور امانت میرے پاس ہے۔ میں نے اس سے کیس پر بات کرنے کی کوشش بھی کی کہ میرا ذہن اسی کیس کے ادھیڑ بن میں مصروف رہتا تھا۔ ڈائری کے لیے اس نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب بھی اس کا کراچی آنا ہوا وہ اپنی امانت لے لے گی پر کیس پر بات کرنے سے معذرت کرلی۔ اور میں کلیجہ مسوس کر رہ گئی گویا ایک پھانس تھی جو سینے میں گڑی رہ گئی۔ میں نے اس سے رابطے میں رہنے کی کوشش کی اور گاہے بگاہے اسے میسنجر پر چھوٹے موٹے میسجز بھی کئے پر دوسری جانب ایک مستقل خاموشی تھی، جو اپنے آپ میں واشگاف جواب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو سال بعد،
ابھی تین ہی دن پہلے کی بات ہے کہ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے ان باکس میں اس کامختصر سا میسج جگمگا رہا تھا۔
I am in Karachi and I want to see you.

کل سہہ پہر وہ اینکسی کے ڈرائنگ روم میں میرے سامنے بیٹھی تھی۔ عین مین ویسی ہی پر وقار اور سہج سہج بولتی ہوئی جیسا کہ میرے ذہن نے اسے تصویر کیا تھا۔ گزرتا کٹھن وقت پیشانی کی لکیروں سے ہویدا اور چہرے پہ حزن کی گہری چھاپ کہ وہ سات سمندر پار سے اپنے باپ کی برسی میں شرکت کرنے آئی تھی۔ میں نے اسے اس کی امانت لوٹا دی۔ ڈائری کو نرمی سے سہلاتے ہوئے اس کی نیلگوں سرمئی آنکھوں سے ٹپکتا ایک آنسو بوسیدہ چرمی ڈائری کے کور میں خاموشی سے جذب ہو گیا۔ کھڑکی کے باہر زرد اداس دھوپ بھی گویا اسے پرسہ دینے کے لیے سکدم تھی اور اندر ڈرائنگ روم میں بھی فضا سخت بوجھل جیسے بھرے دل

اس نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس گپ چپ خاموشی کو توڑا اور کہا ”میری اردو اتنی اچھی نہیں، کیا ہم انگریزی میں بات کرلیں؟“

”جی بالکل! آپ جیسے کمفرٹبل ہوں۔“ میں نے نرمی سے جواب دیا

اس نے لمحوں کی خاموشی میں گویا اپنی گمشدہ ہمتوں کو یکجا کیا اور دھیمی آواز میں شستہ انگریزی میں کہنا شروع کیا ”آپ نے اس کیس کے متعلق بات کرنی چاہی تھی اور کئی سوالات بھی اٹھائے تھے۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ چاہ کر بھی جواب نہ دے سکی۔ یقین کیجیے اپنے پیاروں کی موت کے متعلق بات کرنا بہت دشوار ہوتا ہے، خاص کر جب ان کے ساتھ controversy بھی نتھی کر دی گئی ہو۔

جب ڈیڈی اس جہاں سے گزرے تو میں کم سن تھی اور پاکستان سے بہت دور بھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟
ظاہر ہے ممی ہم دونوں بھائی بہن کو بہت کم باتیں بتاتی تھیں۔ جب میں شعور کو پہنچی تو اپنے چچا سے پوچھا اور ڈیڈی کے دو ایک قریبی دوستوں سے رابطہ کیا اور میونخ کی سنٹرل لائبریری جا کر پاکستانی اخبارات کھنگالے اور ان سب سے حاصل ہونے والی معلومات نے مجھے ایک حیرت آمیز دکھ سے روشناس کیا

اخبارات ڈیڈی کے لیے منفی خبروں سے بھرے پڑے تھے اور یہ ثابت کرتے تھے کہ ڈیڈی نے ان خاتون کے عشق میں جان دی تھی مگر میں یہ کیسے مان لوں؟

میری یادداشت میں ڈیڈی کی مما سے والہانہ محبت نقش ہے۔ ہم چاروں ایک بہت خوش باش فیملی اور آپس میں کلوز ریلیشن رکھتے تھے۔ ان تمام واقعات میں بہت کچھ ایسا تھا جس کی کھوج کی جانی چاہیے تھی، ان پر جرح ہونی چاہیے تھی۔“

اس نے ڈائری سے اپنی پرانی تصویریں نکالی اور انہیں نظر بھر کر دیکھا

”سب سے پہلا سوال تو میرے باپ کی ناجائز معطلی پر ہی اٹھتا ہے۔ ان کی پچھلی پوری سروس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں بالکل بےداغ ہے۔ کہیں کوئی ہیرا پھیری نہیں، عہدے کا ناجائز استعمال نہیں، پھر ان پر یہ الزام کیوں اور کیسے لگا؟ ہمارے پاس اثاثے تو چھوڑئیے اپنی چھت تک نہ تھی۔ پھر وہ کیسے ناکارہ کرپٹ آفیسر تھے جو کچھ جوڑ ہی نہ سکے؟

اگر کیس کی بات کریں تو اس میں بےشمار جھول ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قتل کو خودکشی سے کور کیا گیا ہے اور مقتول کو پھنسانے کی سازش کی گئی ہو۔ مثلاً جائے وقوع پر موجود کافی کی دونوں پیالیاں پولیس والوں نے جائے واردات سے اٹھا کر دھو ڈالیں اور انہیں سنک میں رکھ دیا جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ زہر خورانی لکھی تھی، پھر اتنا بڑا ثبوت کیوں تلف کیا گیا؟
کمرے میں چیزیں الٹی پڑیں تھیں اور ہر طرف کاغذات بکھرے ہوئے تھے اور کمرے میں تشدد کے آثار تھے، فرنیچر الٹے پڑے تھے اور ٹیلی فون کا تار ڈیڈی کے بازو میں لپٹا ہوا تھا اور بستر پر اور ان کے جسم کے نیچے نیفتھلین کی گولیاں بکھری پڑی تھیں ۔

ڈیڈی کی ناک سے بہتا ہوا خون چادر پر ایک بڑا دائرہ بناتا ہوا جم چکا تھا اور تکیہ اور بستر کی چادر پر بھی خون کے چھینٹے تھے۔
مہمان بی بی جو دوسرے کمرے میں بےہوش پڑی تھیں ان کا ہینڈ بیگ موقع واردات سے غائب کر دیا گیا تھا۔
اس تمام کیس میں مہمان بی بی کا کردار، جو سوسائٹی میں شمعِ محفل کے طور پر جانی جاتی تھیں، کیا قابل تفتیش نہ تھا؟

ہاں!! یہی سب پڑھ کر تو میں حیران ہوں کہ کیس کے اہم ترین شواہد تو پہلے موقعے پر ہی ضائع کر دیئے گئے ۔ جب یہ باتیں مجھ جیسے عام انسان کو کھٹک رہی ہیں تو تفتیش کرنے والے کیا گھاس کھود رہے تھے؟“

میں اپنی حیرت نہ چھپا سکی اور بے اختار بول پڑی ”اسمگلروں کا ایک بڑا گروہ جس کو بیوروکریسی کے کچھ افسران اور پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی ان سے مہمان بی بی کے گہرے اور خصوصی تعلقات۔ کیا یہ تعلق پولیس کو الرٹ کرنے کو کافی نہ تھا؟ ایک اخبار نے یہ سرخی بھی لگائی تھی کہ "کیا ڈپٹی کمشنر کو اس لیے مار دیا گیا کہ وہ ایک بین الاقوامی اسمگلروں کے گروہ کی سرگرمیوں سے آشنا تھے؟“

اس نے پرس سے پیلے پڑتے پرانے اخبار کا تراشہ نکال کر مجھے دکھایا۔

جب ان بی بی کی انتیس ستمبر انیس سو ستر کو لندن سے کراچی واپسی ہوئی، لندن جہاں وہ ملک کے ایک بہت بڑے صنعت کار جو خیر سے کھیلوں کے شعبے کے بہت اعلیٰ افسر بھی تھے کہ ساتھ ہلٹن ہوٹل میں فروکش تھیں۔
29 ستمبر کو اس تفریحی دورے کی واپسی پہ کراچی ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے والوں میں سول سرونٹ اور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل تھے، جنہوں نے پلک جھپکتے میں ان بی بی کا سامان کسٹم سے کلیر کروا دیا٠٠ کیا یہ باتیں یہ ثابت نہیں کرتیں کہ ڈیڈی کو فریم کیا گیا تھا؟“

”میں خود حیران ہوں کہ اس معاملے کی اعلیٰ سطح پر چھان بین کیوں نہ کی گئی؟“
میں نے ٹشو کا ڈبہ اس کے قریب رکھتے ہوئے کہا کہ اس کی لہو رنگ آنکھیں برسنے کو تیار تھیں۔

”مہمان بی بی کی تصویر پر سرخ روشنائی سے
The Kristine Keeler of Karachi
لکھنا کیا بہت گہرا اور واضح اشارہ نہ تھا؟

سب سے اہم ڈیڈی کا مما کے نام آخری خط جس میں انہوں نے واضح طور پر لکھا تھا کہ مجھے ابھی تک ناکردہ جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایک افسر اعلیٰ جو برگیڈیئر کے بہنوئی تھے، ان کی رشوت کی پیشکش کو ٹھکرانا، ان کے ناجائز کام سے انکاری ہونا اور اسمگلروں کے ایک consignment کو روکنا، ڈیڈی کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا

اس کیس میں بہت سارے سوالیہ نشان ہیں۔ اس کیس کی تشہیر عشق میں ناکامی کے باعث ڈپریشن کے ہاتھوں خود کشی کی شہ سرخی کے ساتھ کی گئی۔ ایک فرض شناس آفیسر کو فریم کیا گیا، پھنسایا گیا اور انصاف نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی واقعی قانون اندھا ہے۔

اس ملک کی بدنصیبی کہ یہاں کبھی فرض شناس بیٹوں کی قدر نہیں کی گئی۔ یہاں جھوٹ پنپتا ہی نہیں بلکہ خوب پھلتا پھولتا ہے۔ میں آج بھی اپنے مظلوم باپ کے فیئر ٹرائل کی منتظر ہوں، یقیناً احمقوں کی جنت ہی میں ہوں ۔ ڈیڈی نے اپنے قتل کی پیشنگوئی تو پہلے ہی کر دی تھی
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں،
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا..

میں منتظر ہوں اس منصف صبح روشن کی“

اس نے اپنی برستی آنکھیں بےدردی سے ٹشو سے رگڑیں۔
اور میں نم دیدہ، مہر بلب اس بیٹی کا کرب محسوس کر رہی تھی، جس کا باپ نہ جانے کب تک اپنی نیک نامی کی صلیب اٹھائے انصاف کا منتظر رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close