ایل فورٹی سیون: تورے بارو اور کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والے گڈاپ کے طلبہ

امر گل

گزشتہ روز ایک ہسپانوی زبان کی فلم دیکھی، جس کا نام تھا ایل فورٹی سیون (El47)۔ جو محض ایک فلم نہیں تھی، بلکہ ایک آئینہ تھی، جس میں مجھے گڈاپ کا چہرہ نظر آیا۔ اس فلم میں، میں نے ایک پرانے ہسپانوی قصبے تورے بارو کی محرومیوں میں اپنا شہر دیکھا، اپنے شہر کے باسیوں کی پیاس، تاریکی، تعلیم سے محرومی اور تھکن کو دیکھا۔

بارسلونا کے مضافات میں واقع یہ علاقہ 1957 میں سہولیات سے محروم، پہاڑی ڈھلوان اور اس کے دامن میں بنا ایک پسماندہ محلہ تھا۔جہاں پانی نہیں، بجلی نہیں، ہسپتال نہیں، اسکول نہیں، ٹرانسپورٹ کا نام و نشان نہیں۔ ان سب کے درمیان غیر معمولی حوصلے کا حامل ایک معمولی سا بس ڈرائیور منولو وتال اپنے محدود وسائل کے ساتھ صرف ایک خواب دیکھتا ہے، تورے بارو کے لوگوں کو شہر سے جوڑنے کا خواب۔ وہ چاہتا تھا کہ تورے بارو کے بچے بھی شہر کی روشنیوں میں پڑھنے جائیں، بیمار دواخانے پہنچیں اور مزدور وقت پر کام پر۔۔ لیکن اس خواہش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف ایک تھی: کوئی بس نہیں تھی۔

منولو کی جدوجہد، اس کی تڑپ اور اس کا جذبہ میرے ذہن میں ایک اور مضافاتی حقیقت کو جگا گیا، گڈاپ۔۔ ایک ایسا علاقہ، جسے میں ’چراغ تلے اندھیرے‘ کی مجسم صورت کہتا ہوں۔ گڈاپ کے سینے پر صدیوں سے بسے لوگوں کو آج بھی پانی میسر نہیں۔۔ بجلی یہاں جاتی نہیں، بس کبھی کبھار بھول بھٹک کر آتی ہے اور وہ بھی لمحے بھر کو آنکھ مچولی کھیلنے۔ شہر کو جاتی گیس کی پائپ لائن یہیں سے گزر کر جاتی ہے، لیکن یہاں گیس میسر نہیں، علاج کے لیے میلوں کے فاصلے، ٹرانسپورٹ کا بحران۔ جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات اجلے دن کا اندھیرا خواب ہیں۔

فلم دیکھ کر خاص طور پر کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والے گڈاپ کے طلبہ اور ان کی اب تک کی لاحاصل کوششیں میرے ذہن میں کوند گئیں، جو وہ اپنے علاقے تک یونیورسٹی کی پوائنٹ بس چلانے کے لیے کر رہے ہیں۔۔ گزشتہ کئی برسوں سے، مگر ہنوز کراچی یونیورسٹی دور است!

کراچی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم گڈاپ کے طلبہ گزشتہ کئی برسوں سے یونیورسٹی انتظامیہ سے بس سروس کی التجا کر رہے ہیں۔ یہ محض ایک سواری کا مسئلہ نہیں، یہ علم تک رسائی کا سوال ہے، کہ ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ایک علاقے سے روزانہ کئی کلومیٹر مہنگی نجی سواری کے ذریعے آنا، ایک طالب علم کی زندگی کو مسلسل تھکن اور معاشی دباؤ کا شکار بناتا ہے۔

کراچی کے ایک کنارے پر واقع گڈاپ، جو اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی اکیسویں صدی کا حصہ بننے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ ایک ایسا خطہ، جو جغرافیائی طور پر پاکستان کے سب سے بڑے اور بین الاقوامی شہر کراچی کا حصہ ہے، مگر ترقیاتی نقشے میں کہیں کنارے پر دھرے بوسیدہ کاغذ جیسا محسوس ہوتا ہے۔۔ گڈاپ کو ہمیشہ ’ٹکا خان‘ جیسے مسند نشین ہی نصیب ہوئے، جنہیں اس کی ریتی بجری، پہاڑوں کے پتھر اور سونے جیسی زمین تو چاہیے لیکن یہاں بسنے والے لوگ نہیں۔۔ کہ یہ لوگ ان کے لیے انسان نہیں، صرف اور صرف ’ووٹ‘ ہیں!

گڈاپ کے باسیوں کو آج بھی وہی سوال گھیرے ہوئے ہیں، جو تورے بارو والوں کو ستر سال پہلے گھیرا کرتے تھے: پانی کہاں ہے؟ بجلی کیوں نہیں؟ اسپتال کتنے دور ہیں؟ اسکولوں کی کیا حالت ہے۔۔ اور شہر سے چلنے والی بس آخر کب آئے گی، جس سے وہ شہر کے تعلیمی اداروں تک سستی اور آسان رسائی حاصل کر سکیں گے۔

کراچی یونیورسٹی کے وہ طالب علم، جو گڈاپ سے ہر روز ایک طویل فاصلہ طے کر کے علم کے چراغ کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے لیے صرف تعلیم نہیں، بلکہ وہاں پہنچنا ہی ایک آزمائش ہے۔ کئی برس گزر چکے، پٹیشنز، میٹنگز، مطالبات، گزارشات اور احتجاج ہو چکے، مگر یونیورسٹی کی بس ان کے علاقے کی جانب مڑتی سڑک پر نہیں اتری۔

ایل فورٹی سیون نامی فلم میں، میں نے دیکھا کہ منولو وتال کو سرکاری اداروں نے روکا، تمسخر اُڑایا، اسے ایک مضافاتی پاگل سمجھا، جو چند جھونپڑیوں اور کچے پکے مکانوں کے لیے شہر کی پالیسی سے الجھ رہا تھا۔۔ مگر اس کی ضد، اس کا یقین اور اپنے لوگوں کے لیے اس کا پیار اسے وہاں بس کو لے جانے پر مجبور کرتا ہے۔ منولو کے لیے El47 صرف ایک بس کا نمبر نہیں تھا، بلکہ ایک وعدہ تھا، زندگی کی طرف سفر کا وعدہ۔۔ اپنے بچوں کے مستقبل کا وعدہ۔

تو کیا گڈاپ کی کسی سڑک کے لیے، یہاں کے طلبہ کے لیے کوئی منولو وتال پیدا نہيں ہو سکتا؟ کوئی افسر، کوئی میئر، کوئی نمائندہ، کوئی وائس چانسلر، جو اپنے منصب کی کرسی سے اُٹھ کر ان نوجوانوں کو منزل تک پہنچانے والی بس لے آئے؟

گڈاپ کے یہ طالب علم صرف ایک بس نہیں مانگتے، وہ اپنی پہچان مانگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہر انہیں مضافات کا بوجھ نہ سمجھے، بلکہ علم کا سرمایہ جانے۔ ان کے جوتوں کی مٹی میں مستقبل کے خواب لپٹے ہوتے ہیں، مگر وہ اکثر یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے ان خوابوں کو پسینے میں بہا دیتے ہیں۔

فلم میں ایک منظر ہے، جب منولو اپنی پرانی بس کے ساتھ بَل کھاتی پہاڑی سڑکوں پر تورے بارو کے لوگوں کو شہر لے جا رہا ہوتا ہے، وہ منظر ایک امید جیسا لگتا ہے۔ ایک امید، جو اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھنے والے ایک عام انسان نے جگائی۔ کاش، کراچی کے کسی دفتر، کسی ٹھنڈے کمرے یا کراچی یونیورسٹی کے ٹرانسپورٹ سیکشن میں بیٹھا کوئی شخص بھی یہ التجا سن لے۔ مسندوں پر بیٹھے ہمارے رہنماؤں کو بھی یہ سب کچھ نظر آ جائے۔

آخر کیوں ان طالب علموں کی شنوائی نہیں ہوتی، جو آسمان سے چاند تارے توڑ کر لانے کا مطالبہ نہیں کر رہے، صرف علم کا حق مانگ رہے ہیں، کہ کوئی انہیں ایک بس ہی مہیا کر دے۔۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک کاغذ، ایک دستخط، ایک حکم سے یہ مسئلہ حل ہو جائے؟

یہ فلم ختم ہو گئی، مگر گڈاپ کی فلم ابھی باقی ہے۔ یہاں کے مناظر خاموش ہیں، کردار تھکے ہوئے، مگر اسکرین پر کوئی The End نہیں لکھا۔ شاید کسی دن ایک بس چلے، اور لکھا جائے:
To Be Continued… hopefully…!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button