
سنا ہے عالی مرتبت، سرکارِ اعلیٰ جناب ملک ریاض صاحب، آج کل زیرِ عتاب ہیں۔ وہی ملک ریاض، جسے دولت کمانے اور بنانے کا ہنر آتا تھا، جو طاقتور اداروں، ریاستی بڑوں اور سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑیوں کا منظورِ نظر تھا۔ وہی جو صحافیوں، ٹی وی میزبانوں، ججوں اور جرنیلوں کو قابو میں رکھنے کا ہنر جانتا تھا۔ نوکریاں فقط دیتا نہیں تھا، لٹاتا تھا۔ فائلوں کو پہیے لگوا کر قانون کو مات دیتا تھا۔
آج وہ اتنا بےبس دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان میں اپنے تمام پراجیکٹس بند کرنے کی بات کر رہا ہے، مگر کیا یہ سب کچھ واقعی اتنا سادہ اور سیدھا ہے جتنا دکھایا جا رہا ہے؟ کیا کوئی اتنا بڑا ٹائیکون، طاقت کا محور، سیاسی جماعتوں کا خفیہ آقا، ریاستی اداروں کا پیداکردہ پارٹنر، صدرِ مملکت کا دوست، وزیرِ اعظم کا کاروباری رفیق، یوں ہی آسانی سے سونے کے انڈے دینے والی مرغی، یعنی بحریہ ٹاؤن اینڈ لمیٹڈ، سے دستبردار ہو سکتا ہے؟
کیا واقعی یہ سب حقیقت ہے؟ یا پردے کے پیچھے کوئی اور کہانی چل رہی ہے؟ شاید یہ بھی کوئی اسکرپٹڈ سین ہے، کسی سیاسی سینما کی فلم، جس کا کلائمیکس ابھی آنا باقی ہے۔ میں سچ نہیں جانتا، مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف گیارہ سالہ جدوجہد کے دوران بہت کچھ سنا، بہت کچھ دیکھا۔ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس کہانی میں بہت کچھ پوشیدہ ہے، بہت کچھ ایسا جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔
ایک منظر یاد آتا ہے، جب ملک ریاض نے چاچا فیض محمد گبول کے سامنے تکبر سے بلینک چیک پیش کیا، کہ جتنا چاہو لکھ لو۔ کہا کہ دنیا کے کسی بھی مہنگے ملک میں تمہارا علاج کرا سکتا ہوں، تمہیں بچوں سمیت سیٹل کرا سکتا ہوں، کاروبار لگا سکتا ہوں۔۔ مگر چاچا نے انکار کرتے ہوئے یہ کہہ کر اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا، کہ ”تم فرعون نسل کے ہو!“ یوں ملک ریاض وہاں سے نامراد واپس لوٹا، مگر جلد ہی اس کی انتقامی مشینری حرکت میں آ گئی۔ پولیس، بحریہ کے گارڈز، راؤ انوار، سب ٹوٹ پڑے۔ چاچا کی زمین پر قبضہ ہو گیا۔
گڈاپ کے لوگوں نے اس دھشت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بڑی مشینیں پہاڑوں، چراگاہوں اور ندیوں کو تاراج کرتی گئیں۔ صدیوں سے آباد قبائل کو دیواروں میں قید کر دیا گیا۔ ان کے قبرستان، ان کے آثار، ان کی پہچان، سب مٹا دی گئی۔ متاثرین کے ساتھ مل کر ہم نے ایف آئی آر کٹوائی لیکن ہماری ایک نہ سنی گئی۔ عدالت گئے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ کراچی پریس کلب گئے کہ انڈیجینس کیس رکھیں، وہاں بھی منع کر دیا گیا۔
ہم نے ملک ریاض کی طاقت دیکھی۔ اس کے ایمپائر کو کھیرتھر نیشنل پارک تک بڑھتے دیکھا۔ گرین زون پر قبضہ کر کے عمارتیں کھڑی کی گئیں۔ ہم چِلّاتے رہے، چیختے رہے، مگر کوئی نہ سن پایا۔
پھر 2018 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو غیر قانونی قرار دیا، مگر ساتھ ہی ایک نرالا ”عمل درآمد بینچ“ قائم کیا، ایک ایسا عدالتی بندوبست جس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ عدالت نے قانون، آئین اور عالمی قانونی اصولوں کو ایک طرف رکھ کر ملک ریاض سے بارگیننگ کی: سات سال میں 460 ارب روپے دے کر یہ سب قانونی کر لو۔ یعنی چوری تو ثابت ہوئی، مگر چور کو سزا نہیں دی گئی۔ الٹا اس چوری شدہ مال کو قسطوں میں خریدنے کی اجازت دے دی گئی۔
مگر نہیں۔۔ ملک ریاض کو یہ بھی گوارا نہ تھا۔ اسے سب کچھ مفت میں چاہیئے تھا، اور کیوں نہ ہو؟ وہ سب کا لاڈلہ تھا، پاکستان کا ’ان ڈکلیئرڈ اثاثہ‘ ۔ چاند مانگتا تھا، اور ادارے دینے کو تیار رہتے تھے۔
پھر شاید تقدیر نے کروٹ لی یا اسکرپٹ نے۔۔ اب وہی سپریم کورٹ نیب کو کہتی ہے: کاروائی کرو، پیسے وصول کرو۔
مگر اس پورے کھیل میں کہیں ذکر نہیں چاچا فیض محمد گبول اور شفیع کاچھیلو کا، نہ اماں حوا اور اماں حاجرہ کا۔۔ کہیں ذکر نہیں اس گڈاپ کا جو کھیرتھر نیشنل پارک کا بفر زون ہے۔ کہیں ذکر نہیں ان انڈیجینس لوگوں کا جن کے گھر چھینے گئے، زمینوں پر پلازے بنے، قبریں کھود دی گئیں۔ نہ اکبر گبول، نہ موسیٰ گبول، جن کی زمین پر قبضہ کر کے گرینڈ مسجد بنائی گئی۔ نہ ذکر ہے ان ندیوں کا — جرندو، لنگھیجی، تھدو، مول، ان پہاڑوں کا جو ہمارے وجود کا حصہ تھے، پانہوارو، ارڈی، جنہیں دفن کر دیا گیا۔
اس سارے قضیے میں گمنام ہمارا وجود ہی ٹھہرا۔۔ بے نام و نشاں!
سرمایہ داروں کی اس جنگ میں ہم، اس خطے کے اصل باشندے، چکی میں پس گئے۔ ہمارے آبا کی جمع پونجی، چراگاہیں، پہاڑ، ندیاں، ثقافت، سب چھن گئی۔
ملک ریاض روئے یا چیخے، اب ہم رو چکے ہیں۔ اب چاہے بحریہ ٹاؤن ڈی ایچ اے بنے یا کوئی اور شکل لے، ہم اس نام نہاد ترقی کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔۔ ہمارے لیے اِس بھیڑ کا منہ بھی کالا، اُس کا بھی سیاہ۔۔
مگر ہم اب بھی اپنی بقا، اپنی پہچان، اپنی تاریخ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے،چاہے ہمارے سامنے ملک ریاض ہو یا ڈی ایچ اے، ہم پر یہ لڑائی فرض ہے۔
جتنا جلدی ہم یہ سمجھ لیں، اتنا ہی ہمارے لیے، ہماری زمین کے لیے، ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہتر ہے۔