تہذیبوں کا تصادم : فطرت اور کنکریٹ کی جنگ

تحریر شاہد رضا

تصویر کا ایک منظر ہزاروں سال پرانی زرعی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے، جہاں سرسبز کھیتوں میں گائے کھڑی ہے، اور دوسرا منظر نام نہاد شہری ترقی کی ہے، جس کی نمائندگی مطلب قبضہ بھیڑیا ٹاؤن کی گرینڈ مسجد کررہے ہے۔ یہ دونوں مناظر ایک فریم میں ہیں، مگر ان کے درمیان گہری خلیج ہے ایک طرف فطرت سے جڑی سادہ زندگی، اور and دوسری طرف آسمان کو چھونے کی لوگوں کو سبز باغ کے خواب دکھا رہے ہیں۔ یہ تصویر محض ایک منظر نہیں، بلکہ ایک تنازعے کی داستان ہے جو ہمارے ماحول، ورثے اور مستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

انسانی تاریخ کا بنیادی ڈھانچہ زراعت پر استوار ہے۔ یہ وہ تہذیب ہے جو مٹی، موسم، اور فطرت کے رحم و کرم پر چلتی ہے۔ کھیت، چراگاہیں، دریا، اور جانور اس نظام کا حصہ ہیں، جو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی میں زندگی کو برقرار رکھتے ہیں۔ تصویر میں موجود گائے صرف ایک جانور نہیں، بلکہ اس تہذیب کی علامت ہے جو سادگی، صبر، اور فطرت کے قوانین کی پابندی پر قائم ہے۔ یہاں زندگی سورج کے طلوع و غروب کے مطابق چلتی ہے، اور انسان زمین سے رزق حاصل کرتا ہے۔ یہ نظام نہ صرف خوراک فراہم کرتا ہے بلکہ ماحولیاتی توازن کو بھی برقرار رکھتا ہے۔

دوسری طرف، گرینڈ مسجد جیسے ڈھانچے جدید قبضہ گیری کی علامت ہیں، جہاں کنکریٹ کے جنگل زمین کو نگل رہے ہیں۔ سرمایہ دار اکثر مذہب کو استعمال کرتے ہیں اپنے محالات کے لیے اتنی بڑی مسجد بنانے کا مقصد کیا ہے کہ مذہب یا لوگوں کی خدمت کی جا رہی ہے سرمایہ دار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا سرمایہ دار کا مذہب بقول کال مارکس کے کیپیٹل ہوتا ہے سرمایہ ہوتا ہے
یہ ترقی آسائش، رفتار، اور سرمایہ دارانہ مفادات کی دوڑ ہے۔ اس کے لیے چراگاہوں کو تباہ کیا جاتا ہے، درخت کاٹے جاتے ہیں، اور تاریخی مقامات مٹائے جاتے ہیں۔ اس عمل میں فطرت سے انسان کا رشتہ کمزور پڑتا ہے، اور ماحولیاتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس ترقی کو جائز ثابت کرنے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی مساجد اور عمارات بنا کر عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ترقی روحانی اور مادی دونوں اعتبار سے ضروری ہے۔ یہ ایک سرمایہ دارانہ حربہ ہے، جو فطرت کی تباہی کو چھپانے اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی ترقی، جو ہمارے ورثے اور ماحول کو ختم کرے، واقعی فائدہ مند ہے؟

کنسٹرکشن کا عمل، جو شہری ترقی کا بنیادی جزو ہے، ماحول اور انسانی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ کھیتوں اور چراگاہوں کو کنکریٹ سے ڈھانپنے سے زمین کی زرخیزی ختم ہوتی ہے۔ یہ علاقے جانوروں، پرندوں، اور پودوں کے لیے رہائش گاہ ہوتے ہیں، جن کی تباہی سے جیوویودھتا کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ کنسٹرکشن کے دوران قدیم قبریں، آثارِ قدیمہ، اور تاریخی مقامات کو مسمار کیا جاتا ہے، جو ہماری تہذیبی شناخت کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ بارش کا پانی زمین میں جذب نہ ہونے سے مٹی کا کٹاؤ بڑھتا ہے اور سیلاب کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں میں مشینری اور دھول سے شور اور ہوا کی آلودگی بڑھتی ہے، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

شہری ترقی کا براہ راست تعلق موسمیاتی تبدیلی سے ہے، جو موسم کے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ چراگاہوں اور جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، جو گلوبل وارمنگ کو روکنے میں مدد دیتا ہے۔ ان کی تباہی سے کاربن کا اخراج بڑھتا ہے، جو درجہ حرارت میں اضافے اور شدید موسم جیسے گرمی کی لہروں، طوفانوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔ کنکریٹ کی سطحیں بارش کے پانی کو زمین میں جذب ہونے سے روکتی ہیں، جس سے زیر زمین پانی کی سطح گرتی ہے اور خشک سالی کا خطرہ بڑھتا ہے۔ شہری علاقوں میں کنکریٹ اور اسفالٹ گرمی کو جذب کرتے ہیں، جس سے شہروں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ یہ ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ موسم کو مزید گرم اور غیر مستحکم کرتا ہے۔ جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی سے ماحولیاتی توازن بگڑتا ہے، جس سے قدرتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی، اور طوفان کی شدت اور تعداد بڑھتی ہے۔

یہ تصویر ہمیں ایک اہم سوال دیتی ہے کہ کیا ہم ایسی ترقی چاہتے ہیں جو ہمارے ماحول، ورثے، اور فطرت کو تباہ کر دے؟ ترقی ضروری ہے، مگر اسے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں ہونا چاہیے۔ ہمیں ایسی پائیدار ترقی کی ضرورت ہے جو ماحول کو نقصان نہ پہنچائے اور ہمارے تاریخی ورثے کو محفوظ رکھے۔ اس کے لیے ماحول دوست عمارتوں کی تعمیر، چراگاہوں اور جنگلات کے تحفظ، آثارِ قدیمہ کی حفاظت اور عوام میں شعور بیدار کرنا ناگزیر ہے۔

یہ تصویر صرف ایک منظر نہیں، بلکہ ہمارے مستقبل کی ایک جھلک ہے۔ اگر ہم نے فطرت اور ترقی کے درمیان توازن نہ رکھا تو ہم ایک ایسی دنیا بنائیں گے جہاں کنکریٹ کے جنگل تو ہوں گے، مگر زندگی کا سکون اور حسن غائب ہوگا۔ یہ تنازعہ صرف بحریہ ٹاؤن تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ مفادات کے لیے فطرت کو قربان کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم فطرت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یا اسے تباہ کر کے اپنی تباہی کا سامان کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button