
سندھ لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے ملیر میں کراچی ایجوکیشن سٹی کے لیے مزید 2,817 ایکڑ زمین مختص کرنے کی پیش رفت کی ہے۔ اس توسیع میں وسیع زرعی رقبہ شامل ہے جس سے کراچی کی سب سے بڑی سبز پٹی کے ختم ہونے اور شہری خوراکی رسد کے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ اقدام اُس منصوبے کی توسیع ہے جو پہلے ہی 9,000–8,921 ایکڑ پر محیط بتایا جاتا رہا ہے اور جس کے سبب درجنوں دیہات متاثر ہو چکے ہیں۔
تاریخی پس منظر: تصور سے توسیع تک
ابتدا اور منظوری: ایجوکیشن سٹی کا خیال 2001 میں کابینہ کی سطح پر سامنے آیا، 2004 میں انتظامی طور پر دوبارہ فعال ہوا، اور 2006 میں درجنوں اداروں کو ابتدائی الاٹمنٹ کی خبریں آئیں۔ مقامی شناخت کے اعتبار سے یہ علاقہ دیہہ چوہڑ کہلاتا ہے۔
جغرافیہ اور رقبہ: سرکاری دستاویزات اور سرکاری سرمایہ کاری پورٹل کے مطابق یہ منصوبہ دیہہ چوہڑ (گڈاپ/ملیر) میں، نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے کے درمیان لنک روڈ کے ساتھ واقع ہے؛ سرکاری طور پر 8,921 ایکڑ کا بریف موجود ہے۔
حالیہ پیش رفت: نومبر 2024 میں منصوبے کی انفراسٹرکچر تعمیر و دیگر سہولیات کے لیے بورڈ کی منظوری سامنے آئی۔ 2025 میں توسیع سے متعلق نئی صحافتی رپورٹنگ نے معاملے کو دوبارہ مرکزِ نگاہ بنایا۔
توسیع کی انسانی و ماحولیاتی قیمت
زرعی سبز پٹی کو خطرہ: نئی 2,817 ایکڑ الاٹمنٹ میں بڑے زرعی قطعات شامل ہیں، جس سے ملیر کی گرین بیلٹ سکڑنے اور کراچی کو ملنے والی تازہ سبزی و پھل کی فراہمی متاثر ہونے کا اندیشا ہے۔ نشاندہی شدہ مقامات میں دیہہ چوہڑ، دیہہ امیلانو، دیہہ آبدار شامل ہیں۔
دیہات و بے دخلی: منصوبے کے پہلے مراحل میں 30 سے زائد دیہات کے متاثر ہونے اور 779 ایکڑ زرعی زمین کے منصوبے میں شامل ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ریت بجری (Sand/Gravel) اور آبی نظام: ملیر دریا اور اس سے جڑی ندیوں سے ریت/بجری اٹھانے (غیر قانونی/بدانتظام) پر ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات کی متعدد رپورٹس اور عدالتی احکامات موجود ہیں—سندھ ہائی کورٹ 2012 میں پولیس کو غیر قانونی اٹھاؤ روکنے کی ہدایت دے چکی؛ 2017 میں عدالتی کمیشن کی سماعتوں میں بھی یہ معاملہ اٹھا۔
علمی و تحقیقی شواہد: ملیر دریا میں غیر قانونی مائننگ اور ایکسپریس وے وغیرہ جیسے انفراسٹرکچر کے باہم تعلق اور اثرات پر تعلیمی اداروں/تحقیقی تحریروں میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
قانونی و پالیسی سیاق
2003 کا ایکٹ: سندھ میں “Sindh (Prohibition of Taking Minerals including Reti (Sand) and Bajri from any Land) Act, 2003” واضح طور پر بغیر اجازت ریت/بجری اٹھانے پر پابندی عائد کرتا ہے (سزا و ضبطگی کی دفعات کے ساتھ)؛ اس ایکٹ کے تحت کارروائیاں اور چالانز کی سرکاری مثالیں موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے/احکامات (ملیر-زمین تنازعات): بحریہ ٹاؤن کراچی کے معاملے میں سپریم کورٹ نے 2018 میں ملیر میں زمین الاٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دیا، بعد ازاں سروے/تعینِ رقبہ کے احکامات (2023) بھی دیے گئے اس پس منظر سے ملیر میں بڑے پراپرٹی منصوبوں کی قانونی حساسیت واضح ہوتی ہے۔
ایجوکیشن سٹی: وعدہ کیا تھا، بن کیا رہا ہے؟
وعدہ: ایک “ادارتی/علمی کلسٹر” اسکول تا تحقیقی ادارہ، عالمی معیار کے انفراسٹرکچر کے ساتھ؛ کم از کم 50 اداروں کی میزبانی کا ہدف۔
حقیقت: عملی توسیع زرعی اراضی میں در اندازی، مقامی روزگار و داخلہ رسائی کے غیر واضح وعدے، اور فیس/اخراجات کے ایسے ماڈلز جو مقامی آبادی کی دسترس سے باہر رہتے ہیں۔ (یہ نکتہ مختلف سماجی و اخباری رپورٹنگ میں مقامی برادریوں کے خدشات کے طور پر بار بار آیا ہے۔)
مقامی برادری اور حقوقِ حاکمیت (Indigenous Tenure)
دیہہ آبدار، دیہہ چوہڑ، کوٹھیہڑو، امیلانو اور درسانہ یہ سب ملیر کی وہ بستیاں و وادیاں ہیں جہاں دہائیوں تک پھل و سبزی کے قافلے کراچی کی منڈیوں تک پہنچتے رہے۔ 2023 میں بھی سول سوسائٹی اور مقامی برادریوں نے اسی علاقے میں سرکاری قبضہ گیری کے خلاف انسانی زنجیر بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مزاحمت اس بات کی علامت ہے کہ “ترقی” کے نام پر جب مقامیوں کے اجماعی حقوقِ اراضی، آبپاشی، چراگاہیں اور ثقافتی/معاشی ربط متاثر ہوں تو اسے محض پبلک امینٹی نہیں کہا جا سکتا۔
ماحولیاتی خطرات (Environmental Risk Ledger)
1. زرعی زمین کا نقصان → خوراکی سلامتی و قیمتوں پر دباؤ۔
2. آبی گزرگاہوں پر دباؤ → ریت/بجری اٹھاؤ اور تعمیراتی دباؤ سے دریا کی خود مرمتی صلاحیت متاثر؛ سیلاب/فلَش فلو رسک بڑھتا ہے۔
3. حیاتیاتی تنوع میں کمی → ملحقہ پہاڑی/بارانی علاقوں، شجرکاری کے قطعات، اور جنگلی حیات کے مساکن پر اثرات۔ (یہ پہلو ملیر-کیرتھر بیلٹ کے تناظر میں عدالتی/اخباری مباحث میں زیرِ بحث رہا ہے۔)
متبادل“تعلیم بمقابلہ زمین” نہیں، “تعلیم + زمین”
پالیسی راستے جن سے تعلیم بھی بڑھے اور مقامی/ماحولیاتی نقصان بھی نہ ہو:
براؤن فیلڈ/انفِل ڈیولپمنٹ: نئی زرعی/سبز زمین لینے کے بجائے شہر کے اندر خالی/زیرِ استعمال سرکاری اراضی، پرانے صنعتی پلاٹس یا ناکارہ کمرشل بلاکس کو تعلیمی کلسٹر میں بدلا جائے۔
قانونی حفاظتی زون: دیہہ چوہڑ–امیلانو–آبدار بیلٹ کے لیے زراعتی و آبی ایکو-کارِڈور کا درجہ؛ نئی الاٹمنٹس کے بجائے زرعی/قدرتی درجہ بندی کا حفاظتی نوٹیفکیشن۔
مقامی کوٹہ و ترجیحی رسائی: داخلوں/اسکالرشپس و ملازمت میں لوکل پریفرنس—قانونی MoUs اور ٹائم باؤنڈ ٹارگٹس کے ساتھ (ورنہ توسیعی منظوری مؤخر)۔
سخت ماحولیاتی منظوری: ک cumulative impact assessment (صرف EIAs نہیں)؛ ریت/بجری ایکٹ 2003 اور SHC احکامات کے نفاذ کی مانیٹرنگ۔
کمیونٹی بینیفٹ ایگریمنٹ: پانی، راستے، مقامی منڈی/کولڈ چین، اسکول/ڈسپنسری—ہر توسیع کے ساتھ لازمی سماجی سرمایہ کاری، قابلِ آڈٹ۔
“تعلیم” کا نام اور “زمین” کی حقیقت
ایجوکیشن سٹی جیسے میگا پراجیکٹس اُس وقت تک سماجی طور پر جائز نہیں ٹھہرتے جب تک:
1. مقامی زمین و پانی کے حقوق محفوظ نہ ہوں،
2. زرعی و ماحولیاتی توازن برقرار نہ رکھا جائے،
3. تعلیمی رسائی و اقتصادی فائدہ مقامی برادری تک لازماً نہ پہنچے۔
فی الحال دستیاب شواہد یہ بتاتے ہیں کہ توسیع کی سمت زرخیز زمین اور مقامی حیاتِ معاش پر بوجھ ڈال رہی ہے، جب کہ قانونی و عدالتی سیاق (خصوصاً ملیر کے بڑے لینڈ ڈیلز) اضافی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔
کلیدی حوالہ جات
The Express Tribune (2025): 2,817 ایکڑ اضافی الاٹمنٹ، دیہہ چوہڑ/امیلانو/آبدار، گرین بیلٹ خدشات۔
Sindh Investment Dept. (Education City brief & page): مقام، 8,921 ایکڑ، حکومتی خاکہ۔
تاریخ و علاقائی شناخت: Deh Chuhar کی نامیاتی شناخت/2001–2006 پس منظر۔
قانون: Sindh Act 2003 (Reti/Bajri)—غیر مجاز کانکنی پر پابندی؛ SHC آرڈر (2012)؛ عدالتی کمیشن مباحث (2017)۔
بحریہ ٹاؤن/ملیر لینڈ حساسیت: سپریم کورٹ فیصلے و احکامات (2018–2023)؛ تحقیقی/صحافتی مواد۔
ماحولیاتی و سماجی خدشات: تعلیمی و سول سوسائٹی رپورٹس/خبریں؛ مقامی احتجاج۔