سندھ اور بلوچستان حکومتوں کا احساس راشن سبسڈی پروگرام میں شامل ہونے سے انکار

نیوز ڈیسک

اسلام آباد : بڑھتی ہوئی کمر تور مہنگائی کے دوران غریب اور پسماندہ طبقے کو ریلیف دینے کے لیے شروع کیے گئے وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ اقدام ’احساس راشن سبسڈی‘ سے بلوچستان اور سندھ کے عوام کو فائدہ نہ پہنچنے کا خدشہ ہے

اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں صوبوں نے ایک کھرب بیس ارب روپے کے ششماہی پروگرام کے لیے اپنا 65 فیصد حصہ دینے سے انکار کر دیا ہے

واضح رہے کہ احساس راشن پروگرام کے تحت غریب گھرانوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ کی رعایت دی جائے گی. اس مجوزہ رعایت میں وفاقی حکومت ساڑھے تین کھرب روپے جبکہ صوبے ساڑھے چھ کھرب روپے کا حصہ ڈالیں گے

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ پروگرام پورٹل کے اجرا کے بعد ابتدائی چوبیس گھنٹوں میں تیرہ کروڑ ساٹھ لاکھ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں. ان درخواستوں میں سے دس لاکھ سے زائد اس پروگرام کے اہل ہونے کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیں

اس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ افراد کے لیے تین اشیائے خورونوش دالیں، گندم کا آٹا اور خوردنی تیل/گھی یوٹیلیٹی اسٹورز، سپر اسٹورز اور ملک بھر میں ہزاروں نامزد جنرل/کریانہ اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر دستیاب ہوں گے

احساس راشن سبسڈی پروگرام کے تحت آٹے پر 22 روپے، گھی پر 105 روپے اور دالوں پر 55 روپے سبسڈی دی جائے گی

ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان نے اس پروگرام میں اپنا حصہ دینے سے انکار کردیا ہے اس لیے دونوں صوبوں کے عوام کو ایک ہزار روپے کی سبسڈی کے بجائے وفاقی حصے سے صرف ساڑھے تین سو روپے کی رعایت ملے گی

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان نے سبسڈی پروگرام میں ساڑھے چھ سو روپے فی کس کے حساب سے شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے

بلوچستان کی جانب سے سبسڈی پروگرام میں شمولیت سے انکار وفاقی حکومت کے لیے خاصہ حیرت انگیز ہے، جبکہ حکومت کو اتحادی سے اعتماد کے فقدان اور اپوزیشن کی حکومت گرانے کی دھمکیوں کا سامنا ہے

دوسری جانب جب اس سلسلے میں سندھ حکومت کے ترجمان سعید غنی سے رابطہ کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے پروگرام میں حصہ نہ ڈالنے کا فیصلہ وزیر اعلیٰ کا ہو،  لیکن ابھی تک اس فیصلے سے وزرا کو آگاہ نہیں کیا گیا

جبکہ بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان لیاقت شاہوانی نے بھی یہی کہا کہ وہ اس معاملے پر صوبائی حکومت کے مؤقف سے آگاہ نہیں ہیں

حتیٰ کہ انہوں نے کہا کہ جب سے صوبے میں حکومت تبدیل ہوئی ہے، انہیں یہ نہیں بھی بتایا گیا کہ کیا وہ اب بھی صوبائی حکومت کے ترجمان ہیں یا نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close