
ہمارا سیارہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ موسم شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے، بارشیں بے وقت اور طوفان بے قابو ہو چکے ہیں۔ انہی تبدیلیوں میں ایک خاموش مگر نہایت خطرناک حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے۔ سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے۔ بظاہر یہ اضافہ چند ملی میٹر سالانہ ہے، لیکن اس کے اثرات آنے والے برسوں میں بہت بڑے پیمانے پر سامنے آئیں گے۔ ایک تازہ عالمی تحقیق خبردار کر رہی ہے کہ اس صدی کے دوران سمندر کی سطح میں اضافے سے ترقی پذیر دنیا کی لاکھوں عمارتیں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں اور کروڑوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
یہ خطرہ صرف ساحل تک محدود نہیں۔ ہم میں سے وہ لوگ بھی محفوظ نہیں جو ساحل سے دور رہتے ہیں، کیونکہ ہماری خوراک، ایندھن اور روزمرہ استعمال کی زیادہ تر اشیا بندرگاہوں سے گزرتی ہیں۔ اگر یہ ساحلی ڈھانچہ متاثر ہوتا ہے تو پوری عالمی معیشت اور غذائی نظام ہل کر رہ جائے گا۔
سمندر کیوں بڑھ رہا ہے؟
زمین کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار آج تاریخ کی سب سے بلند سطح پر ہے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ کم از کم 40 لاکھ سال میں کبھی اتنی گرمی پیدا کرنے والی گیسیں فضا میں جمع نہیں ہوئیں۔ نتیجہ واضح ہے: برف پگھل رہی ہے، سمندر کا پانی پھیل رہا ہے اور ساحلی علاقوں کی زمین آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہے۔
ماضی میں بھی دریاؤں اور سمندروں کی سطح بلند ہوئی۔ دس ہزار سال پہلے جب آخری برفانی دور ختم ہوا تو پانی تیزی سے بڑھا، مگر اس زمانے کے ساحلی علاقے آج جیسے آباد نہیں تھے۔ نہ اونچی عمارتیں تھیں نہ بڑی بندرگاہیں۔ لوگ کم تھے اور آبادیاں سادہ۔
آج صورتحال بالکل مختلف ہے۔ کروڑوں لوگ سمندر کے چند کلومیٹر کے اندر رہتے ہیں۔ بڑے بڑے شہر، صنعتیں، سیاحت اور زراعت، سب انہی ساحلی زمینوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔
کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک غیرمعمولی تحقیق کی ہے۔ انہوں نے افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی و جنوبی امریکہ کے ساحلی علاقوں میں موجود 84 کروڑ عمارتوں کو جدید ترین سیٹلائٹ ڈیٹا اور مشین لرننگ کی مدد سے جانچا ہے۔ سوال صرف یہ تھا کہ سمندر کی سطح بڑھنے سے کتنی عمارتیں تباہ ہو سکتی ہیں؟
اس کے تین ممکنہ منظرنامے سامنے رکھے گئے: سمندر کی سطح میں اگر صرف 0.5 میٹر اضافہ ہوتا ہے تو اس سے تقریباً 30 لاکھ عمارتیں متاثر ہو سکتی ہیں جبکہ 5 میٹر اضافے سے تقریباً ساڑھے 4 کروڑ اور 20 میٹر اضافے سے یہ تعداد 13 کروڑ سے زیادہ تک پہنچ جائے گی۔
واضح رہے کہ ان نتائج میں طوفانی لہروں، تیز مدوجزر اور زمینی کٹاؤ کو شامل نہیں کیا گیا۔ سائنس دانوں کے مطابق اصل نقصان اس سے کہیں بڑھ کر ہو سکتا ہے۔
سب سے زیادہ خطرہ کن علاقوں کو؟
نشیبی ساحلی علاقے اور گنجان آباد شہروں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ بہت سے ممالک میں بنیادی بندرگاہیں، صنعتی زون اور رہائشی کالونیاں انہی علاقوں میں قائم ہیں۔
کچھ ممالک میں تو عمارتوں کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ پانی کی زد میں آنے کا خدشہ ہے۔ اگر سمندر زیادہ بلند ہوا تو پوری بستیاں اور شہر نقشے سے مٹ سکتے ہیں۔
اس وقت سمندر کی سطح سالانہ تقریباً 4.5 ملی میٹر کی رفتار سے بڑھ رہی ہے، اور آئندہ دہائیوں میں اس رفتار کے بڑھنے کا امکان ہے۔ سائنسی اتفاق رائے کے مطابق کم از کم اتنا اضافہ تو طے ہو چکا جو دنیا کے ساحلی آبادیوں کے لیے شدید پریشان کن ہے۔
میکس گل یونیورسٹی کی محقق نتالیہ گومیز کہتی ہیں کہ سمندر کی سطح بڑھنے کا عمل سست ضرور ہے مگر اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر انسانوں نے فوری طور پر فوسل فیولز کا استعمال نہ روکا تو سمندر کئی میٹر تک بڑھ جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ساحلی آبادیاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ اگر ابھی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو مستقبل میں آبادیاں منتقل کرنے، بندرگاہوں کو نئی جگہ بنانے اور لاکھوں انسانوں کی بحالی جیسے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔
اسی لیے محققین نے ایک انٹرایکٹو نقشہ بھی جاری کیا ہے جو سب سے زیادہ خطرے والے علاقوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ نقشہ حکومتوں اور منصوبہ سازوں کو یہ بتا سکتا ہے کہ کہاں نئی تعمیرات روکنی چاہییں، کہاں حفاظتی ڈھانچے مضبوط کرنے ہیں، یا کن علاقوں کو آہستہ آہستہ خالی کروانے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

سندھ کا ساحلی علاقہ
سمندر نرم آواز میں آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہا ہے، مگر اس کی خاموشی دھوکا دیتی ہے۔ ایک دو سینٹی میٹر یا چند ملی میٹر کا سالانہ اضافہ، پہلے تو چھوٹا دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اثرات زمین، لوگوں اور معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے انڈس ڈیلٹا کے گاؤں اور کراچی کے ساحلی علاقے، دونوں خطے ایک ہی سمندر کے سامنے کھڑے ہیں مگر حالات اور خطرات کا رنگ مختلف ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی زمین نرم ہے؛ کم بلندی، نمک کی چادر، اور مینگروز کے جنگلات جنہوں نے صدیوں تک لہروں کا مقابلہ کیا۔ مینگروز دراصل ساحل کے لیے پہلی دفاعی لائن ہیں، یہ لہروں کو توڑتے ہیں، کٹاؤ کو کم کرتے ہیں اور مقامی ماہی گیروں کے لیے امید کا ذریعہ بنے رہتے ہیں۔ مگر پچھلی دہائیوں میں اس نظام پر دباؤ بڑھ گیا ہے: دریا کے بہاؤ میں کمی، نمکین پانی کا داخلہ، اور مینگروز کی زوال پذیری نے مقامی معیشت اور رہائش کو نازک رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں والی زمینیں نمک میں بدلنے لگیں، کسان اور مچھیرے روزی کے لیے دربدر ہوئے، اور کمزور بستیوں کی مزاحمت کم ہو گئی۔
علاقائی سروے اور مقامی مشاہدات بتاتے ہیں کہ کیٹی بندر اور شاہ بندر جیسے ساحلی مقام، طویل المدت سمندری دباؤ کے سامنے زیادہ متاثرہ خطّے میں آتے ہیں۔ مقامی گھرانوں کو نمک زدہ پانی، کم ہوتی فصلوں اور کم ہوتی مچھلی کے پیداوار کا سامنا ہے؛ کئی خاندان جزوی یا مکمل طور پر اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں اکثر بے ضابطہ طریقوں سے روایتی روزگار ٹوٹتے ہیں اور شہروں کی طرف حرکت بڑھتی ہے۔
دوسری جانب کراچی پاکستان کا سب سے بڑا ساحلی شہر ہے۔ اس شہر کی بندرگاہیں، صنعتی زون اور پورا لاجسٹک نظام قومی معیشت کے لیے ناصرف لازمی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی مربوط ہیں۔ کراچی کے ساحلوں میں، خاص طور پر کلفٹن ڈی سی ویو، منوڑا، کیاماڑی اور ملیر کے نچلے حصّوں میں، پانچ کلومیٹر کے اندر لاکھوں افراد رہتے ہیں۔ اگر یہی ساحلی ڈھانچہ متاثر ہو تو نہ صرف رہائش بلکہ پورے صنعتی سلسلے میں خلل آ سکتا ہے۔
کراچی کے لیے ایک اور تشویشناک حقیقی اعداد یہ ہیں کہ 2007 تا 2016 کے دورانیے میں کراچی بندرگاہ کے مشاہداتی ڈیٹا میں اوسط سمندری سطح میں سالانہ تقریباً 3.6 ملی میٹر کا اضافہ ریکارڈ ہوا جبکہ شدید سطح (extreme sea levels) میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مگرمچھ کی طرح آہستگی سے مگر مستقل طور پر خطرہ بڑھ رہا ہے، اور طوفانی لہروں کے ساتھ مل کر انتہائی واقعات کی شدت بھی بڑھ سکتی ہے۔
موسمیاتی دباؤ کے نتیجے میں اندرون سندھ اور ڈیلٹا سے شہروں کی طرف آمد بڑھ رہی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کراچی 2050 تک تقریباً 2.3 ملین موسمیاتی مہاجرین وصول کر سکتا ہے، یعنی وہ لوگ جو اپنی زمین، روزگار یا محفوظ پانی کھونے کے باعث منتقل ہوں گے۔ یہ تعداد نہ صرف شہری نظام کو دباؤ میں ڈالے گی بلکہ بے ضابطہ بستیوں، صحت و صفائی اور روزگار کے مسائل میں بھی اضافہ کرے گی۔ شہروں کی طرف آنے والی یہ لہر اکثر نچلے طبقے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ان کے لیے رہائش اور روزگار کے محفوظ راستے کم دستیاب ہوتے ہیں۔
تحقیقات یہ واضح کرتی ہیں کہ سمندر کی سطح میں اضافہ بذات خود خطرہ ہے، مگر جب اس میں طوفانی لہریں، تیز مدوجزر یا ساحلی کٹاؤ شامل ہوں تو نقصان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ سندھ میں جزوی طور پر زمین کی کم بلندی اور ڈیلٹا کی ساخت اس کے اثرات کو تیز کرتی ہے۔ اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ خطرے کا اندازہ صرف اوسط سطح دیکھ کر نہیں لگا یا جا سکتا؛ مقام کی جغرافیہ، تعمیراتی نمونہ، اور مقامی ماحولیاتی نظام (مثلاً مِنگروؤز) سب فرق ڈالتے ہیں۔
بلوچستان کے ساحلی علاقے
پاکستان کے ساحلی خطے میں بلوچستان کا حصہ اہم ہے، اور وہاں موجود متعدد ماحولیاتی، جغرافیائی اور آبادیاتی عوامل مل کر ساحلی خطرات کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی تقریباً 780 کلومیٹر طویل ہے، جو عرب سمندر کے ساتھ واقع ہے اور اس کا اہم حصہ ’مکران کوسٹ‘ کہلاتا ہے۔ اس علاقے کی معیشت مچھلی پر انحصار کرتی ہے، ساحلی بستیوں کی آبادیاں کم و بیش ہیں، مگر ترقیاتی منصوبے جیسے گوادر پورٹ نے وہاں کی اہمیت بڑھائی ہے۔
سمندر کی سطح میں اضافہ اور ساحلی خطرات کی بات کی جائے تو بلوچستان کی ساحلی علاقوں میں سمندر کی سطح بتدریج بلند ہو رہی ہے، اگرچہ سندھ کے ساحل کی طرح انتہائی کم بلندی والے گنجان علاقوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ ایک تحقیق کے مطابق پسنی کے خطے میں سطح سمندر میں اندازاً 1.1 ملی میٹر فی سال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مقامی رپورٹوں کے مطابق مکران کی ساحلی پٹی پر ساحلی کٹاؤ، نمکین پانی کا داخلہ اور ساحلی نظام کی کمزوری روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ساحلی بستیوں میں رہنے والے ماہی گیر اور زرعی آبادی نمکین پانی، زمین کا غرق ہونا، اور ساحلی کٹاؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک مطالعے میں بتایا گیا کہ بلوچستان کی ساحلی کمیونٹیز میں 37 فیصد افراد نے سمندر کی سطح کے بلند ہونے کو اہم مسئلہ قرار دیا ہے۔
ترقیاتی منصوبے جیسے گوادر پورٹ اور ساحلی صنعتی زون، اگر مناسب حفاظتی اقدام نہ کیے جائیں تو خطرات میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے
سمندر کی سطح میں اضافہ کوئی مستقبل کا مسئلہ نہیں۔ یہ آج ہو رہا ہے اور کل مزید بڑھے گا۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے شہر، معیشت کا انحصار ساحلوں پر، اور کروڑوں زندگیاں جن کی ہر سانس پانی سے جڑی ہے، سب خطرے میں ہیں۔ یہ خطرہ خاموش ہے، مگر بہت بڑا ہے۔
انسانی تاریخ میں پہلی بار ہمارے فیصلے یہ طے کریں گے کہ آنے والی نسلیں سمندر کے کنارے آباد شہروں میں قدم رکھیں گی یا صرف ان کے ماضی کے قصّے سنیں گی۔ دنیا کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان شہروں کو بچانا چاہتی ہے یا انہیں سمندر کی تہہ میں گم ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔
ایک ماہر ماحولیات مایا وِلرڈ۔اسٹیپن کہتی ہیں کہ سمندر کی سطح میں معتدل اضافہ تو اب یقینی بن چکا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم کب اور کس حد تک اس کے لیے تیار ہوں گے۔ اگر آج سے منصوبہ بندی شروع کر دی جائے تو ساحلی آبادیاں ترقی اور بقا دونوں کو ساتھ لے کر چل سکتی ہیں۔
دنیا کو سمندر کی سطح میں اضافے کو مؤثر طریقے سے روکنے کے لیے سب سے پہلے فوسل فیولز کے استعمال میں نمایاں کمی لانی ہوگی، جس کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو جلد از جلد کم کرنا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ، بڑے پیمانے پر قابل تجدید توانائی مثلاً شمسی، ہوائی، اور سمندری کی تیاری اور استعمال کو مرکزی دھارے میں لایا جانا چاہیے، جبکہ جنگلات کے تحفظ، دوبارہ شجرکاری اور مینگروز کے نظام کو بحال کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ ماحولیاتی کاربن جذب کرنے اور ساحلی تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور مقامی کمیونٹیز کی شمولیت کے ساتھ انہیں روزگار کے نئے مواقع بھی فراہم ہو سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر ممالک کو اپنے شہری منصوبہ بندی، نقل و حمل، صنعتی کاروائیوں اور توانائی کے شعبوں میں یکساں پیمانے پر سبز اقدامات اختیار کرنے چاہئیں، اور شریک حکمتِ عملیاں وضع کرنی چاہئیں تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جائے اور سمندر کی سطح کے مسلسل بڑھنے کے عمل کو کمزور کیا جائے۔
علاوہ ازیں مستقبل کے ساحلی خطرات کو کم کرنے کے لیے شہر اور دیہی منصوبہ سازوں کو بلند ترین نقشوں اور جدید سینسر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعمیرات کے مقامات، حفاظتی بند اور دیگر دفاعی اقدامات کا سائنسی تجزیہ کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کی درست پیش گوئی ہو سکے۔ حساس بندرگاہوں اور صنعتی زونز کے لیے لچکدار حکمت عملی اپنائی جائے، جن میں ضروری اثاثوں کی تدریجی منتقلی، ڈھانچوں کی اونچائی بڑھانا اور محفوظ مقامات پر دوبارہ منصوبہ بندی شامل ہو۔ شہری منصوبہ بندی میں مستقل بجٹ، سماجی تحفظ، ممکنہ طور پر متاثرہ خاندانوں کی باعزت منتقلی اور متبادل روزگار کے پروگرام شامل کیے جائیں، جبکہ عالمی تحقیقاتی اداروں اور ماہرین کے تعاون سے ان منصوبوں کو مستند اور تیز رفتار بنایا جائے۔ مقامی آبادی کو خطرات اور حقوق کے بارے میں باضابطہ آگاہی مہمات کے ذریعے بااختیار بنانا نہایت اہم ہے تاکہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں اور حکومتی پالیسیوں پر اعتماد قائم ہو سکے۔




