
اگر ملیر کی تاریخ کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ علاقہ آج بھی نوآبادیاتی کالونیل ازم کے دائرے میں سامراجی طاقتوں کی پیدا کردہ سازشی حالات سے گزر رہا ہے۔ برطانوی سامراج بظاہر تو اس سرزمین سے رخصت ہوگیا، لیکن درحقیقت اس نے اپنے دلالوں کو یہاں آباد کرنے کے لیے ملیر کو ہی منتخب کیا۔ آج وہی دلال مختلف عہدوں، اداروں اور منصوبوں کے نام پر ملیر کی زمینوں پر حملہ آور ہیں۔
یہ تمام منصوبے بظاہر ترقی کے نام پر سندھ حکومت کی سرپرستی میں جاری ہیں، مگر پسِ پردہ یہ سب دراصل کارپوریٹ سامراج کے منصوبے ہیں۔ اہلِ علم اور نظریاتی لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کارپوریٹ سامراج کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ وہ کسی ملک یا علاقے پر براہِ راست قبضہ نہیں کرتا، بلکہ وہاں معاشی انحصار پیدا کرکے عوام کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے لگتا ہے۔
یہ قوتیں پسِ پردہ رہ کر مقامی دلالوں، میڈیا اور ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کو ”ایجوکیشن سٹی“ یا ”ڈیولپمنٹ زونز“ جیسے خوبصورت ناموں کے فریب میں مبتلا کرتی ہیں۔ نتیجتاً وہاں کی زمینوں، پانی اور معدنی وسائل پر قبضہ ہوجاتا ہے جبکہ اصل باشندے تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔
نابلد عوام ان ہی نام نہاد نمائندوں کو اپنا خیرخواہ سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ وہ دراصل کارپوریٹ مفادات کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ چالاک نمائندے اپنے ہی لے پالکوں سے نعرے لگواتے ہیں، تاکہ اُن حقیقی آوازوں کو دبایا جا سکے جو ملیر کی سرزمین، حقوق اور حقیقتوں پر بات کرتی ہیں۔ یوں لوگ سب کچھ ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر بھی انہی نمائندوں پر انحصار کرتے رہتے ہیں۔
عوام کو نیو کالونیل ازم اور کارپوریٹ سامراج کی سازشوں سے دانستہ طور پر بے خبر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ ان کی زمین، پانی، معدنیات اور زراعت، دراصل سامراجی طاقتوں کی اصل دلچسپی ہیں۔ اس نظام کے نتیجے میں مقامی صنعتیں اور کاروبار کمزور ہو جاتے ہیں، لوگ سستی مزدوری تک محدود رہ جاتے ہیں، جبکہ دوسری جانب الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی سوچ، پسند اور طرزِ زندگی پر بھی قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ یوں قومیں آہستہ آہستہ اپنی شناخت اور خودمختاری کھو بیٹھتی ہیں۔
ملیر کے باشعور اور نظریاتی لوگ ہمیشہ ان سازشوں کے خلاف صفِ اول میں رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں انہوں نے بلوچ سوشل اینڈ کلچرل سوسائٹی، بلوچ متحدہ محاذ، ملیر ایکشن کمیٹی، سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس جیسے پلیٹ فارمز سے عوام کو آگاہی فراہم کی ہے۔
سول سوسائٹی ملیر کی جانب سے 22 نومبر 2025 کو منعقد ہونے والا سیمینار بھی اسی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ اس سیمینار کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ کارپوریٹ سامراج کے خلاف سب سے بڑا دفاع ملیر کے عوام کا شعور اور اجتماعی جدوجہد ہے۔
جب ملیر کے مقامی لوگ اپنی معیشت کو خود مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے، تب ہی ان نام نہاد نمائندوں سے حقیقی آزادی حاصل کی جا سکے گی اور تب ہی سرزمینِ ملیر کا تحفظ ممکن ہوگا۔




