ایک ’ماں‘ جو انسانی لالچ کی بھینٹ چڑھنے جارہی ہے

فوزیہ من اللہ

اسلام آباد میں واقع مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے حسین نظاروں کے درمیان موجود کالنجر نامی گاؤں میں ایک چھوٹی سی جگہ ہے، جس سے مجھے بہت لگاؤ ہے۔

یہیں ایک برگد کا درخت موجود ہے، جس کا نام ’ماں تے نو بچے‘ (ماں اور نو بچے) ہے۔ کالنجر اور سنیاری کے دیہاتیوں نے اس کا یہ نام اس لیے یہ رکھا ہے کیونکہ دور سے برگد کا یہ درخت دس درختوں جیسا لگتا ہے لیکن درحقیقت ایک ہی درخت سے مزید نو درخت اُگے ہیں۔ برگد کے درختوں کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ برگد کی پہلے سے موجود جڑیں دوبارہ زمین میں اُگتی ہیں اور مضبوط تنوں میں بدل جاتی ہیں۔

اسلام آباد میں شاید ہی کوئی ماہر ایسا ہو جو قدیم درختوں کی عمر کی تصدیق کر سکے، اس لیے میں نے گاؤں والوں کی طرف سے دی گئی معلومات کو درست مانا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ 1200 سال پرانا درخت ہے۔ یہ معلومات بہ ظاہر ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہی ہے۔ اب حقیقت میں یہ درخت اتنا پرانا ہے یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن کم از کم گاؤں والوں کے لیے اس درخت کی عمر 1200 سال ہی ہے۔

میں نے 2006ء میں یہ یادگار درخت قدیم غار کی تلاش کے دوران دریافت کیا تھا، جس کا ذکر معروف ماہر آثار قدیمہ مرحوم احمد حسن دانی نے اپنے ایک مقالے میں بھی کیا تھا۔ ’ماں‘ کا ذکر میری کتاب ’گلیمپسز ان ٹو اسلام آباد سول‘ میں نمایاں انداز میں کیا گیا تھا۔ تب سے میں اس درخت کے پاس اکثر جاتی رہی ہوں۔

مجھے اس درخت کے پُرسکون سائے میں اپنے کام (مجسموں یا کپڑوں وغیرہ) کی تصویر کشی کرنا پسند تھا۔ میں نے یہاں اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ بہت دفعہ پکنک بھی منائی ہے۔ فطرت کے اس عجوبے کو دیکھنے کے لیے بچوں کے لیے تعلیمی دوروں کا اہتمام بھی کیا اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) سے منتیں کیں کہ وہ اس قدرتی یادگار کی حفاظت کریں۔

پارکنسنز کی بیماری کی تشخیص کے بعد، ماں میری شفا یابی کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ درخت کو گلے لگانے سے منفرد وائبریشنز پیدا ہوتی ہیں جو ہمیں خوش گوار انداز میں متاثر کرتی ہیں۔ ایک قدیم درخت کو گلے لگانا درخت کی قدرتی توانائی کو جذب کرنے کے مترادف ہے اور یہ توانائی صدیوں سے اس درخت میں محفوظ ہے۔ میں نے اس برگد کو گلے لگاتے ہوئے اس زندگی بخش توانائی کو محسوس کیا ہے۔

ماں کی زیارت کرنا کبھی بھی آسان کام نہیں تھا۔ یہ کسی دوسرے ملک کا دورہ کرنے کے مترادف تھا۔ یہ کوئی عام سیکٹر نہیں بلکہ فوج کے نئے جنرل ہیڈ کوارٹرز کا علاقہ ہے۔ بدقسمتی سے ان بہت سے دیہات کی طرح جنہیں اس مہنگے شہر اسلام آباد کو ترقی دینے اور اس شہر کے امیر لوگوں کے لیے بلڈوز کردیا گیا تھا اب کالنجر اور سنیاری کو بھی مسمار کرنے کے لیے نشان زد کر دیا گیا ہے۔

ماہر ماحولیات ہیلگا احمد جوکہ میری ساس بھی ہیں، طاہرہ عبداللہ، ڈاکٹر عیسیٰ داؤد پوتا اور چند دوستوں کی مدد سے ہم اسلام آباد میں کچھ قدیم درختوں کو ’قدرتی یادگاروں‘ کے طور پر محفوظ کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن سی ڈی اے ہمیشہ اصرار کرتی رہی کہ ماں کے لیے ایسا ممکن نہیں۔ کاغذوں میں تو نیشنل پارکس ہر شہری کے لیے کھلے ہیں لیکن حقیقت میں پارک کے اس مخصوص حصے میں ’عام‘ شہریوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

کورونا کے بعد میں نے قدیم درختوں کے نیچے اپنے فن پاروں کی نمائش شروع کی تاکہ سی ڈی اے کی جانب سے قدرتی یادگاروں کے طور پر ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ میں ہمیشہ سے ماں برگد کے نیچے بھی ایسا کرنا چاہتی تھی لیکن ایک ہائی سیکیورٹی زون کے طور پر یہ ایک ناقابلِ رسائی علاقہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے میرا یہ خواب ناممکن ہوگیا۔

میں نے آخری بار 2022ء میں ماں کو گلے لگایا تھا۔ اس وقت میں نے اسے کافی دیر تک گلے لگایا کیونکہ اب اس سے ملنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس وقت وہ درخت اپنی اصل حالت میں تھا، اگر اس کے ارد گرد کنکریٹ تھا بھی تو وہ صرف قریبی موجود قبرستان کی قبروں کا تھا۔

شام کی ہوا میں ماں کے پتوں کی سرسراہٹ کی آواز، کالنجر اور سنیاری کے چرواہوں کی خصوصی پکار، ان کے مویشیوں کی گردنوں میں بجتی ہوئی گھنٹیاں اور خوبصورت پرندوں کی چہچہاہٹ سنتے ہوئے مجھے اپنا کام بہت اچھا لگتا تھا۔ تاہم سب سے اچھی آواز صرف مون سون کے دوران سنائی دیتی ہے، جب قریبی میٹھے پانی کی ندی میں پانی بہتا ہے کیونکہ یہ ندی دیگر موسموں میں خشک رہتی ہے۔

جلد ہی ان خوبصورت آوازوں کی جگہ بلڈوزر، کھدائی کرنے والی مشینیں، ڈمپ ٹرک اور دیگر بھاری مشینری کا شور لے لے گا کیونکہ یہ ایک اور ’ترقیاتی‘ منصوبے کے لیے زمین کو ہموار کر دیں گے۔ یہاں قریب ہی ایک اور پرتعیش گولف کورس تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔

یہ بہت افسوسناک ہے کہ برگد کا درخت جو سالوں سے یہاں موجود ہے، اب اسے اور اس کے اردگرد موجود زمینوں کو صاف کیا جائے گا تاکہ اس پر گولف کورس بنایا جا سکے۔۔ یوں یہ منصوبہ بہت سے درختوں اور قدرتی ماحول کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ صرف ایک قدیم درخت ہی لاتعداد کیڑوں، جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہوتا ہے تو ذرا تصور کریں کہ اگر یہاں گولف کورس بنے گا تو ان مخلوقات کی کتنی بڑی تعداد اپنے ٹھکانوں سے بےدخل ہوجائے گی۔

صدیوں سے ’ماں‘ مختلف رنگ و نسل اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سایہ دے رہی ہے، حتیٰ کہ اس نے انگریز حکمرانوں کو بھی سایہ دیا ہوگا لیکن اب وہ ہمارے حالیہ حکمرانوں کی نوآبادیاتی سوچ کی بھینٹ چڑھے گی۔۔ ماں نے یہ ضرور دیکھا ہوگا کہ کیسے جانور صرف اتنی ہی چیز لیتے ہیں جتنی انہیں ضرورت ہوتی ہے لیکن اب وہ انسانوں کی نہ ختم ہونے والی لالچ بھی دیکھے گی۔ اس مقام سے صرف ایک کلومیٹر کی مسافت پر ایئر فورس کالونی میں بھی ایک گولف کورس پہلے سے موجود ہے۔

اگر ہمارے پاس برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح قدیم درختوں کی حفاظت کے لیے قوانین ہوتے تو ’ماں‘ کو ایک ’قدرتی یادگار‘ کے طور پر تحفظ فراہم کیا جاتا۔

اٹلی نے حال ہی میں 20 ہزار درختوں کو قدرتی یادگار کے طور پر قانونی تحفظ فراہم کرنے کا قانون منظور کیا ہے۔ برطانیہ میں بھی کنزرویشن ایریاز میں درختوں کی حفاظت کا قانون موجود ہے۔ یہ قانون قدیم درختوں کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ جنگلی حیات کا مسکن ہوتے ہیں اور فضا کو صاف رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پرانے درختوں کو ترقی یافتہ ممالک میں ’لیونگ لیجنڈز‘ کہا جاتا ہے لیکن ہم صرف ان ممالک کے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کی نقل کرتے ہیں اور فطرت کو تباہ کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں ہماری خوبصورت اور قیمتی ’لیونگ لیجنڈ‘ ماں قانونی تحفظ اور اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ، جو پارک کے آس پاس کے جنگلی حیات اور دیگر جانداروں کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے، کے باوجود خطرے سے دوچار ہے۔

کاش ہم قانون کی پاس داری کرنے والی قوم ہوتے تو کسی نیشنل پارک میں کوئی گولف کورس، ریسٹورنٹ یا کوئی دوسری تعمیر نہ ہوتی۔ المیہ یہ ہے کہ حال ہی میں سی ڈی اے نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں اسٹیڈیم اور ہوٹل بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ نیشنل پارکس کو ’محفوظ‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ انہیں بلڈوزر سے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماں کے اردگرد بہت سے دیسی درخت ہیں۔ یہ سب مل کر اس جگہ کو ایک ایسا مقام بناتے ہیں جہاں قدرت سے محبت کرنے والے فطرت کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ لیکن نہیں، ایسا لگتا ہے کہ موسمیاتی بحران سے شدید متاثر اس ملک میں وقت کی ضرورت تو گولف کورس ہے۔

نوٹ: یہ مضمون 17 ستمبر 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔ جسے ادارے کے شکریے کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close