آپ کا اگلا کمپیوٹر شاید کسی کھاد کے ڈھیر میں اُگے گا۔

ویب ڈیسک

ذرا لمحہ بھر کو تصور کیجیے کہ آپ کے باورچی خانے کے کاؤنٹر پر رکھا ہوا ایک مشروم نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ ڈیٹا بھی محفوظ کر رہا ہے، ردِعمل دے رہا ہے، اور وقت کے ساتھ ”سیکھ“ رہا ہے۔۔

یہ محض سائنسی افسانہ نہیں، بلکہ اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک حیران کن تحقیق ہے جس نے عام شیتاکے مشرومز (Shiitake Mushrooms) یا کُھمبیوں کو زندہ کمپیوٹر میں بدل دیا ہے۔

جی ہاں، اب کمپیوٹرز صرف فیکٹریوں میں نہیں، بلکہ کھاد کے ڈھیر سے بھی اگ سکتے ہیں۔

دماغ سے مشابہ کمپیوٹر

تحقیق کے مرکزی سائنس دان جان لاروکّو (John LaRocco) کے مطابق، یہ فنگس پر مبنی چِپس انسانی دماغ کے نیورونز کی طرح کام کرتی ہیں۔ ان میں وہی خاصیت ہے جو دماغی خلیوں میں ہوتی ہے، معلومات کو محفوظ کرنا اور وقت کے ساتھ ردِعمل کو بہتر بنانا۔

یہ دراصل میمِرسٹرز (Memristors) کہلاتے ہیں، یعنی میمری (memory) + ریزسٹر (resistor) — ایسے آلات جو بجلی کے بہاؤ کو ”یاد“ رکھتے ہیں۔

روایتی میمرسٹرز دھات یا سلِکان سے بنتے ہیں، مگر اوہائیو کی ٹیم نے پہلی بار انہیں فطرات (Fungi) سے تیار کیا ہے۔

شیتاکے مشرومز کو فارّو، گندم کے جرثومے اور سوکھی گھاس کے آمیزے میں اُگایا گیا۔
ان کے مائیسیلیم (Mycelium) ، یعنی زیرِ زمین سفید جال جیسے ریشے، ایک قدرتی نیورل نیٹ ورک کی طرح پھیل گئے۔ جب انہیں دھوپ میں خشک کیا گیا، پھر ہلکا سا نم کیا گیا اور Arduino سرکٹ سے جوڑا گیا، تو نتیجہ نکلا:
ایک زندہ فنگل چِپ، جو بجلی کے اشاروں کو محسوس کرتی، یاد رکھتی اور سیکھتی ہے۔

لاروکّو کے بقول: ”ہم مشروم کے مختلف حصوں پر تاریں لگاتے تھے، کیونکہ ہر حصہ الگ برقی خصوصیات رکھتا ہے۔ جب ہم وولٹیج بدلتے، تو ہر حصہ مختلف ردِعمل دیتا، جیسے دماغ کے مختلف خلیے۔“

کم فریکوئنسی پر یہ چِپس فی سیکنڈ 5,850 سگنلز تک حالت بدلنے کی صلاحیت رکھتی تھیں، تقریباً 90 سے 95 فیصد درستگی کے ساتھ۔
یہی وہ سطح ہے جو ابتدائی سلِکان میمرسٹرز میں موجود تھی۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرومز کی مزاحمت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی تھی، بالکل انسانی نیورون کی طرح جو سیکھنے کے عمل میں خود کو ایڈجسٹ کرتا ہے۔

 قدرت کا سرکٹ بورڈ

یہ پہلی بار نہیں کہ سائنس دانوں نے فنگس اور ٹیکنالوجی کو ملانے کی کوشش کی ہو۔ مائیسیلیم، فنگس کا زیرِ زمین جال، ایک قدرتی ’انٹرنیٹ‘ کی طرح کام کرتا ہے جو درختوں اور پودوں کے درمیان غذائی اجزاء اور کیمیائی پیغامات منتقل کرتا ہے۔ یہ نظام خود کو مرمت کر سکتا ہے، ماحول سے مطابقت پیدا کرتا ہے اور باریک برقی لہریں بھیجتا ہے جو نیورون کی فائرنگ جیسی لگتی ہیں۔

لیکن اوہائیو اسٹیٹ کی تحقیق اس سے ایک قدم آگے ہے۔ یہ سائنس دان صرف مشاہدہ نہیں کر رہے تھے، وہ فنگس کو تربیت دے رہے تھے۔ ہر مشروم ڈِسک ایک ”نوڈ“ کے طور پر کام کر رہی تھی، جو عارضی یادداشت رکھتی تھی۔

اور ایک انوکھا انکشاف یہ بھی ہوا: خشک کرنا ہی کامیابی کی کنجی تھا۔ خشک کرنے سے مشرومز زیادہ پائیدار بن گئے اور ان کی برقی خصوصیات محفوظ رہیں۔

تحقیقی رپورٹ میں درج ہے: ”ہم نے ثابت کیا کہ خشک ہونے کے باوجود، پہلے سے پروگرام شدہ نمونے اپنی برقی خصوصیات برقرار رکھتے ہیں۔“

 خلا تک پہنچنے والے مشروم

شیتاکے مشرومز میں قدرتی طور پر لینٹینان (Lentinan) نامی مرکب پایا جاتا ہے، جو انہیں تابکاری کے خلاف مزاحمت دیتا ہے۔ یہی خصوصیت انہیں خلائی تحقیق میں استعمال کے قابل بناتی ہے، مثلاً ایسے سرکٹس جو خلائی تابکاری کے باوجود خود کو مرمت کر لیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، فنگل الیکٹرانکس ماحول کے لیے بھی بہتر ہیں۔ روایتی سیمی کنڈکٹرز کی تیاری میں توانائی کی بے تحاشا کھپت اور زہریلا کچرا پیدا ہوتا ہے،
جبکہ مائیسیلیم کمرے کے درجہ حرارت پر اُگتا ہے اور قدرتی طور پر تحلیل ہو جاتا ہے۔

قدسیہ تہمینہ، جو اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور اوہائیو اسٹیٹ میں پروفیسر ہیں، کہتی ہیں: ”ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ماحول کی حفاظت سائنسی ترقی کا بنیادی محرک بن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بایو فرینڈلی ٹیکنالوجی جیسے نظریات اب حقیقت میں ڈھلنے لگے ہیں۔“

 مستقبل: زندہ کمپیوٹر، خودمرمت مشینیں

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی مشروم پر ایپس چلا سکیں گے؟ سیدھا جواب ہے: نہیں، ابھی نہیں۔

یہ ابتدائی نمونے تجارتی چِپس کے مقابلے میں بڑے اور سست ہیں۔ انہیں نینو سطح پر لانے کے لیے برسوں کی ریسرچ درکار ہوگی۔

لیکن اس کے باوجود، یہ ایک انقلابی خیال ہے: ایسے کمپیوٹر جو زندہ چیزوں کی طرح بڑھتے، سیکھتے اور فنا ہو جاتے ہیں۔

سوچئے، اگر مستقبل میں آپ کے پہننے والے آلات (Wearables) بایوڈیگریڈیبل سرکٹس سے بنے ہوں جو زمین میں تحلیل ہو جائیں؟ یا خلا میں ایسے کمپیوٹر سسٹمز ہوں جو تابکاری سے متاثر ہونے کے بعد خود کو مرمت کر لیں؟ یہ وہ راستے ہیں جن پر سائنس ابھی قدم رکھ رہی ہے۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق: ”فنگل نظاموں کی توانائی کی کھپت کم، وزن ہلکا، رفتار تیز، اور لاگت کم ہے۔ مستقبل کا کمپیوٹنگ نظام، فنگس پر مبنی ہو سکتا ہے۔“

یہ تحقیق سائنسی جریدے PLOS One میں شائع ہوئی،
اور اس نے ایک نیا سوال پیدا کر دیا ہے: کیا زندگی خود اپنی مشین بن سکتی ہے؟ شاید مستقبل میں کمپیوٹر چِپس فیکٹریوں میں نہیں، بلکہ زمین کی گود میں اُگا کریں گے، جہاں فنگس، دماغ، اور ٹیکنالوجی ایک ہی نظام بن جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button