کھنڈر سے برآمد ہوئی نامعلوم شاعر کی ایک نظم

امر گل

امر گل

شہر کے بیچوں بیچ ایک پرانا برگد تھا۔
اس کی جڑوں میں مٹی نہیں، مہر شدہ سرکاری فائلیں دبی تھیں
جن میں انسانوں کی خاموشی لپٹی تھی۔
عجیب برگد تھا
جس کے پتے زرد نہیں ہوتے تھے،
صرف رنگ بدلتے تھے:
کبھی آئینی سبز،
کبھی قانونی نیلا،
کبھی اقتدار کا سنہری۔

دن کی روشنی میں
اس برگد کے پتے
انسانی کھوپڑیوں کی طرح نظر آتے تھے
اس لیے فیصلہ کیا گیا
کہ شہر میں دن پر پابندی عائد کر دی جائے۔۔

اک روز شہر کے چوراہے پر
ڈھول بجاتے نقارچی نے اعلان کیا،
”ہم آپ کی حفاظت کے لیے
شہر میں رات کو نافذ کر رہے ہیں!“
کھوپڑی کی طرح نظر آتے پتوں سے
ڈرے ہوئے عوام تالیاں بجانے لگے۔

عوام کی تالیوں سے خوش ہو کر
مابدولت نے انہیں
رعایا کے درجے پر فائز کر دیا۔۔
تاکہ فائز کو بھی
اس کو حقِ نمک ادا ہو جائے۔۔
حقِ نمک نے
شہر کے حلق کو کھارا کر دیا
شہر بے چین ہو گیا
تو وضاحتوں کی شیرینی میں لپٹی
خاموشی تقسیم کر دی گئی۔

برگد کی چھاؤں میں تین کردار بیٹھ گئے،
ایک، جو ہر روز ایک اینٹ اٹھا کر
دیوار میں چن دیتا تھا،
”میں غریب ہوں، میرا نام بھوک ہے۔“
دوسرا، سونے کی روشنائی سے
آئین پر لکیریں کھینچتا تھا،
”میں حاکم ہوں، میرا نام ترمیم ہے۔“
تیسرا، مہر اٹھائے کھڑا تھا،
”میں نگہبان ہوں، میرا نام اختیار ہے۔“

منصف، دھڑا دھڑ مہریں ثبت کرتے جاتے تھے
تاکہ شہر میں کوئی بھی فیصلہ
غیر قانونی اور غیر آئینی نہ رہے۔

شہر مسلسل اندھیرے سے بے چین ہونے لگا۔۔
تو ایک دن ترمیم نے بھوک سے کہا،
”ہم تمہارے لیے ایک نیا دن لکھ رہے ہیں۔
ستائیس پردوں میں لپٹا ہوا دن
یہ دن تمہاری قسمت بدل دے گا۔“

بھوک نے معصومیت سے سوچا:
’میری قسمت…
یا تمہاری دیوار کی اونچائی؟‘
لیکن پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی۔

ترمیم نے خاموشی کو حمایت سمجھا
اور مسکرا کر قلم گھما دیا،
اختیار نے مہر لگا دی۔
تھپ پ۔۔۔۔ دھات جیسی آواز آئی۔
ایسا لگا، جیسے
کسی گردن پر آخری کیل ٹھونکی گئی ہو۔

اور پھر غریب کو
اس برگد کی چھاؤں کے کنارے پر دھکیل دیا گیا۔

پھر بھی شہر کے لوگ جشن مناتے رہے:
”جمہوریت زندہ باد!“

برگد کے پتے پھڑپھڑاتے ہوئے کبھی سرگوشی کرتے:
”جڑیں اب قانون نہیں پیتیں، خون پیتی ہیں۔“

عدالت کا دروازہ ہلکا سا چرچرا کر کھلا،
ایک بھاری، گونجتی ہوئی آواز آئی،
”ہم فیصلے اصولوں کے مطابق کرتے ہیں۔“

دور خامشی نے سرگوشی کی،
وہ اصول جو کل ایک فائل کے نیچے دبے تھے،
آج کسی اور دسترخوان پر رکھے گئے ہیں،
اور کل شاید کسی مٹھی میں بند ہوں گے۔۔

منصف نے دھاڑ کر کہا،
”یہاں قانون آنکھ کے اشارے کی راہ پر چلتا ہے،
تمہارے بھلے کے لیے اندھیرا پھیلاتا ہے
تاکہ بے نور آنکھیں
اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہو سکیں۔۔
یہ اندھیرا بہت مفید ہے،
تم نہیں سمجھو گے کم عقلو،
سمجھنے کی کوشش کرو
یہ اندھیرا ہی دراصل انصاف ہے۔۔“

پھر جیسے کوئی صفحہ پلٹا گیا،
اور اس صفحے پر حروف
چمگاڈریں بن کر اڑنے لگے۔۔
ان کی آواز ایسی تھی،
جیسے فیصلوں کا موسم بدلنے کا اعلان کرتی ہو۔

ایک رات بھوک نے دیکھا
کہ اس کے ہاتھ اینٹیں اٹھاتے اٹھاتے
چھلنی ہو چکے ہیں۔۔
دیوار بہت اونچی ہو چکی ہے،
آسمان ڈھک چکا ہے
اور برگد کی چھاؤں میں اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

اسی رات عدالت کے دروازے پر
بارش کا ایک قطرہ آ کر ٹوٹا۔
پانی نہیں تھا،
ایسا لگ رہا تھا، جیسے
کسی کا صبر پگھل کر بہہ گیا ہو۔

بھوک نے آخری اینٹ پھینکتے ہوئے،
زور سے ایک آہ کھینچی۔۔

تب ایک خوفناک آواز گونجی،
”خبردار۔۔۔ آہ غیر آئینی ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button