دنیا کے وہ سات ملک، جنہوں نے اپنے نام تبدیل کیے۔۔۔

ویب ڈیسک

حال ہی میں ترکی نے اپنا نام بدل کر ترکیہ رکھ لیا ہے۔ صدر ایردوآن نے گزشتہ برس ہی اس نئے نام کے لیے مہم شروع کی تھی، انقرہ نے دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے اب ملک کا نیا نام ترکیہ استعمال کرنے کی درخواست کی ہے

یاد رہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے گزشتہ برس دسمبر میں ترکی کا نام بدلنے سے متعلق حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا ”ترکیہ ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کے بہترین اظہار کی نمائندگی کرتا ہے“

اقوام متحدہ نے ترکی کے تبدیل شدہ نام ‘ترکیہ’ کو منظوری بھی دے دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن جارک نے بتایا کہ سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش کو ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کی جانب سے درخواست موصول ہونے کے بعد اقوام متحدہ میں جمہوریہ ترکی کا نام ‘ترکیہ’ کے طور پر رجسٹرڈ کرلیا گیا ہے ۔ترکی کا تبدیل شدہ نام ترکیہ فوراً نافذ العمل ہوگیا ہے

ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کا کہنا تھا ”نام تبدیل کرنے سے ہمارے ملک کے برانڈ ویلیو میں اضافہ کرنے کا عمل تکمیل کو پہنچ جائے گا“

ترکی گزشتہ کئی برسوں سے اپنی مصنوعات کی برانڈنگ ”میڈ ان ٹرکی“ سے ”میڈ ان ٹرکیہ“ کرنے کی کوشش کر رہا تھا

واضح رہے کہ ترکی کے عوام کے لیے اپنے ملک کا یہ نام کوئی نیا نہیں ہے، ان کی اکثریت پہلے سے ہی اپنے ملک کو ترکیہ پکارتی ہے لیکن اس کے باوجود انگریزی میں استعمال کیا جانے والا نام ترکی ملک کے اندر بھی کافی مقبول ہے۔ ترکی کے برآمد کنندگان کی تنظیم نے ملک کی مصنوعات پر جنوری 2020 سے ہی’میڈ ان ترکیہ’ لکھنا شروع کردیا تھا

نام تبدیل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے

آپ نے ترکی (Turkey) کو اگر کبھی گوگل پر سرچ کیا ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جمہوریہ ترکی کے سرخ پرچم کے ساتھ ہی ٹرکی نام کے ایک پرندے کی تصویر بھی سامنے آتی ہے

کہا جاتا ہے کہ ‘ٹرکی‘ نامی پرندے کا تاریخی پس منظر یورپی تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ یورپی نوآبادکار جب شمالی امریکہ پہنچے، تو وہاں انہوں نے مشرقی افریقہ میں پائے جانے والے گنی فاؤل سے ملتے جلتے جنگلی پرندے دیکھے

اس دور میں یورپی گنی فاؤل سلطنت عثمانیہ سے درآمد کرتے تھے۔ اسی مماثلت کی بنیاد پر انہوں نے شمالی امریکہ کے جنگلی پرندے کو ’ٹرکی مرغ‘ کا نام دیا، جو مقبول ہو گیا

لیکن اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اس پرندے کو امریکہ میں ‘تھینکس گیونگ ڈے’ کے موقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ ڈکشنری میں ٹرکی کا ایک مفہوم ’احمق اور بے وقوف شخص‘ بھی درج ہے

اس لیے نام کی تبدیلی کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ترک صدر کو ملک کے قومی پرندے ’ٹرکی‘ سے اس کی مماثلت شاید پسند نہ ہو۔ یوں بھی ایردوآن حکومت قومی شناخت کے بیانیے کے حوالے سے کافی حساس ہے

جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پروفیسر مصطفیٰ اکساکل کہتے ہیں ”نام کی تبدیلی کچھ لوگوں کو مضحکہ خیز لگے گی لیکن یہ عمل ایردوآن کو ملک کے محافظ اور بین الاقوامی احترام دلانے والے کردار کے طور پر پیش کرتا ہے“

یہ پیش رفت اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات نیز عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد نئی مملکت کے قیام کے ایک صدی مکمل ہونے سے قبل ہوئی ہے

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی ملک نے اپنا نام تبدیل کیا ہے، اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کئی ملکوں کے ناموں میں تبدیلی کی منظوری دے چکا ہے

وہ سات ممالک، جنہوں نے اپنے نام بدلے

حالیہ برسوں میں چند دیگر ملکوں نے بھی اپنے نام تبدیل کیے ہیں، کچھ ممالک نے سیاسی اور کچھ نے تاریخی وجوہات کی بنا پر لیکن بعض نے صرف مارکیٹنگ کے لیے ایسا کیا

نیدرلینڈز :
ڈچ حکومت نے ہالینڈ کا نام ترک کر کے ملک کا نیا نام نیدرلینڈز رکھا۔ سن 2020 کے بعد سے تجارت پیشہ افراد، سیاحتی بورڈ اور حکومت سبھی ہالینڈ کی جگہ نیدرلینڈز استعمال کرتے ہیں۔ اب شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ اس یورپی ملک کے بارہ صوبوں میں سے صرف دو صوبے ہیں

کہا جاتا ہے کہ ہالینڈ نے اپنا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ مبینہ طور پر اس لیے کیا کہ اس ملک میں تفریح کے لیے منشیات اور جسم فروشی کی قانونی اجازت کی وجہ سے جو تاثر بن چکا ہے، اس سے خود کو الگ کیا جا سکے

بہرحال اب تک یہ واضح نہیں کہ اس ملک کے ڈومین نام Holland.com کا کیا بنے گا۔ یہ نام اب بھی ڈچ سیاحتی ایجنسی کی ویب سائٹ پر موجود ہے

شمالی مقدونیہ:
سن 2019ع میں جمہوریہ مقدونیہ نے اپنا نام سرکاری طور پر تبدیل کر کے جمہوریہ شمالی مقدونیہ رکھ لیا۔ دیگر ملکوں کے برعکس اس نام کی تبدیلی کی وجہ سے صرف سیاسی تھی

شمالی مقدونیہ یونان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا چاہتا تھا تاکہ اسے نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہونے میں آسانی ہو

واضح رہے کہ یونان کا اپنے اس پڑوسی ملک کے ساتھ مقدونیہ کا نام استعمال کرنے کی وجہ سے عرصے سے تنازعہ چلا آرہا تھا، کیونکہ یہ یونان کا بھی جغرافیائی نام ہے۔ مقدونیہ قدیم یونانی سلطنت بھی رہا ہے۔ نام کے تنازعے نے خطے میں عدم استحکام کی صورت بھی پیدا کر دی تھی۔

ایسواتینی:
اپریل 2018ع میں سوازی لینڈ کے بادشاہ مسواتی سوئم نے نوآبادیاتی ماضی سے تعلق توڑنے کی کوشش میں اپنے ملک کانام بدل کر اسواتینی کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ اس بات سے بھی ناخوش تھے کہ بعض لوگ غلطی سے سوازی لینڈ کو سوئٹزرلینڈ سمجھ لیتے تھے

اس افریقی ملک نے اپنے قیام کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اپنا نوآبادیاتی نظام سے پہلے کا نام ایسواتینی دوبارہ اپنا لیا، جس کا مطلب ’سوازیوں کی سرزمین‘ بنتا ہے

چیکیا:
وسطی یورپی ملک چیک جمہوریہ نے مارکیٹنگ کے تناظر میں اپنا نام تبدیل کیا۔ چیک حکومت نے سن 2016ع میں سرکاری طور پر ملک کا نام چیکیا رکھ دیا اور بین الاقوامی ضرورتوں کے پیشِ نظر اس چھوٹے نام کو فروغ دینے کی سفارش بھی کی

جس طرح فرانس کا سرکاری نام جمہوریہ فرانس ہے، اسی طرح چیک جمہوریہ چیکیا ہو سکتا ہے۔ یہ نام بولنے میں بھی زیادہ آسان لگتا ہے

لیکن کچھ لوگوں کو چیکیا اور روسی جمہوریہ چیچنیا کے مابین مغالطہ بھی ہو جاتا ہے۔ شاید اسی لیے چیک وزیر اعظم آندریاس بابِس نے سن 2020ع میں جریدے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں چیکیا نام پسند نہیں ہے

کابو وردے :
بحر اوقیانوس میں واقع یہ ملک سینیگال کے ساحل سے تقریباً سات سو کلومیٹر دور ہے۔ اس نے سن 2013ع میں اپنا نام تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی

اسے پہلے یہ ملک کیپ ویردی کے نام سے جانا جاتا تھا، لیکن اب اس کا نام کابو ویردے ہے۔ اس نام کا پرتگالی زبان میں مطلب ہے: ”سبز خاکنائے‘‘

گو کہ یہ کوئی خاکنائے نہیں ہے اور یہ مجموعہ الجزائر براعظم افریقہ کے انتہائی مغربی کنارے پر واقع ہے، تاہم نام تبدیل کرنے کی کچھ اور عملی وجوہات بھی رہی ہیں۔ تب اس ملک کے وزیر ثقافت نے کہا تھا کہ ان کے ملک کو ایک ایسے معیاری نام کی ضرورت ہے، جس کا ترجمہ نہ کرنا پڑے

سری لنکا:
ایسواتینی کی طرح سری لنکا نے بھی اپنے نوآبادیاتی ماضی سے تعلق ختم کرنے کے لیے اپنا نام اپنایا تھا

اگرچہ ملک کے نام کی تبدیلی برطانیہ سے سن 1972ع میں آزادی ملنے کے بعد ہی عمل میں آ گئی تھی، تاہم سن 2011ع تک سرکاری طور پر اس ملک کا پرانا نام سیلون بھی استعمال ہوتا رہا

اس ملک میں تیار ہونے اور بڑے شوق سے پی جانے والی سیلون چائے بین الاقوامی سطح پر اب بھی اپنے اسی نام سے فروخت اور برآمد کی جاتی ہے۔ اور سب سے اہم بات، ریڈیو سیلون کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close