کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں ریتی بجری مائننگ: حرص و لالچ کا کھیل

حفیظ بلوچ

کھیرتھر نیشنل پارک، ملیر اور جامشورو کے علاقوں میں ریتی بجری مائننگ نے ماحولیاتی تباہی کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بھی سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف غیر قانونی مائننگ کے باعث زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے، دوسری طرف یہ پانی مزید کھارا اور آلودہ ہو چکا ہے، جس سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ حال ہی میں کوہستان کے ایک گوٹھ میں ڈائریا کی وبا پھوٹنے سے کئی بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔

پہاڑوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے نہ صرف ماحولیاتی توازن بگڑا ہے بلکہ جنگلی حیات بھی خطرناک وائرل بیماریوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو رہی ہیں۔ ہم گزشتہ کئی سالوں سے کھیرتھر نیشنل پارک کے تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہوا ہے، جس پر اسٹے آرڈر نافذ ہے کہ اس علاقے میں کسی بھی قسم کی مائننگ، جنگلات کی کٹائی یا شکار نہیں کیا جا سکتا۔

ملیر میں تو مائننگ پر قانونی طور پر مکمل پابندی عائد ہے، لیکن اس کے باوجود غیر قانونی مائننگ کھلے عام جاری ہے۔ کھیرتھر اور ملیر دونوں میں عدالت کے حکم اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کوئی بھی شخص دن کی روشنی میں گڈاپ کی سڑکوں اور بحریہ ٹاؤن کے اندر سے ریتی بجری سے لدے ڈمپرز گزرتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔ گڈاپ کھار سینٹر، ملیر کی ندیوں اور ملیر دریا کے کناروں پر رات دن غیر قانونی مائننگ جاری ہے اور یقیناً یہ سب کچھ اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ تباہی سرکاری سرپرستی میں ہو رہی ہے اور سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

اس مسئلے کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ ریتی بجری مافیا مقامی غریب لوگوں کو چند پیسوں کے عوض استعمال کرتا ہے، اور اب اس کے سنگین نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں گوٹھ حیات گوندر کے قریب تھدو ندی میں انہی مائننگ گروہوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ اگرچہ لاٹھیاں یا گولیاں نہیں چلیں، لیکن جھگڑے کے دوران ایک اہم سڑک، جو کراچی اور جامشورو کو آپس میں ملاتی ہے، کو بھاری مشینری سے گڑھا کھود کر بند کر دیا گیا۔۔ یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو، خاکم بدہن، کچھ بعید نہیں کہ معاملہ کشت و خون تک پہنچ جائے۔

مقامی لوگوں کے مطابق، یہ جھگڑا دو مائننگ گروہوں کے درمیان تھا اور اس کے نتائج عام کوہستانی غریب لوگوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ اس سڑک پر پچاس سے زائد دیہات کی آمد و رفت کا دار و مدار ہے۔ سڑک بند ہونے سے لوگ کئی دنوں تک شدید مشکلات کا شکار رہے۔ یاد رہے کہ ان علاقوں کی روزمرہ ضروریات، بازار، اسپتال اور روزگار کے بیشتر ذرائع کراچی کے گڈاپ ٹاؤن سے وابستہ ہیں، جہاں جانے کے لیے یہی راستہ استعمال ہوتا ہے۔

بحریہ ٹاؤن سے گزرنے والا متبادل راستہ رات نو بجے سے صبح نو بجے تک بند رہتا ہے، اور دن میں بھی وہاں داخل ہونے والوں سے درجنوں سوالات کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ رات سڑک بند ہونے سے مقامی آبادی بے حد پریشان رہی۔ مقامی لوگوں نے متعلقہ ایس ایچ او کو صورتحال سے آگاہ کیا، مگر اس کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔۔ اور وجہ صاف ظاہر ہے۔

جب میری مقامی لوگوں سے بات ہوئی تو وہ اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ ہم کئی سالوں سے کھیرتھر نیشنل پارک کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔ جب عدالتی حکم کے باوجود مائننگ نہ رکی تو ہماری قانونی ٹیم (پروفیسر ایڈوکیٹ عبیرا اشفاق) کی قیادت میں وہاں کا جائزہ لینے گئی۔ اس موقع پر ریتی بجری مافیا کے مقامی غنڈوں نے ہم پر حملہ کیا۔ جب گڈاپ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی گئی تو انکار کر دیا گیا، جس کے بعد ملیر کورٹ سے عدالت کے حکم پر ایف آئی آر درج کرانے کا آڈر پاس کرایا۔

یہ مسئلہ صرف ریتی بجری مائننگ تک محدود نہیں ہے۔ بلڈر مافیا اور بااثر سردار وڈیرے مقامی لوگوں کی زمینیں بھی چھین رہے ہیں۔ آج کھیرتھر نیشنل پارک کے ساتھ ساتھ پورا کوہستانی سماج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ سندھ کا ایک اہم قدرتی اور ثقافتی وسیلہ، سندھ ہی سے چھینا جا رہا ہے، مگر چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

کوہستان کے مقامی انڈیجینئس لوگ بے بسی سے اپنی زمینوں، جنگلات اور پہاڑوں کو لٹتا اور اجڑتا دیکھ رہے ہیں۔ انہیں اپنے ہی علاقوں سے بےدخل کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے، جو کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

میری تمام سندھ دوستوں، ماحولیاتی اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل ہے کہ مرتے ہوئے کوہستان کو بچانے کے لیے آگے آئیں، اور کوہستان کے غریب، انڈیجینئس لوگوں کے تحفظ کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button