
یہ یاد نہیں کہ جب پہلی بار اسکول بھیجا گیا تو ماحول کیسا تھا۔ دھندلی یادیں بس اتنا بتاتی ہیں کہ ایک سلیٹ، چاک، ایک کاپی، پینسل اور سندھی کی پہلی کتاب ساتھ تھی۔ کیا پڑھایا جاتا تھا، یہ یاد نہیں، مگر سندھی الف ب بڑی ترنم کے ساتھ پڑھائی جاتی تھی۔ ایک بلوچ ماں کے دامن سے نکل کر اسکول میں سندھی پڑھنا کیسا تھا، اس کی تفصیل تو یاد نہیں، مگر آج یہ ضرور سمجھ آتا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا کیوں ضروری ہے۔
بچہ گھر میں اپنی مادری زبان سیکھ رہا ہوتا ہے، اسی زبان میں سوچ رہا ہوتا ہے اور جب اسے اسکول لے جایا جاتا ہے تو وہ ایسی زبانیں سنتا ہے، جنہیں وہ سمجھ نہیں پاتا۔ خاص طور پر ہمارے دیہی سماج میں جہاں گھروں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، مرغیاں، بکریاں، گائیں، کتے، بلیاں سب ساتھ موجود ہوتے ہیں، بچہ اپنی دنیا اپنی زبان میں گھڑتا ہے اور اسکول پہنچ کر یکایک ایک دوسری دنیا اس کے سامنے کھول دی جاتی ہے۔
ایک معصوم بچہ جو بلوچی میں بکری کو ”پَس“، بلی کو ”پُشی“ اور کتے کو ”کوچَک“ کہتا ہے، اسکول میں اسے کہا جاتا ہے کہ پَس کو بکری، پُشی کو بلی اور کوچک کو کتا کہے۔ اس تضاد سے اس کی ذہنی الجھن بڑھ جاتی ہے۔ وہ سوچ اپنی مادری زبان میں رہا ہوتا ہے، مگر اسے پڑھنا لکھنا دوسری زبانوں میں پڑتا ہے۔
میرے ساتھ بھی یہی ہوا، گھر میں بلوچی، اسکول میں سندھی اور اردو، مدرسے میں عربی، اور پانچویں جماعت تک یہی چکی چلتی رہی۔ چھٹی جماعت میں انگریزی سامنے آ کھڑی ہوئی اور مزید الجھن بڑھ گئی۔
اسی کنفیوژن کے باوجود جتنی تعلیم حاصل کر سکا، کی۔۔ مگر اپنی مادری زبان بلوچی آج بھی سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ میرا نہیں، میری زبان کا المیہ ہے، اور یہ المیہ پاکستان کی ہر اُس زبان کا ہے، جسے سرکاری سرپرستی میسر نہیں۔
آئیے اسی پر بات کرتے ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم کیوں ضروری ہے۔
مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بچوں کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور UNESCO کے مطابق مادری زبان ہر انسان کا بنیادی حق ہے، کیونکہ یہی زبان بچے کی ذہنی نشوونما، اعتماد اور سیکھنے کی رفتار کے لیے مضبوط بنیاد بنتی ہے۔ ہم چونکہ نہ مہذب ہیں نہ ترقی یافتہ، اسی لیے ریاستی اور معاشرتی سطح پر اس سوچ سے بہت دور کھڑے ہیں۔
دنیا کے تمام ماہرینِ لسانیات اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان میں سیکھنے والا بچہ زیادہ توجہ سے سمجھتا ہے، بہتر سوال پوچھتا ہے، تخلیقی بنتا ہے اور دوسری زبانیں بھی جلدی سیکھ لیتا ہے۔ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ مادری زبان میں تعلیم پانے والے بچوں کی کارکردگی، شخصیت اور cognitive skills دوسری زبان میں پڑھنے والے بچوں سے کہیں بہتر ہوتی ہیں۔
مختصر یہ کہ مادری زبان صرف زبان نہیں، شناخت، علم، اعتماد اور ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔
پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہے، مگر یہاں چاروں اکائیوں، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ کشمیر اور گلگت بلتستان تک کہیں بھی قوموں کی حیثیت کو سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ریاست پاکستانیت کا نعرہ لگا کر قومیت سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے، اور مذہب کو ڈھال بنا کر ایک ملت کا تصور پیش کرتی ہے، جبکہ دنیا اس تصور کو کب کا رد کر چکی ہے۔ یورپ سے لےکر عرب دنیا اور افریقہ تک کہیں بھی ”ایک ملت، ایک قوم“ کا یکساں نمونہ موجود نہیں۔ اسی ملت کے چکر میں قوموں کے ساتھ مقامی قومی زبانیں بھی محرومی کا شکار ہیں، ایک استحصال ہے جو قوموں کے ساتھ قومی زبانوں کا بھی جاری ہے ـ
بہرحال آگے چلتے ہیں۔۔۔ لسانی تنوع کے حوالے سے ایک مستند بین الاقوامی ڈیٹابیس (Ethnologue) کے مطابق پاکستان میں تقریباً 80 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ان میں سے 68 مقامی (indigenous) اور تقریباً 12 غیر مقامی (non-indigenous) زبانیں ہیں۔
دیگر تحقیقی رپورٹس انہیں 74، 75 یا 78 بھی بتاتی ہیں۔
یونیسکو ” UNESCO ” کےمطابق پاکستان کی تقریباً 27 زبانیں خطرے سے دوچار (endangered) ہیں۔ بعض رپورٹوں میں 16 زبانوں کو in trouble اور 4 کو dying یعنی انتہائی خطرے کی حالت میں بتایا گیا ہے۔ خاص طور پر گلگت بلتستان، چترال اور خیبرپختونخوا کی زبانیں جیسے: کالاشا، یدغہ، توروالی، دامیل، بروشسکی، گوار-باتی وغیرہ۔
یہ سارے حقائق سوال پیدا کرتے ہیں کہ زبانیں خطرے میں کیوں پڑتی ہیں؟ اس کا سب سے بڑا جواب ہے: سرکاری سرپرستی کی کمی اور طاقتور زبانوں کے زیر سایہ کم وسائل اور عدم توجہ
جب زبان ریاستی سطح پر تسلیم نہ ہو، اسے اسکول، عدالت، میڈیا یا روزگار میں جگہ نہ ملے تو نئی نسل اسے سیکھنے میں دلچسپی کھو دیتی ہے۔ یوں زبانیں آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگتی ہیں۔
پاکستان میں کئی زبانیں آج وینٹیلیٹر پر ہیں اپنی مدد آپ کے طور پر زندہ ہیں۔
یہ مسئلہ گھر کی ماں، معاشرتی ماحول، اور آخرکار قوم کی بقا تک پھیل جاتا ہے۔ ہم بلوچ چاہے بلوچستان میں ہوں یا سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، یا افغانستان کہ ایرن یا کہیں اور آج اسی سوال کے سامنے کھڑے ہیں ـ
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی مادری زبان کی بقا اور سرپرستی ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔
(یہ تحریر میں بلوچی میں بھی لکھ سکتا تھا، مگر موضوع کی وسعت اور اہمیت کی وجہ سے اردو میں لکھنے پر مجبور ہوں۔)
جاری ہے




