پاکستان میں سوشل میڈیا پر منشیات فروشی کے مکروہ دھندے کے بارے میں چشم کشا رپورٹ!

ویب ڈیسک

اسلام آباد – دنیا بھر کی طرح پاکستان میں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی لت میں مبتلا ہو کر نوجوان نسل خاص طور پر اس دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے

چرس اور کوکین کے بارے میں تو سنا تھا اور یہ بھی کہ کتنے کی ملتی ہے اور کتنی آسانی سے ملتی ہے؟ لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں جدت آئی ہے، اسی طرح منشیات کے ڈیلر بھی اس کا استعمال کرنے لگ گئے ہیں

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو میں رضا ہمدانی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں انہوں نے حال ہی میں نوجوانوں کے ایک گروپ سے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ لڑکے اور لڑکیاں کون کون سی منشیات استعمال کرتے ہیں، تو اس بارے میں بتانے میں ان کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی، لیکن کہاں سے لیتے ہیں اس بارے میں وہ کسی بھی قسم کی معلومات دینے کے لیے تیار نہیں تھے

اصل نام نہ شائع کرنے کی شرط پر اس گروپ کے کچھ نوجوان بات کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ لیکن پھر ایک اور شرط آ گئی کہ ڈیلر کا نام وہ نہ بتائیں گے اور نہ ہی دکھائیں گے

نوجوانوں کے اس گروپ سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ انعم (نام بدل دیا گیا ہے) سے جب پوچھا گیا کہ ”منشیات کی رسائی کیسے ممکن ہوتی ہے؟“ تو انہوں نے بتایا ”مجھے انسٹاگرام پر ایک اکاؤنٹ سے فرینڈ ریکوئسٹ آئی۔ مجھے معلوم تھا کہ اس اکاؤنٹ پر منشیات فروخت کی جاتی ہیں۔ لیکن مجھے میرے دوستوں اور ان کے دوستوں سے معلوم چلا کہ فرینڈ ریکوئسٹ بھجوانے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ وہ کسی بھی اجنبی کو اکاؤنٹ تک رسائی نہیں دیتے۔ جو ان سے پہلے سے خرید رہا ہو اگر وہ آپ کا ریفرنس دے اور کہا کہ یہ بھی خریدے گا یا گی، تو تب وہ فرینڈ ریکوئسٹ بھیجتے ہیں۔ اور اسی طریقے سے اس اکاؤنٹ سے مجھے فرینڈ ریکوئسٹ آئی۔“

اس سوال پر کہ اس انسٹاگرام پیج پر کیا کچھ ملتا ہے؟ انعم کا کہنا تھا ”ان کا مینیو ہے، جو ان کے پیج پر ہے اور وہاں سے چیزیں دیکھ کر آرڈر کر سکتے ہیں۔ کوکین سے لے کر ویڈ، ایکسٹسی، ایل ایس ڈی وغیرہ۔ ایکسٹسی برطانیہ، جرمنی، ایمسٹرڈیم، روٹرڈیم وغیرہ سے آتی ہے اور تین سو سے چار سو گرام کی قیمت تین ہزار سے چار ہزار ہے۔“

انہوں نے بتایا ”پانچ گرام ویڈ کی قیمت چودہ ہزار ہے، جب کہ پرپل کش کی قیمت پینتالیس ہزار ہے۔ دو گرام خالص ایم ڈی ایم اے کی قیمت بیس ہزار جبکہ کولمبیئن کوک بھی دستیاب ہے جو کہ تین گرام اڑتالیس ہزار کی ہے۔‘

جب انعم سے پوچھا گیا کہ کس صورت میں ملتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ”تمام منشیات کھانے کی اشیا میں ہوتی ہے، جیسے گمی بیئر وغیرہ۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے ان سب لڑکے لڑکیوں کی عمریں تو بیس سے پچیس سال تک ہیں، لیکن گمی بیئر کھا رہے ہیں۔ ہم نے ایک پیکٹ خریدا ہے جس میں پچیس گمی بیئر ہیں اور ایک گمی بیئر میں سولہ گرام ٹی ایچ سی ہوتی ہے۔ ٹی ایچ سی میری جوانا میں ہوتی ہے۔ اس کی قیمت سات ہزار ہے۔ مجھے تو اس کا خاص نشہ نہیں ہوا لیکن دوسروں کو بڑا لطف آ رہا ہے۔“

آرڈر کے طریقہ کار کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انعم کا کہنا تھا ”میں ان کے انسٹاگرام پیج پر جاتی ہوں اور پیغام بھیجتی ہوں کہ میں نے آرڈر کرنا ہے۔ ہم انسٹاگرام پر آرڈر نہیں کر سکتے، کیونکہ انسٹاگرام اکاؤنٹ بند کر دے گا۔ اور اسی لیے انہوں نے اپنے گاہکوں کو دو غیر ملکی نمبرز بھی دیے ہوئے ہیں، جن پر واٹس ایپ پر آرڈر دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ نمبر ہم اسی صورت میں استعمال کریں گے اگر انسٹاگرام ان کا اکاؤنٹ منشیات بیچنے کے جرم میں بند کر دے۔“

انہوں نے بتایا ”انسٹاگرام پر میسج بھیجنے کے بعد وہ ہمیں ایک لوکل نمبر بھیجتے ہیں، جس پر ہم واٹس ایپ پر آرڈر کرتے ہیں۔ ہم اس نمبر پر کال نہیں کر سکتے کیونکہ وہ سختی سے منع کرتے ہیں کہ نہ تو بات ہوگی اور نہ ہی آمنے سامنے آئیں گے، تاکہ وہ بھی کسی خطرے میں نہ پڑیں اور نہ ہی ہم۔ وہ ہمیں ہمارے آرڈر کی قیمت بتاتے ہیں اور ساتھ ہی ایک ایزی پیسہ کا نمبر۔ ہم ایزی پیسہ کر کے اسکرین شاٹ ان کو بھیجتے ہیں اور وہ کنفرم ہونے پر آرڈر کی ترسیل کی شروعات کرتے ہیں۔“

آرڈر کے ڈیلیور ہونے کے طریقے کے بارے میں انعم کا کہنا ہے کہ ”ہم نے کئی بار آرڈر کیا ہے۔ آرڈر کنفرم ہونے پر وہ ایک لوکیشن بھیجتے ہیں۔ اس لوکیشن پر ہمیں کرائے کی گاڑی یا موٹر سائیکل بھیجنی ہوتی ہے۔ ہم اس ڈرائیور سے رابطے میں رہتے ہیں اور جب وہ لوکیشن کے قریب پہنچتا ہے تو ہم ڈیلر کو مطلع کر دیتے ہیں اور اپنا بندہ پیکج کے ساتھ اس لوکیشن پر بھیجتے ہیں۔ ایک بار جب پیکج ڈرائیور کے پاس آ گیا تو اس ڈیلر کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم اس ڈرائیور کو لوکیشن بتاتے ہیں، جہاں سے اس سے پیکج لیتے ہیں۔“

انعم کہتی ہیں ”کوئی بھی پیکج اپنے گھر نہیں منگواتا بلکہ کسی بھی گلی، جو سنسان رہتی ہو، کی لوکیشن سے اس سے پیکج حاصل کرتے ہیں۔ اس ڈرائیور کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس نے ابھی ابھی منشیات ڈیلیور کی ہیں۔“

منشیات کی کوالٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انعم کہتی ہیں ”ان کے انسٹاگرام پیج پر لکھا ہے کہ جو بھی منشیات فروخت کی جاتی ہیں، ان کو پہلے ریجنٹس کٹ سے ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ خیال بھی رکھتے ہیں۔ اگر کوئی زیادہ منشیات بھری کھانے کی اشیا کھا لے اور طبیعت ناساز ہو جائے تو چوبیس گھنٹے ان کے لوگ ہیلپ لائن پر موجود ہوتے ہیں جو ان کو بتاتے ہیں کہ اب کیا کریں۔“

”اس کے علاوہ اگر کسی کو یہ اشیا کھانے سے پہلے کسی قسم کی معلومات چاہیئیں، تو وہ بھی مہیا کرتے ہیں۔“

انعم کا مزید کہنا تھا کہ ”گمی بیئر جب آرڈر کیا تو انہوں نے بتایا کہ پچیس گمی بیئر ایک پیکٹ میں ہیں اور ایک گمی بیئر میں سولہ ملی گرام ٹی ایل سی ہوتی ہے۔ ایک شخص کے لتییے سات گمی بیئر کافی ہوتی ہیں یا پھر پندرہ لیکن پندرہ سے زیادہ نہیں کھانی۔ ڈیلر کے مطابق سو سے ڈیڑھ سو ٹی ایل سی کا مطلب ہے ایک نشہ آور سگریٹ۔ لیکن یہ منشیات بھری کھانے کی اشیا کا اثر سگریٹ سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا اثر بہت آہستہ ہوتا ہے۔“

ڈسکاؤنٹ کے بارے میں انعم نے بتایا کہ وہ اپنے پیج پر بتاتے رہتے ہیں کہ کون سے منشیات سے بھری اشیا آنے والی ہیں۔ دیگر دکانداروں کی طرح ان کی بھی مختلف مہم چلتی رہتی ہیں، جیسا کہ ایک خریدیں اور ایک مفت، بیس سے تیس فیصد کی رعایت، ریگولر خریدنے والوں کے لیے سات سے آٹھ ہزار کی خریداری پر ایک چیز مفت دیتے ہیں

دوسری جانب انسداد منشیات فورس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہیروئن مقبول ترین نشہ ہے اور 77 فیصد منشیات کے عادی افراد اس کی لت میں مبتلا ہیں۔ منشیات کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کا آغاز چرس سے ہوتا جو سستی بھی ہے اور باآسانی دستیاب بھی ہے

گذشتہ سال شائع ہونے والی رپورٹ ’Causes of drug abuse among university students in Pakistan‘ کے مطابق 96 فیصد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات کی ابتدا اپنے دوستوں اور سماجی طور پر مقبول اور لڑکے اور لڑکیوں کے گروپ میں داخل ہونے کے لیے کرتے ہیں۔ 90 فیصد نوجوان پڑھائی کے شدید دباؤ اور 88 فیصد تجسس کے باعث کرتے ہیں

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد چھہتر لاکھ ہے، جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اس میں 78 فیصد مردوں کی ہے، جبکہ 22 فیصد لڑکیاں ہیں۔ منشیات کی لت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال چالیس ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے، جو کہ بہت ہی تشویشناک اعداد و شمار ہیں

منشیات فروش منشیات بیچنے کے لیے جدید ترین طریقے اور سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ چلیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے منشیات کے پھیلاؤ پر نظر رکھیں، ورنہ نوجوان نسل تباہی کی اس آگ میں خاکستر ہو جائے گی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close