ماں بولی (حصہ دوم)

حفیظ بلوچ

میں مادری زبانوں کی حیثیت اور اہمیت پر لکھ رہا ہوں۔ بات اپنی ماں بولی کے درد کی ہے، مگر کسی بھی موضوع پر لکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اسے مکمل، تحقیقی اور وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ زبان صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتی، وہ اپنے پیچھے کوئی پورا معاشرتی ڈھانچہ، ایک تاریخ، ایک شعور اور ایک شناخت لے کر چلتی ہے۔ اسی لیے جب ہم زبانوں کی اہمیت اور اس کے بقا کے لیئے سرکاری سرپرستی کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ جس ریاست میں ہم رہتے ہیں، وہ ریاست اپنے آئین میں ان زبانوں اور انہیں بولنے والے اقوام کے بارے میں کیا کہتی ہے۔

پاکستان کا معاشرہ مختلف لسانی، ثقافتی اور نسلی پہچانوں سے بنا ہے، مگر ہمارا ریاستی نظام ان پہچانوں کو کس دائرے میں رکھتا ہے، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کیے بغیر زبان کے مسئلے کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ اسی پس منظر میں جب ہم آئینِ پاکستان کو کھولتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ 1973 کے آئین میں قوموں، لسانی گروہوں یا مادری زبانوں کے حقوق کے بارے میں کوئی واضح تشریح موجود ہی نہیں۔ آئین شہری اور صوبے تو بیان کرتا ہے، مگر لسانی قوموں کی بطور ”قوم“ شناخت کے لیے کوئی جگہ نہیں بناتا۔ اردو کو قومی زبان اور انگریزی کو سرکاری زبان کی حیثیت ملتی ہے، مگر سندھی، پنجابی، پشتو یا بلوچی جیسے نام آئینی سطح پر کسی قومی درجے کے ساتھ موجود نہیں۔ پاکستان کے آئین میں صوبوں کا ذکر تو ہے مگر ان کے قومی تشخص ان کے اہمیت ان کے تاریخ ان کی زبانوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی گئی۔
یوں یہ سوال کہ ”آئین کے مطابق یہاں بسنے والی قوموں کی کیا حیثیت ہے؟“ عجیب طرح کا خلا دکھاتا ہے۔

ریاست ان زبانوں اور انہیں بولنے والے لاکھوں انسانوں کو آئینی شناخت نہیں دیتی، یوں سوال محض زبان کا نہیں رہتا، پورے قومی اور لسانی وجود کا بن جاتا ہے۔
اس تناظر کے بعد جب ہم پاکستان کے صوبوں میں زبانوں کی عملی صورتحال دیکھتے ہیں تو پہلا اور سب سے بڑا صوبہ، یعنی پنجاب، جو پاکستان میں حاکمیت کا ستون ہے، ہمارے سامنے ایک اہم مثال بن کر کھڑا ہوتا ہے۔ پنجاب کو عام طور پر ایک لسانی طور پر یکساں خطہ سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زبانوں کے سروے اور مقامی مطالعات بتاتے ہیں کہ پنجاب میں صرف پنجابی (بہت بڑی اکثریت) ہی نہیں بلکہ سرائیکی، پوٹھوہاری / پہاڑی، ہندکو (خصوصاً اٹک و شمالی پنجاب)، بلتی / کشمیری زبانیں (محدود کمیونٹیز) ، بلوچی (ڈیرہ غازی خان، راجن پور بیلٹ)، براہوی (منتقل شدہ خاندان)، گوجری (قبائلی و خانہ بدوش گروہ) اور چولستانی راجستھانی بولیاں، میراثی، بھاٹ اور ڈوم گروہوں کی زبانیں (شدید خطرے میں) سمیت آٹھ سے زائد زبانیں پائی جاتی ہیں۔ ہر زبان اپنے اندر ایک الگ دنیا رکھتی ہے، الگ تاریخ، الگ ادبی روایت، الگ آواز، اور الگ حیثیت۔۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ اتنی بڑی لسانی دنیا تعلیمی نظام میں کہیں نظر نہیں آتی۔ پنجاب کا تعلیمی نظام آج بھی صرف اردو اور انگریزی کے گرد گھومتا ہے۔ پنجابی، جو صوبے کی سب سے بڑی زبان ہے، اسکولوں میں ذریعۂ تدریس نہیں۔ چند اداروں میں یہ محض ایک اختیاری مضمون کے طور پر موجود ہے۔ سرائیکی بھی اپنے خطے میں صرف رسمی حد تک شامل ہوتی ہے، جبکہ بلوچی، براہوی، گوجری اور پوٹھوہاری سمیت دوسری ماں بولیوں کا تعلیم کے اندر کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ زبانیں گھروں، گلیوں اور بزرگوں کی یادوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
یوں پنجاب، جو لسانی طور پر پورے پاکستان کا سب سے بڑا تنوع رکھتا ہے، اپنی مادری زبانوں کی سرکاری سطح پر سرپرستی سے تقریباً محروم ہے۔ زبان جب تعلیم میں جگہ نہیں پاتی تو وہ صرف بولی جانے والی زبان تو رہ سکتی ہے، مگر اُس کا علمی، سماجی اور فکری ارتقاء رک جاتا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں زبانیں کمزور پڑتی ہیں، شناختیں دھندلا جاتی ہیں اور قومیں اپنا وہ رنگ کھونے لگتی ہیں جو صدیوں سے دنیا کو دکھاتی آئی تھیں۔

یہ حقیقت ہمیں اس تلخ نتیجے تک لے آتی ہے کہ پنجاب میں زبانیں تو بہت ہیں، مگر انہیں سرکاری حیثیت، تعلیمی حفاظت یا علمی پشت پناہی حاصل نہیں۔ ریاست کا اختیار اردو اور انگریزی تک محدود ہے، اور مادری زبانیں سماجی، تعلیمی اور انتظامی نظام سے باہر کھڑی ایک خاموش جدوجہد میں مصروف ہیں۔

(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button