بھارت: باحجاب مسلمان لڑکی ‘ہندوتوا’ حامیوں کے ہجوم کے سامنے تنہا ڈٹ گئی

ویب ڈیسک

کرناٹک – مسلم طالبات کے اسکارف کی مخالفت میں پر تشدد واقعات کے بعد امتناعی احکامات کے ساتھ ہی کرناٹک میں کالجز بند کر دیے گئے ہیں اور بھارت میں اس مسئلے پر جم کر سیاست ہو رہی ہے

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے بعض کالجز میں گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے اسکارف پہننے والی مسلم طالبات کو اسکول اور کالجز کے اندر داخلے کی اجازت نہیں ملی ہے۔ پہلے اسکول کی انتظامیہ اسکارف کی مخالف تھی اور بعد میں سخت گیر ہندو تنظیمیں بھی اس مخالفت کے لیے سڑکوں پر اتر آئیں

گزشتہ روز انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلم طالبات کے اسکارف پہننے کی مخالفت میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی اور بعض پر تشدد واقعات کے بعد ریاستی حکومت نے منگل کے روز سے تین دن کے لیے ریاست کے تمام کالجز کو بند کرنے کا اعلان کر دیا

مختلف انتہا پسند ہندو گروپ اب حجاب کی مخالفت میں گیرواں رنگ (ہندوؤں کا مذہبی رنگ) کے اسکارف میں جلوس کی شکل میں مسلم طالبات کے حجاب کی مخالفت میں نعرے بازی کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایسے ہی ایک واقعے میں اسکول کے احاطے کے اندر ہندو گروپوں نے ایک تنہا مسلم طالبہ مسکان کو گھیر لیا اور زبردست نعرے بازی

اسکارف میں ملبوس مسلم طالبہ کو گھیر کر جب ہندوؤں نے جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کیے، تو اس نے بھی مشتعل بھیڑ سے بے خوف ہر کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے

ہندوتوا کے حامیوں کے ہجوم نے حجاب میں ملبوس اکیلی طالبہ کا گھیراؤ کیا اور ان کی تضحیک کی، جس کے جواب میں طالبہ نے ’اللہ اکبر‘ (خدا سب سے بڑا ہے) کا نعرہ لگایا

سرکاری خبررساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی علاقے منڈیا میں اپنے کالج کی پارکنگ میں مسکان خان نامی طالبہ نے اپنی اسکوٹی کھڑی کی، جس کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ہجوم ان کی جانب بڑھا اور جانوروں کی طرح چیخ و پکار کرتے ہوئے انہیں گھیرنے کی کوشش کی

سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوتی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بے خوف طالبہ نعرہ لگاتی ہوئی اپنے کالج کی عمارت کی جانب بڑھتی رہی

بعدازاں طالبہ نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب سے میں نے (یہاں) پڑھنا شروع کیا ہے، میں نے ہمیشہ برقعہ اور حجاب پہنا ہے، جب میں کلاس میں داخل ہوتی ہوں تو برقعہ اتار دیتی ہوں، پرنسپل نے کچھ نہیں کہا، یہ سب باہر کے لوگوں نے شروع کیا‘

بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے اس معاملے میں مسلم طالبات کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ آئین انہیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ ادھر مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے اس بارے میں وزیر تعلیم سے مداخلت کی اپیل کی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ سے اس پر پارلیمان میں وضاحت طلب کی ہے

گزشتہ روز ہی حزب اختلاف نے اس مسئلے پر پارلیمان میں ہنگامہ کیا تھا اور حکومت سے اس پر وضاحت طلب کی تھی۔ بدھ کے روز کانگریس پارٹی کی رہنما پرینکا گاندھی نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں اس کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ یہ خواتین کا اپنا حق ہے کہ وہ کیا پہننا پسند کرتی ہیں

انہوں نے ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹ کیا، ’’چاہے وہ بکنی ہو، گھونگھٹ ہو، جینز کی بات ہو یا پھر حجاب ہو، یہ فیصلہ کرنا خاتون کا حق ہے کہ وہ کیا پہننا پسند کرتی ہے۔ بھارتی آئین میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنا بند کریں“

رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی نے بھی اپنی بہن پرینکا کے ٹویٹ کی حمایت کی اور کہا کہ بھارتی آئین انہیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے قبل راہول نے اپنی ایک ٹویٹ کہا تھا کہ طالبات کے حجاب کو، ان کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر ہم بھارتی بیٹیوں کے مستقبل پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ ماں سرسوتی (تعلیم کی دیوی) سب کو علم دیتی ہیں وہ اس بنیاد پر فرق نہیں کرتی ہیں۔‘‘

ریاست کرناٹک میں اسمبلی کے انتخابات جلدی ہی ہونے والے ہیں اور بے جی پی کے ایک رہنما نے راہول گاندھی کے بیان کے رد عمل میں کہا ہے کہ اگر کانگریس پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو، ’’ہندو طالبات کو بھی اسکارف اور برقع پہننے پر مجبور کرے گی۔‘‘

دوسری جانب مسکان کو ہراساں کیے جانے پر میڈیا اور بالی ووڈ کی کچھ معروف شخصیات، دانشوروں اور سیاست دانوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا، اور ملک کو تنزلی کی جانب لے جانے پر مودی حکومت کی مذمت کی

بھارتی نیوز اینکر راجدیپ سردیسائی نے کہا کہ کرناٹک کی ایک تازہ وڈیو میں ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے والے مردوں کو حجاب میں ملبوس ایک نوجوان طالبہ کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، انتہاپسندی کے قوم پر یہی اثرات ہوتے ہیں، یہ ہمیں لباس، خوراک اور مذہب پر تقسیم کرتا ہے، ہمیں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے، لیکن ہم ان کے لباس پر توجہ دیتے ہیں! یہ شرمناک ہے۔

بھارتی فلمساز پوجا بھٹ نے کہا کہ ’ہمیشہ کی طرح ایک عورت کو دھمکانے کی کوشش کرنے کے لیے مردوں کا پورا ہجوم درکار رہا، اپنے زعفرانی رنگ کے دوپٹوں کو ہتھیار کی طرح لہرا کر انہوں نے اپنی کمزوری کو سفاک پن سے چھپانے کی کوشش کی‘

انہوں نے کہا کہ مقصد سے بھٹکی نسل کا ایک بڑا حصہ نفرت کی نذر ہو چکا ہے

بھارتی مصنف ویبھو وشال نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کس حالت میں ڈھل چکا ہے

بھارتی ڈراموں کے مشہور اداکار اور بگ باس کے سابق کھلاڑی علی گونی نے ہندو انتہا پسندوں کے سامنے ڈٹ جانے والی مسلم باحجاب طالبہ کو ’’شیرنی‘‘ قرار دے دیا

اداکار علی گونی جو بگ باس کا حصہ بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے مسلم طالبہ کی انتہاپسند ہندوؤں کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کرنے کی ویڈیو اپنی انسٹا اسٹوری پر شیئر کرتے ہوئے طالبہ کو ’’شیرنی‘‘ قرار دیا۔

وہیں دوسری طرف اداکارہ سوارہ بھاسکر نے بھی طالبہ کی ویڈیو کو ٹوئٹ کراتے ہوئے بھارت کی صورتحال کو شرمناک قرار دیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close