عوامی ہیرو دھرمیندر: ایک تجزیہ (حصہ اول)

ذوالفقار علی زلفی

دھرمیندر ہندی سینما کے پہلے hyper-masculine تھے۔ یہ محض کوئی جذباتی یا غیر ثابت شدہ دعویٰ نہیں، بلکہ ہندی سینما میں اسٹار امیج کی تاریخ سے ثابت شدہ ہے۔ دھرمیندر کی اس شدید مردانگی جس میں مضبوط پٹھوں کی نمائش، غصیلا چہرہ، چوڑی چھاتی، تیس تیس غنڈوں کی پٹائی، بندوق کی گولی کھا کر بھی درد چھپانا وغیرہ ایسے مظاہر تھے، جو 60 کے عشرے میں نہ صرف ہندی سینما بلکہ جنوب کے سینماؤں میں بھی ناپید تھا۔ دھرمیندر پہلے اسٹار تھے، جنہیں پہلے اخبارات و میگزین اور بعد میں عوام نے He Man کا خطاب دیا۔ آگے چل کر بحث کریں گے کہ ان کے اس امیج نے ہندی سینما پر کیا اثرات مرتب کئے، 80 اور بالخصوص 90 کے عشرے میں He man کا تصور کیسے فیمنسٹ تھیوری میں ہدف تنقید بنا۔

دھرمیندر زبردست فین فالونگ، لمبے فلمی کیریئر اور اسٹار امیج پر گہرے اثرات مرتب کرنے کے باوجود بھارتی فلمی اسکالرز کی توجہ حاصل نہ کر سکے۔ میری تحقیق کے مطابق انہیں کسی بھی معتبر فلمی اسکالر نے مطالعے کے قابل نہ سمجھا۔ عام طور پر انہیں سستا تماشا دکھانے والے غیرسنجیدہ اور سطحی کردار ادا کرنے والے اداکار کے طور پر دیکھا گیا۔ میری نگاہ میں ان کے حوالے سے یہ رائے متعصبانہ اور غیر نظریاتی ہے۔ چوں کہ وہ اپنے دیہی پسِ منظر اور مخصوص دیہی سادگی کی وجہ سے میڈیا کی چکاچوند سے دور رہتے تھے، اس لئے میڈیا نے بھی ان کی امیج سازی میں زیادہ حصہ نہ لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کسی بھی فلمی مطالعے کا حصہ نہ بن سکے۔ دوسری جانب فلمی اسکالرز کے برعکس وہ مسلسل ساٹھ سال تک عوام کے ہیرو رہے۔

فلمی اسکالرز عرصے تک مین اسٹریم ہندی سینما کی کمرشل فلموں کو غیرسنجیدہ اور سطحی تماشا قرار دے کر مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کی پوری توجہ عالمی شہرت یافتہ بنگالی فن کار ستیہ جیت رے اور ان کی روایت پر چلنے والے متوازی سینما کے ہدایت کاروں کی ”سنجیدہ“ فلموں پر رہی۔ یہ ایک بہت بڑی نظریاتی غلطی ثابت ہوئی۔ میری نگاہ میں رامسے برادران کی ہارر فلمیں یا سانپوں پر بننے والی تصوراتی فلمیں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔

کمرشل فلمیں وسیع پیمانے پر دیکھی جاتی ہیں۔ کمرشل سینما سماجی خواہشات، طبقاتی تضادات، اکثریتی مذہب کی ثقافت اور عورت کی پیش کش کو ایک خاص ترتیب سے دکھا کر اور اقلیتوں کی اسٹیریوٹائپنگ کرکے سماج کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ کمرشل فلمیں وسیع پیمانے پر دیکھے جانے کے باعث ہمہ گیر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان کو محض تفریحی قرار دے کر نظر انداز کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔

بھارت کے پڑھے لکھے مغرب پلٹ اسکالرز نے دھرمیندر کے باب میں بھی یہی غلطی دہرائی ہے۔ انہوں نے دھرمیندر کی عوامی مقبولیت اور دیہی پسِ منظر کو نظرانداز کرکے اپنی پوری توجہ سپراسٹارز جیسے دلیپ کمار، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن یا نہرو ازم (مکسڈ اکانومی) کے پرچارک راج کپور، بورژوا قوم پرست سینما کے داعی منوج کمار، لبرل سینما کے نمائندے شاہ رخ خان، اصلاح پسند عامر خان یا ٹاکسک مردانگی کی علامت سلمان خان پر رکھی۔ یہاں تک ہندو توادی کے ”پوسٹر بوائے“ اکشے کمار پر بھی مطالعہ ملتا ہے۔ دھرمیندر، جن کے اثرات چھ دہائیوں پر پھیلے ہوئے ہیں، وہ دانش ورانہ مباحث سے جان بوجھ کر غائب رکھے گئے۔

یہ تحریر دھرمیندر کے اسٹارڈم کو سمجھنے کی ادنٌی سی کوشش ہے۔ اکیڈمک فلمی ناقد نہ ہونے کی وجہ سے یقیناً دھرمیندر کا یہ تجزیہ خام اور ٹھوس علمی مواد سے محروم ہوگا مگر میرے خیال سے ایک عوامی ہیرو پر بحث کا دروازہ کھولنے کی پہلی کوشش کے مترادف ہوگا۔

(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button