
ماں بولی کے اس حصے میں آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال کا جواب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قوم، زبان اور شناخت آخر کیوں بنیادی سوال ہے؟ جب ہم ”قوم“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اکثر اسے ایک جذباتی یا سیاسی نعرہ سمجھ لیا جاتا ہے، حالانکہ قوم دراصل ایک زندہ سماجی حقیقت ہوتی ہے۔ قوم نہ صرف سرحدوں سے بنتی ہے، نہ صرف آئین سے، بلکہ اس مشترکہ شعور سے جنم لیتی ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ اس شعور کی سب سے مضبوط شکل زبان ہوتی ہے۔ زبان وہ پہلا وسیلہ ہے جس کے ذریعے انسان دنیا کو سمجھتا ہے، خود کو پہچانتا ہے، اور اپنی تاریخ کو نسل در نسل منتقل کرتا ہے۔
زبان محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں، یہ اجتماعی یادداشت کا ذخیرہ ہوتی ہے۔ ہر لفظ اپنے اندر صدیوں کا تجربہ، دکھ، خوشی، علم اور مزاحمت سمیٹے ہوتا ہے۔ اسی لیے جب کسی معاشرے کی زبان کمزور پڑتی ہے تو دراصل اس معاشرے کی فکری خودمختاری کمزور ہوتی ہے۔ ماں بولی میں سوچنے والا انسان دنیا کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے، جبکہ دوسروں کی زبان میں سوچنے والا اکثر دوسروں کی ترجیحات میں قید ہو جاتا ہے۔
دنیا کی سماجی و سیاسی تحقیق اس بات پر متفق ہے کہ زبان اور قوم کا رشتہ فطری ہوتا ہے۔ قوم زبان سے جنم لیتی ہے، اور زبان قوم کو زندہ رکھتی ہے۔ اس حقیقت کی ایک روشن مثال خود میرے بلوچستان کی تاریخ میں محفوظ ہے، جہاں بلوچ قوم کی اجتماعی یادداشت صدیوں تک ریاستی دستاویزات یا تحریری تاریخ کے بغیر زندہ رہی۔ بلوچ شعرا نے اپنی زبان میں اپنی جنگوں، ہجرتوں، شکست و فتح، قبائلی رشتوں اور رومانوی داستانوں کو طویل کلاسیکی بلوچی شاعری میں محفوظ کیا۔ یہ شاعری صرف ادب نہیں تھی، بلکہ تاریخ، اخلاق اور شناخت کا ایک زندہ ذخیرہ تھی جو نسل در نسل سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا۔
انیسویں صدی کے بعد جب اس زبانی روایت کو تحریر میں ڈھالا گیا، تو معلوم ہوا کہ بلوچی زبان نے وہ کام انجام دیا جو بہت سی ریاستیں اپنی سرکاری تاریخ سے بھی نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ قوم، شدید محرومیوں اور جغرافیائی بکھراؤ کے باوجود، اپنی شناخت سے مکمل طور پر کٹ نہ سکی۔ یہ مثال اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ زبان محض اظہار نہیں، بلکہ قوم کی بقا کی شرط ہوتی ہے، اور جب زبان زندہ رہتی ہے تو قوم بھی کسی نہ کسی صورت زندہ رہتی ہے۔ مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے، جہاں ریاستیں اس فطری رشتے کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی ریاستیں زبان کو شناخت کے بجائے انتظامی مسئلہ سمجھتی ہیں، اور پھر ایک زبان کو ”قومی“ قرار دے کر باقی زبانوں کو حاشیے پر دھکیل دیتی ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان جیسے ممالک کا بحران شروع ہوتا ہے۔ یہاں قوم کا تصور شہریّت تک محدود کر دیا گیا، اور زبانوں کو آئینی شناخت دینے کے بجائے انہیں صوبائی یا ثقافتی دائرے میں قید کر دیا گیا۔ اردو کو قومی زبان قرار دے کر یہ سمجھ لیا گیا کہ مسئلہ حل ہو گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ زبان کا مسئلہ کبھی بھی ایک اعلان سے حل نہیں ہوتا۔ زبان کو جینے کے لیے زمین، ادارے، تعلیم اور وقار درکار ہوتا ہے۔
یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے: کیا ریاست قوم بناتی ہے، یا قوم ریاست بناتی ہے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ریاستیں قوموں سے بنتی ہیں، اور قومیں زبانوں سے۔ جو ریاست اس حقیقت کو قبول کر لیتی ہے، وہ اپنے تنوع کو طاقت میں بدل لیتی ہے۔ اور جو ریاست اس سے انکار کرتی ہے، وہ رفتہ رفتہ اپنے ہی شہریوں سے کٹ جاتی ہے۔
ماں بولی اسی کٹاؤ کے خلاف سب سے پہلی مزاحمت ہوتی ہے۔ یہ مزاحمت کبھی نعروں میں نہیں، بلکہ گھروں میں، کہانیوں میں، لوک گیتوں میں، اور بچوں کی زبان میں ظاہر ہوتی ہے۔ ماں بولی کا تحفظ دراصل اس حق کا تحفظ ہے کہ انسان خود کو اپنی زبان میں بیان کر سکے، سوچ سکے اور سوال اٹھا سکے۔
اسی لیے زبان کا سوال محض لسانی نہیں، یہ سیاسی، سماجی اور تاریخی سوال ہے۔ یہ سوال ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے خطے، اپنے ہمسایہ ممالک اور اپنی ریاستی پالیسیوں کو نئے زاویے سے دیکھیں۔ اگلے حصوں میں ہم یہی دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ مختلف ریاستوں نے زبان کے اس سوال کو کیسے حل کیا، اور کہاں یہ سوال آج بھی سلگ رہا ہے۔
(جاری ہے)




