
جب کسی خطے میں پہاڑ خطرے میں پڑ جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں صرف قدرت نہیں، انسان بھی غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ آج ہندوستان کے گجرات و راجستھان میں اروالی، سندھ کے تھر میں کارونجھر اور کراچی کے کنارے کھیرتھر اسی انجام کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ بظاہر یہ تین مختلف علاقے ہیں، دو مختلف ریاستیں ہیں، مگر ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ہی کہانی ہے، ریاست، سرمایہ اور نام نہاد ترقی کی کہانی بیان کرتی جھوٹی کہانی ہے۔
اروالی کوئی عام پہاڑی سلسلہ نہیں۔ یہ اس خطے کی قدرتی دیوار ہے جو تھر کے ریگستان کو پھیلنے سے روکتی ہے، زیرِ زمین پانی کو زندہ رکھتی ہے اور شمالی ہندوستان کے موسم کو توازن دیتی ہے۔ اسی طرح کارونجھر صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ سندھ کی تہذیبی یادداشت اور مقامی آبادی کا معاشی محاذ ہے۔ وہ پہاڑ جہاں بارش، لوک کہانیاں، عبادت گاہیں اور مقامی زندگی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اور کھیرتھر، جسے اکثر نقشوں میں صرف ایک سرحدی لکیر سمجھا جاتا ہے، دراصل کراچی ملیر دادو سے قمبر شہداد کوٹ تک سندھ کی آخری ماحولیاتی سانسوں کا حصار ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ریاست پہاڑ کو ماں نہیں سمجھتی، وہ اسے معدن سمجھتی ہے۔ زمین اس کے لیے شناخت نہیں، بس پراجیکٹس ہیں، اور مقامی انسان وارث نہیں، رکاوٹ ہیں۔
ہر جگہ ایک ہی دلیل دی جا رہی ہے کہ یہ علاقے پسماندہ ہیں، یہاں ترقی آنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ترقی کس کے لیے ہے؟
اروالی کے معاملے میں ترقی کا مطلب کان کنی اور ریئل اسٹیٹ ہے۔ کارونجھر کے معاملے میں ترقی کا مطلب گرینائٹ کی کان کنی اور تجارت ہے اور کھیرتھر کے معاملے میں ترقی کا مطلب ریتی بجری کی کان کنی، ایکسپریس ویز، ہاؤسنگ اسکیمیں اور زمین کی نیلامی ہے۔
یہ وہ ترقی ہے جو پانی چھین لیتی ہے، چراگاہیں ختم کر دیتی ہے، درخت کاٹ دیتی ہے اور پھر مقامی انسان کو کہتی ہے کہ وہ وہ ریاست کی شکر گذار ہوں۔ لیکن یہ ترقی نہیں، جدید نوآبادیاتی لوٹ مار ہے، جو بندوق سے نہیں بلکہ فائل، نقشے اور قانون کے ذریعے کی جاتی ہے۔
اروالی کے معاملے میں حالیہ برسوں میں جو کچھ ہوا، وہ اس کی واضح مثال ہے۔ پہاڑ کو بچانے کے بجائے پہلے اسے ایک نئی ”تعریف“ دی گئی، کہا گیا کہ جو پہاڑ سو میٹر سے کم اونچا ہے، وہ پہاڑ ہی نہیں۔ یوں کاغذ پر پہاڑ غائب ہو گیا، اور حقیقت میں کان کنی کے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔ یہی فارمولا کارونجھر اور کھیرتھر میں بھی آزمایا جا رہا ہے، کہیں پہاڑ کو ”راک ریسورس“ کہا جا رہا ہے، کہیں زمین کو ”سرکاری غیر استعمال شدہ اراضی“ قرار دے کر نیلامی کے لیے بازار میں رکھ دیئے گئے ہیں۔
یہ قانونی چالاکی سب سے خطرناک ہوتی ہے، کیونکہ اس میں تباہی خاموشی سے آتی ہے۔ نہ گولی چلتی ہے، نہ لاش گرتی ہے، مگر نسلیں بے زمین ہو جاتی ہیں۔
ان تمام منصوبوں میں ایک دلچسپ حقیقت Environmental Impact Assessment یعنی EIA کا ذکر بڑے فخر سے کیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ رپورٹس اکثر ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتیں۔ مقامی چرواہے، کسان، ماہی گیر، عورتیں اور بزرگ ان فیصلوں میں شامل ہی نہیں ہوتے۔ درخت گنے جاتے ہیں، مگر انسان شمار نہیں کیے جاتے۔ ماحول کو جدول میں سمو دیا جاتا ہے، مگر زندگی کو نہیں۔ ایسے میں مزاحمت جنم لیتی ہے۔
اروالی میں یہ مزاحمت قانون اور سائنس کی زبان بولتی ہے۔
کارونجھر میں یہ تہذیب، تاریخ اور روحانیت کی زبان بولتی ہے۔ کھیرتھر میں یہ زمین، روزگار اور بقا کی زبان بولتی ہے۔ زبانیں مختلف ہیں، مگر درد ایک ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم پہاڑ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
اصل سوال ماحولیات کا نہیں، ریاستی ترجیحات کا ہے۔ ریاست ہر جگہ یہ فیصلہ اوپر سے مسلط کرتی ہے کہ زمین کا حق سرمایہ دار کا ہے، مقامی انسان کا نہیں۔ اور جب کوئی اس فیصلے سے اختلاف کرے تو اسے ترقی دشمن، ضدی یا غیر حقیقت پسند قرار دے دیا جاتا ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اروالی ٹوٹا تو صحرا بڑھے گا،
اگر کارونجھر کٹا تو سندھ اپنی روح کھو دے گا، اور اگر کھیرتھر روند دیا گیا تو کراچی اور اس کے گرد و نواح ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر ہوں گے۔
اس لیے سیو اروالی، سیو کارونجھر اور سیو کھیرتھر تین الگ تحریکیں نہیں، بلکہ ایک ہی جدوجہد کے تین محاذ ہیں، یہ جدوجہد ماحولیاتی انصاف کی ہے، یہ مقامی اختیار کی جنگ ہے، یہ اس حق کی لڑائی ہے کہ انسان اپنی زمین پر محض زندہ نہ رہے، بلکہ باعزت زندگی گزار سکے۔ یہ لڑائی پہاڑوں کی ہے، مگر اصل میں یہ مستقبل کی لڑائی ہے۔
مگر اس پورے صورتحال میں ردعمل اور مزاحمت کے رنگ الگ ہیں، دو ممالک میں ہونے والے ان ایک جیسے سرکاری نام نہاد ترقی کے بیانیہ کے خلاف عومی آگہی اور عوامی جہدوجہد ایک جیسی نہیں۔
جب کسی سماج میں پہاڑ کٹنے لگیں اور لوگ خاموش رہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں صرف ماحول نہیں، ضمیر بھی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ آج اروالی، کارونجھر اور کھیرتھر کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ریاستی پالیسی کا مسئلہ نہیں، یہ عوامی ردِعمل، یا اس کی عدم موجودگی، کا بھی سوال ہے۔
ہندوستان میں اروالی کو بچانے کے لیے لوگ سڑکوں پر ہیں۔ عدالتوں میں آواز ہے، میڈیا میں بحث ہے، سول سوسائٹی متحرک ہے۔ سندھ میں کارونجھر کے لیے عوام نے بھی آواز اٹھائی، اگرچہ محدود وسائل، کمزور میڈیا اور ریاستی دباؤ کے باوجود، مگر آواز ضرور تھی۔
لیکن کھیرتھر؟
کھیرتھر کے معاملے میں ایک گہری، خوفناک خاموشی مسلط ہے۔ مگر یہ خاموشی فطری نہیں، پیدا کی گئی ہے۔
اروالی ایک پہاڑی سلسلہ ضرور ہے، مگر وہ اس خطے کے لیے ایک حفاظتی دیوار ہے۔ یہ تھر کے ریگستان کو پھیلنے سے روکتا ہے، پانی کو زمین میں محفوظ رکھتا ہے اور موسمی توازن برقرار رکھتا ہے۔ اسی لیے جب اسے قانونی چالاکیوں کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، تو عوامی مزاحمت سامنے آئی۔ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ پہاڑ کی نئی تعریف کیوں؟ سو میٹر سے کم اونچائی والا پہاڑ اچانک پہاڑ کیوں نہیں رہا؟ یہ سوال صرف ماحولیات کا نہیں تھا، یہ ریاستی نیت پر سوال تھا۔
کارونجھر میں بھی یہی نیت کارفرما تھی۔ وہاں پہاڑ کو ثقافت، تاریخ اور روحانیت سے الگ کر کے صرف ”گرینائٹ“ بنا دیا گیا، مگر اس کے باوجود، تھر کے لوگوں نے کہا کہ یہ پہاڑ ان کی پہچان ہے۔ کارونجھر کی مزاحمت میں لوک گیت بھی تھے، دعائیں بھی، عورتوں کی خاموش مزاحمت بھی، اور سڑکوں پر احتجاج بھی۔ ریاست نے اسے سنا یا نہیں، یہ الگ سوال ہے، مگر مزاحمت موجود تھی۔
اور پھر آتا ہے کھیرتھر۔ کھیرتھر وہ پہاڑی سلسلہ ہے جو کراچی، ملیر، کاٹھور، گڈاپ، کھار سینٹر، جامشورو، تھانہ بولا خان، تھانہ احمد خان، ٹِکو باران سے لے کر دادو، قمبر شہداد کوٹ تک سندھ کے لیے قدرتی ڈھال ہے۔ یہ چراگاہ ہے، آبی نظام ہے، جنگلی حیات کی آخری پناہ گاہ ہے۔ اور مقامی آبادی کا معاشی محاذ ہے۔
لیکن یہاں پہاڑ کو توڑنے سے پہلے لوگوں کو توڑا گیا۔ زمین کو ”سرکاری“ کہہ کر وارث کو غیر متعلق بنا دیا گیا۔ ریتی بجری مائینگ، جنگلی حیاتیات کا غیرقانونی شکار، ایکسپریس وے اور ہاؤسنگ اسکیموں کو ترقی کہہ کر پیش کیا گیا۔۔ اور جو بولے، انہیں خاموش کرا دیا گیا۔ یہاں نہ وہ میڈیا ہے جو اروالی کی طرح آواز اٹھائے، نہ وہ سول سوسائٹی جو کارونجھر کی طرح اسے قومی مسئلہ بنائے، نہ وہ عدالتی سرگرمی جو اس تباہی کو روکے۔
یہ خاموشی محض لاپرواہی نہیں، سیاسی مجبوری ہے۔ یہ وہ خاموشی ہے جو طاقت کے سامنے اختیار کی جاتی ہے، اور یہی خاموشی پہاڑوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔
ریاست ہر جگہ ایک ہی زبان بولتی ہے ”یہ علاقہ پسماندہ ہے، ترقی ضروری ہے۔“ مگر سوال یہ ہے کہ ترقی آخر کس کے لیے؟ اروالی میں ترقی کان کنی اور رئیل اسٹیٹ کے لیے ہے۔ کارونجھر میں ترقی پتھر کی تجارت کے لیے ہے۔ کھیرتھر میں ترقی زمین کی نیلامی کے لیے ہے۔ یہ ترقی مقامی انسان کے لیے نہیں، بلکہ سرمایہ کے بہاؤ کے لیے ہے۔ اور جب ترقی کا یہ ماڈل آئے تو پہاڑ، درخت، پانی اور انسان سب قربانی بن جاتے ہیں۔
اے آئی اے کی رپورٹیں ہر جگہ موجود ہیں، مگر ان میں زندگی غائب ہے۔ چرواہے، کسان، عورتیں، ماہی گیر سب کاغذی مشق سے باہر رکھے گئے ہیں۔ یہ رپورٹس ماحولیات کے نام پر ریاستی فیصلوں کو جواز فراہم کرتی ہیں، انصاف نہیں۔
اصل فرق اروالی، کارونجھر اور کھیرتھر میں یہ نہیں کہ خطرہ کہاں زیادہ ہے، اصل فرق یہ ہے کہ کہاں مزاحمت دکھائی دیتی ہے اور کہاں خاموشی مسلط ہے۔۔ اور یہ ماننا ہوگا کہ خاموشی بھی ایک جرم ہے۔ جب کھیرتھر پر بات نہیں ہوتی، تو یہ محض پہاڑ کی شکست نہیں، یہ سماج کی شکست ہوتی ہے۔
اروالی بچاؤ، کارونجھر بچاؤ اور کھیرتھر بچاؤ تین الگ نعرے نہیں۔ یہ ایک ہی جدوجہد کے تین نام ہیں۔ ماحولیاتی انصاف کی جدوجہد، مقامی اختیار کی جدوجہد اور اس حق کی جدوجہد کہ زمین کو صرف نقشے اور فائل میں نہیں، زندگی میں بھی جگہ دی جائے۔
اگر اروالی بچانے کے لیے عوام اٹھ سکتے ہیں، اگر کارونجھر کے لیے تھر بول سکتا ہے، تو کھیرتھر کے لیے خاموشی کیوں؟




