انسانوں کے بعد اب روبوٹس بھی بے روزگار ہونے لگے۔۔

ویب ڈیسک

اب تک تو ہم نے یہی خبریں پڑھی ہیں کہ جب کوئی کمپنی مالی بحران کا شکار ہوتی ہے تو مالکان سب سے پہلے ملازمین کو برطرف کرتے ہیں تاکہ مالی خسارے کو کم کیا جاسکے لیکن حال ہی میں گوگل نے کمپنی میں کام کرنے والے روبوٹس کو نوکری سے فارغ کر دیا ہے

تفصیلات کے مطابق امریکی میگزین وائرڈ کی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوگل کی مالک کمپنی الفابیٹ نے پچھلے مہینے ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا تھا اور اب بجٹ میں کمی کی وجہ سے ایک سو کے قریب ایسے روبوٹس کو نوکری سے برطرف کردیا ہے، جو روزمرہ کے چھوٹے موٹے کام کرتے تھے

یہ روبوٹ صفائی کرنے کے ساتھ ساتھ کووڈ-19 کے دوران کانفرنس روم کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ جبکہ انہیں مختلف قسم کی تدریسی تکنیک کی مدد سے دروازے کھولنے کی تربیت بھی دی گئی تھی

یہ روبوٹس جنہیں بنیادی طور پر گوگل کے ہیڈ کوارٹر میں رکھا گیا تھا، اے آئی ٹیکنالوجی چیٹ جی پی ٹی میں استعمال ہونے والی زبان کو بھی سمجھ سکتے ہیں، یہ روبوٹس ملازمین سے ناشتے کا آرڈر بھی لیتے ہیں۔

روبوٹکس کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہر روبوٹ کی قیمت دس ہزار ڈالر سے زائد ہے

بہرحال الفابیٹ کی برطرفی نے نہ صرف گوگلرز بلکہ ایک سو عجیب و غریب روبوٹس کے شاندار کیریئر کا اچانک خاتمہ کر دیا ہے، جو وہاں میں کام کرتے تھے

6.1 بلین ڈالر کے نقصان کے ساتھ 2022 کے غیر معمولی ہونے کے بعد، گوگل نے پہلے ہی ملازمین کے لیے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر درجہ بندی کے ساتھ پیچ کو سخت کر دیا تھا

آخری دو سہ ماہی ٹیک سیکٹر میں خون کی ہولی رہی ہے، جس میں زیادہ تر بگ ٹیک نے اپنے ہیڈ کاؤنٹ کو ختم کر دیا ہے۔ ڈومینو کا آغاز ایلون مسک کے ٹویٹر کے حصول سے ہوا۔ کچھ وقت کے لیے ٹویٹر کے نئے مالک کو نومبر اور دسمبر کے دوران ٹویٹر میں بڑے پیمانے پر برطرفی اور ملازمین کے اخراج کے لیے طعنہ دیا گیا۔ لیکن پھر ان لی دیکھا دیکھی دیگر کمپنیوں جیسے میٹا، مائیکروسافٹ، ایپل، اور گوگل نے جلد ہی ان کی پیروی کی

اور آپ نے سوچا تھا کہ صرف انسان ہی نوکری سے نکالے جاتے ہیں، ہے نا؟ لیکن اب جدید دور میں انسانی نوکریوں کے لیے خطرہ بنے روبوٹس کو بھی نوکریوں سے بے دخلی کا سامنا ہے

یوں نوکری سے برطرفی انسانی وسائل اور بوٹ وسائل دونوں کے لیے ہے۔ لیکن روبوٹ کے معاملے میں سچھی بات یہ ہے کہ مشینوں میں کوئی احساسات نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے بال بچے ہوتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close