جہانگیر ترین اس وقت دوبارہ سے میڈیا کی زینت ہیں لیکن اب جو ان کے بیانات آرہے ہیں، ان میں چھپی ہوئی وارننگ صاف سنی جاسکتی ہے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ وزیراعظم کے کون سے ارسطو اور سقراط مشیران ہیں جو انہیں بارود سے کھیلنے کا مشورہ دیتے ہیں اور پھر دور بیٹھ کر صورتحال کو انجوائے کرتے ہیں؟
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے ٹھیک کہا ہے کہ ترین صاحب کی ایک جیب میں وفاقی حکومت ہے اور دوسری جیب میں پنجاب حکومت ہے اور یہ جب چاہیں اُس دن حکومت کو لپیٹ سکتے ہیں۔ ترین صاحب کا یہ بیان تو اخبارات کی زینت بھی بنا ہے کہ میں تو دوست ہوں، مجھے کیوں دشمنی کی جانب دھکیل رہے ہو؟ یہ بیان محض بیان نہیں تھا، یہ ایک وارننگ تھی کہ کیا آپ لوگوں میں مجھ سے لڑنے کا حوصلہ ہے؟ ابھی تک تو میں نے کوئی جوابی چال نہیں چلی ہے اور سب کچھ برداشت ہی کررہا ہوں۔ تحریک انصاف کے فیصلہ سازوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جہانگیر ترین سے لڑائی کس قدر مہنگی پڑسکتی ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیاست میں کسی بھی ایشو کو نو ریٹرن کی جانب لے کر نہیں جانا چاہیے۔
2018ع کے انتخابات سے پہلے جب معاملات سیٹ کیے جارہے تھے تو تخت پنجاب کی ایک جنگ تھی۔ یہ جنگ تین افراد میں تھی، جس میں سے ایک جہانگیر ترین نااہل ہوچکے ہیں، دوسرے اس وقت وفاقی وزیر ہیں اور تیسرے فریق کے سر پر بھی نااہلی اور گرفتاری کی تلوار ہے۔ جبکہ پنجاب کا تاج اس وقت عثمان بزدار کے سر پر ہے، جن کے نام سے واقفیت اُن کے بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھانے کے بعد ہوئی تھی۔
جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کو مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے میں ریڑھ کی ہڈی جیسا کردار ادا کیا ہے۔ انتخابات میں جب نتائج آئے تو نمبر گیم میں تحریک انصاف کمزور تھی۔ اس کے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں تھی بلکہ اگر جوڑ توڑ سے حکومت بنتی بھی تھی، تب بھی پی ٹی آئی کو ڈرائیونگ سیٹ ملتی نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جہانگیر ترین نے تسلیم کیا کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ کامیاب آزاد امیدواران کو پی ٹی آئی میں شامل کیا جائے۔ موقع پر انہوں نے اپنے جہاز کو کپڑا مارا اور پنجاب بھر کا سفر کیا۔ انہوں نے ہی آزاد امیدواروں سے معاملات طے کیے اور ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کروا کر پنجاب اور مرکز میں حکومت بنوائی۔ آج وہی جہانگیر ترین اپنی ہی تحریک انصاف سے ’’انصاف‘‘ مانگتے پھر رہے ہیں۔
حالیہ مقدمے کی سماعت میں جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تو ان کے ساتھ 11 ایم پی ایز اور 3 ایم این ایز موجود تھے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کے حامی ممبران پارلیمنٹ کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ ’ترین پارٹی‘ کی جانب سے پہلا پتہ دکھایا گیا ہے جس کے پیچھے پیغام وہی ہے کہ اگر ان کی ذات کو ہدف بنائے رکھا گیا تو بیلنس آف پاور کسی بھی وقت خراب ہوسکتا ہے۔
جہانگیر ترین تحریک انصاف کے لیے اتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ کسی بھی ذی روح کےلیے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ عام انتخابات کے بعد ترین صاحب نے فون کیا ہوگا اور یہ سارے الیکٹ ایبلز آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہوں گے؟ نہیں، ایسا بالکل نہیں ہوا۔ اس اہم موقع پر ترین صاحب نے اپنے نیٹ ورک کو استعمال کیا تھا، ان سے معاملات طے کیے تھے، ان کی ڈیلز فائنل کروائی تھیں۔ اس سارے عمل میں اپنی جیب سے انہوں نے بے تحاشا پیسہ خرچ کیا اور اس کے بعد اِن کو پی ٹی آئی میں شامل کروایا تھا۔ ترین صاحب کے جہاز میں کون کون سفر کرتا رہا، اس میں کیا گفتگو ہوتی رہی، ان کی ایس یو ویز میں کون کہاں جاتا رہا، ان کے ہیلی کاپٹر میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ جہانگیر ترین کے پاس نہ صرف تمام ثبوت ہوں گے بلکہ وہ بہت سے معاملات کے عینی شاہد اور گواہ بھی ہوں گے۔ ان کی خان صاحب کے انتہائی قربت اور پارٹی میں اہمیت کی گواہی تو ریحام خان کی کتاب بھی دیتی ہے۔ لہٰذا، ترین صاحب کے پاس تو تمام تر ریکارڈز اینڈ ڈیٹا موجود ہے اور وہ جب چاہیں گے، اس کا ’درست‘ استعمال کرلیں گے۔
ایک نامور اور باخبر صحافی نے تو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ جہانگیر ترین کوئی کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔ اگر یہ خبر درست ہے تو یہ عمران خان اور تحریک انصاف کےلیے پریشانی کا باعث ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جہانگیر ترین اس وقت پی ٹی آئی سے شدید ناراض ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں جان بوجھ کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی لڑائی پی ٹی آئی کے ہی دوسرے رہنماؤں کے ساتھ ہے، لیکن خاں صاحب اس لڑائی کو محض تماشائی کی طرح سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس لڑائی کو ان کی ذات تک رہنا چاہیے تھا لیکن اس میں ان کے بیٹے، داماد اور گھر کی خواتین کو شامل کرکے، ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انتہائی زیادتی کی گئی ہے اور اب یہ لڑائی اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے کہ جب گھر کی خواتین تک کو سیاسی لڑائیوں بھی انتقام کی خاطر شامل کرلیا جائے تو پھر لڑائیاں کہاں ختم ہوتی ہیں۔ جہانگیر ترین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ احتساب ہے تو پھر باقی سب کا بھی احتساب اسی طرح سے ہونا چاہیے جس طرح سے ان کا احتساب کیا جارہا ہے۔
جہانگیر ترین اس وقت نااہل ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ اگر کل کو کسی سیٹ اپ میں نواز شریف سیاست کےلیے اہل قرار دے دیے جاتے ہیں تو جہانگیر ترین بھی سیاست کے اہل قرار پائیں گے۔ تاہم، یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس نااہلی کے باوجود بھی ان کے پاس ایسی کیا آفر ہے کہ 11 ایم پی ایز اور 3 ایم این ایز ان کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ سیاسی معاملات تو ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، لہٰذا یہ اراکین صرف جہانگیر ترین کی محبت میں تو نہیں گئے تھے۔
میں نے اس سے قبل بھی عرض کیا تھا کہ ن لیگ اور ق لیگ کی بیک ڈور ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ پی ڈی ایم مرکز اور سینیٹ ہلانے میں ناکام رہی اور اس کے حصے بخیے ہوگئے۔ عثمان بزادر کی کارکردگی کی وجہ سے اب مقتدر حلقے بھی پریشان ہیں۔ وہ ان کی جگہ کسی اور کو لانا چاہتے ہیں لیکن خان صاحب اس بات کےلیے تیار نہیں ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی 181 سیٹیں ہیں، ق لیگ کی 10، سپاہ صحابہ کی 1 اور آزاد 4 امیدواران سمیت 192 کے ساتھ پی ٹی آئی پنجاب میں اقتدار میں ہے۔ دوسری جانب ن لیگ کی 165 اور پیپلز پارٹی کی 7 سیٹیں ہیں۔ یہ نمبر گیم بدلنا کتنا مشکل ہے؟ کیا جہانگیر ترین کو آزاد امیدواران سے معاملات طے کرنے کا تجربہ نہیں ہے؟ اب اگر جہانگیر ترین موجودہ سیاسی صورتحال سے مایوس ہوکر ق لیگ سے معاملات طے کرلیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ق لیگ اور اپوزیشن مل کر پنجاب کا تخت الٹ دیتے ہیں تو صورتحال کیا ہوگی؟ یہ پاکستان کی سیاست ہے، جس میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہے اور کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز