حکومت نے ڈاکٹروں کودوائی کا نام لکھنے کی بجائے فارمولا لکھنے کی ہدایت کر دی گئی
مہنگائی کے ان حالات میں اگر عوام کی سب سے زیادہ دہائی سننے کو ملتی ہے تو وہ ادویات کی قیمتیں ہیں کہ اگر کسی کے گھر میں ایک بھی شخص بیمار ہے تو اسے اپنا گھر بیچ کر ہی اس کی صحت کی بہتری کے لیے ادویات لانا پڑتی ہیں
فارماسيوٹیکل مافیا نے حکمران طبقہ کو اپنے جادو میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ آج تک کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات پر عمل درآمد نہیں ہو سکا
سیاستدان تو الگ رہ گئے ڈاکٹرز حضرات نے بھی رہی سہی کسر پوری کر رکھی ہے اور انہوں نے بھی اپنے تعلق اور لین دین والی ادویہ ساز کمپنیوں کی دوائیاں لکھ لکھ کر غریب عوام کی جیبوں کو خالی کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے
مگر اب حکومت جاگ اٹھی ہے اور ڈریپ نے ڈاکٹرز حضرات کو دوائی کا نام لکھنے کی بجائے فارمولا لکھنے کی تلقین کر دی ہے
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے صوبوں کے محکمہ صحت کو ہدایت کی ہے کہ ڈاکٹر اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ادویات کے برانڈ کے ناموں کے بجائے کیمیائی نام تجویز کریں
رپورٹ کے مطابق ڈریپ کے ایک خط میں ملک بھر کے محکمہ صحت کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں جس میں شہریوں نے سرکاری اور نجی شعبے میں ڈاکٹروں کی جانب سے کمپنی سے اثر انداز ہوکر ادویات کے برانڈ پر مبنی نسخوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے
انہوں نے کہا کہ اس طرز عمل سے ملک کے معاشی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور مہنگے برانڈز کی وجہ سے مریضوں پر مالی بوجھ بھی پڑتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل میڈیکل اور ڈینٹل پریکٹیشنرز کے ضابطہ اخلاق کے بھی خلاف ہے
اتھارٹی نے مزید کہا کہ "لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے کیمائی ناموں پر مشتمل نسخوں کو فروغ دینے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور مریضوں اور ملک کے مفاد میں برانڈ کے نام کے نسخے کے عمل کی حوصلہ شکنی کریں”
واضح رہے کہ ایک ہی فارمولے کی ادویات اصل قیمت سے 10 گنا زیادہ قیمتوں پر فروخت کی جارہی ہیں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے تو اپنے نوٹیفکیشن نکال کر اپنا فرض پورا کر لیا لیکن کیا وہ اس عمل کو روکنے کے لیے اور ڈاکٹروں اور فارماسيوٹیکل مافیا کے گٹھ جوڑ کا قلع کرنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی بھی بنائی جائے گی یا پھر ماضی کی طرح اس نوٹیفکیشن کی حیثیت بھی محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہونے تک ہی محدود رہے گی.