ڈالر کی اڑان جاری، 194 روپے کی سطح عبور کر گیا، اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی

ویب ڈیسک

ملک میں ایک طرف جہاں اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے بادل چھائے ہوئے ہیں وہیں، ڈالر بھی اڑان بھرتے ہوئے 194 روپے کی سطح عبور کر گیا ہے، کاروباری ہفتے کے آغاز پر 100 انڈیکس میں ایک ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی

تفصیلات کے مطابق پی ایس ایکس کی ویب سائٹ کے مطابق کاروبار کے آغاز پر 100 انڈیکس 43 ہزار 486.46 پوائنٹس پر تھا، تاہم جلد ہی 806.95 پوائنٹ کی کمی دیکھی گئی، 10 بجے انڈیکس ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی کے بعد 42 ہزار 424.48 پر آگیا، 100 انڈیکس میں 2.44 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی

واضح رہے یہ کمی اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ روز وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ’فی الحال‘ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کر رہی ہے، تاہم یہ قرض کے پروگرام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز آئی ایم ایف کی جانب سے رکھی گئی اہم پیشگی شرط تھی

وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ’ میں نے انہیں تجویز دی ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کریں‘

تاہم انہوں نے زور دیا کہ مستقبل میں بین الاقوامی قیمتوں کے پیشِ نظر کبھی بھی پیٹرول کی قیمت کو ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے

دوسری طرف عارف حبیب گروپ کے چیئرمین نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کو مارکیٹ میں مختصر دورانیے کے لیے استحکام لانے کے لیے مشکل فیصلہ کرنا ہوگا

ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی فوری بحالی کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کا عمل مشکل ہوجائے گا

عارف حبیب کا کہنا ہے کہ ’اسٹاک مارکیٹ ان حالات میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے‘

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ مندی کی وجہ اقتصادی معاملات پر حکومتی فیصلوں میں تاخیر ہے

دریں اثنا، فرسٹ نیشنل ایکویٹیز کے سی ای او علی ملک نے زور دیا کہ مالیاتی اداروں کو اسٹاک مارکیٹ سے تعاون کرنا چاہیے تھا

ان کا کہنا تھا ’23 مئی کو پیش کی جانے والی مانیٹرنگ پالیسی مارکیٹ کے لیے اہم ہوگی، اطلاعات کے مطابق مانیٹری پالیسی میں شرح سود 2 تک فیصد بڑھتے کا امکان ہے، اگر ایسا ہوا تو اسٹاک مارکیٹ مین مندی قائم رہے گی‘

نئی مخلوط حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشتہ کئی ہفتوں سے پی ایس ایکس اور روپیہ دونوں ہی دباؤ کا شکار ہیں، حکومت اقتصادی فیصلے لینے میں ناکام ہے

تجزیہ کاروں اور ماہرین نے اس دباؤ کو آئی ایم ایف کے قرض کے پروگرام سے منسلک کیا ہے جبکہ تیل کے درآمدی بلوں میں اضافے نے بھی تجارتی خسارہ وسیع کردیا ہے

قبل ازیں کاروباری روز کے آغاز میں انٹر بینک میں ڈالر 193 روپے سے زائد میں فروخت ہورہا تھا

خیال رہے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں یہ نئی بلندی ہے، جس نے اس سے پہلے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں

دوسری جانب گزشتہ ہفتے پی ایس ایکس میں ایک ہزار 447.67 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی تھی جسے ’بلڈ باتھ‘ قرار دیا گیا تھا

تاہم اسٹاک مارکیٹ میں ہفتے بھر یہ ہی حالات برقرار رہے تھے جبکہ کاروباری ہفتے کے دوران بینچ مارک انڈیکس 35.29 پوائنٹس یا 0.08 فیصد کمی پر بند ہوا تھا

دریں اثنا روپے کے مقابلے امریکی ڈالر نئی بلندیاں سر کرنے میں مصروف ہے، کاروباری ہفتے کے آغاز پر ہی ڈالر 194 روپے ہوگیا، تجزیہ کاروں نے ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل پر تشویش کا اظہار کیا ہے

واضح رہے کہ جب گزشتہ ماہ11 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالا تو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 182.3 روپے تھی، تب سے روپیہ 11 روپے 40 پیسے یا 6.2 فیصد قدر کھوچکا ہے

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق ڈالر نے جمعے کو کاروبار کے اختتام کے مقابلے ایک روپے 30 پیسے کی بلندی حاصل کی ہے

کاروباری ہفتے کے پہلے روز انٹرویل سے قبل ڈالر 194روپے 30 پیسے میں فروخت ہوتا رہا

یہ پیش رفت روپے کی قدر میں تاریخی کمی کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی، جس کی وجہ ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل ہیں

فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان کی جانب سے جاری کردہ گزشتہ ہفتے کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلسل پانچ روز سے روپے کے مقابلے ڈالر تیزی سے بڑھ رہا ہے

ایف اے پی کے مطابق گزشتہ منگل تک انٹر بینک میں بین الاقوامی کرنسی 188 روپے 66 پیسے تھی، جس کے بعد بدھ کو 190 روپے 90 پیسے پر پہنچی، جمعرات کو ڈالر نے 192 روپے کا ہندسہ عبور کیا اور کاروباری ہفتے کے اختتامی روز ڈالر 193 روپے 10 پیسے پر بند ہوا

تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کاروباری ہفتے کے آغاز میں ڈالر 192 روپے 53 پیسے پر بند ہوا تھا

خیال رہے یکم جولائی 2021 کو شروع ہونے والے رواں مالی سال کے بعد سے ڈالر کی قدر میں 18 روپے 17 پیسے اضافہ ہوا ہے

روپے کی قدر میں کمی کی ایک وجہ درآمدی بلوں میں بے قابو اضافہ ہے جو کم برآمدات سے منسلک ہے، جو کہ تجارتی خسارے کی عکاسی کرتا ہے، جولائی سے اپریل کے دوران ملک کا تجارتی خسارہ انتالیس ارب ڈالر پر جا پہنجا ہے

علاوہ ازیں جون 2020 کے بعد مرکزی بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر دس ارب تیس کروڑ ڈالر پر جا پہنچے ہیں، درآمدات کسی ملک کی غیر ملکی خریداری کی ادائیگیوں کی صلاحیت ظاہر کرتے ہیں جو چند مہینوں میں 1.54 فیصد کم ہوچکے ہیں

کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب کرنسی مارکیٹ میں روپے کی قدر میں کمی کی اہم وجہ ہے، دوسری جانب حکومت کی جانب سے ایندھن اور توانائی میں سبسڈی کی فراہمی اور آئی ایم ایف کے قرض پروگرام میں تاخیر بھی روپے کی قدر میں کمی کا سبب بن رہے ہیں

ایف اے پی کے چیئر پرسن ملک بوستان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ’غیر بنیادی درآمدات روکنے اور برآمد کنندگان کو برآمد کے ذریعے ریونیو حاصل کرنے کا پابند کرنے کی ضرورت ہے‘

انہوں نے کہا کہ یہ کرنے سے ڈالر کی قدر میں 180 روپے تک کمی بھی آسکتی ہے

دریں اثنا ایکس چینج کمپنیز آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی بحالی تک روپے کی قدر پر دباؤ برقرار رہ سکتا ہے

انہوں نے حکومت اور ایس بی پی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ غیر ضروری چیزوں کی درآمدات پر پابندی عائد کرتے ہوئے نعم البدل ایندھن کی فروغ کے اقدامات اٹھائیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close