ایشیائی مون سون کی شدت اب ایک سال پہلے ہی معلوم کرنا ممکن

نیوز ڈیسک

ہر گزرتے سال پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں مون سون کی بارشیں شدید ہوتی جا رہی ہیں، بلکہ کچھ روز قبل ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسم پر اس کے اثرات کے حوالے سے پوٹسڈیم ادارہ تحقیق برائے موسمیاتی اثرات (پی آئی کے) کے ایک حالیہ مطالعے میں کہا گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ نے خطے کی مون سون بارشوں کو ناقابل پیش گوئی کی حد تک تبدیل کر دیا ہے

لیکن کہا جا رہا ہے کہ اب ایک نئے ماڈل کی بدولت بالخصوص ایشیائی مون سون کی شدت ایک سال قبل معلوم کرتے ہوئے بہت حد تک اس کی درست پیشگوئی کی جاسکتی ہے

یہ ماڈل ایشیائی موسمِ گرما کے مون سون اور ممکنہ سائیکلون کی قابلِ اعتبار پیشگوئی بھی کرسکتا ہے اور وہ بھی بارہ مہینے قبل اس سے آگاہ کرسکتا ہے۔ اس دوران عوام اور حکومتوں کو تباہ کن موسموں کی تیاری کا مناسب وقت مل سکے گا

جاپان کے محکمہ موسمیات سے وابستہ یوہائی تاکایا اور ان کے ساتھیوں نے آب و ہوا کی پیشگوئی کرنے والا ایک بالکل نیا ماڈل بنایا ہے جس میں تاریخی اور تازہ ترین موسمیاتی اعداد و شمار، اس سے وابستہ ڈیٹا کے ساتھ ساتھ بحر و بر میں درجۂ حرارت کی تبدیلی اور دیگر فضائی کیفیاتی اتارچڑھاؤ کا احوال بھی شامل ہے

اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ماڈل بتاسکتا ہے کہ کب اور کیسے ایل نینو سدرن آسیلیشن رونما ہوگا اور کس شدت کا ہوگا؟

یوہائی کا کہنا ہے کہ ایل نینو کے عمل میں بحرِ ہند خزاں سے سردیوں تک گرم رہتا ہے اور اگلی گرمیوں تک یہی کیفیت برقرار رہے گی

اس طرح بحرِ ہند کی گرمی ایشیا کے مون سون پر غیرمعمولی طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس ماڈل میں 1980ع سے 2016ع کے درمیان بھی سمندر اور موسمیاتی ڈیٹا جمع کر کے شامل کیا گیا ہے۔ ایک سال کا ڈیٹا شامل کرنے کے بعد ماڈل بتاتا ہے کہ اگلے برس مون سون کا برساتی موسم کیسا گزرے گا

علاوہ ازیں ماڈل سمندری درجہ حرارت، علاقائی بارش اور ویسٹرن نارتھ پیسیفک مون سون جیسی کیفیات کی پیش بینی بھی ممکن ہے

کلائمٹ ماڈل میں پیشگوئی شدہ اور حقیقی مون سون کی ویلیو اگر ایک ہے تو یہ درست ترین پیشگوئی ہوگی

اس ماڈل سے جب جنوب مشرتی ایشیا کے درجۂ حرارت کی پیشگوئی کی گئی، تو اس کا اسکور 0.75 تھا۔ دوسری جانب جدید ترین موسمیاتی ماڈل بھی صرف چھ ماہ کی پیشگوئی کرسکتے ہیں تاہم یہ ماڈل ایک سال پہلے ہی بتاسکتا ہے کہ موسم کا مزاج کیسا ہوگا؟

پروفیسر یوہائی تاکایا کہتے ہیں کہ ایشیائی ممالک میں گرمیوں کی لہر نے بہت تباہی مچائی ہے اور اگر ہم ان کی پیشگوئی پہلے کرسکیں تو بہت سی جانوں کو بچانا ممکن ہوسکے گا اور مالی نقصان سے بھی بچنا ممکن ہوگا

پاکستان میں 2010ع کی غضب ناک بارشوں اور سیلاب کے غم اب بھی تازہ ہیں۔ اس واقعے میں ہزاروں افراد لقمۂ اجل بنے اور ملک کا چالیس فیصد رقبہ کئی روز پانی میں ڈوبا رہا تھا۔ کسی ماڈل سے ایک سال قبل موسمیاتی شدت کا اندازہ لگانا ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کے حوالے سے یقیناً معاون ثابت ہوگا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close