امریکی محققین نے ایک تحقیق میں معلوم کیا ہے کہ چھٹی حِس دماغ کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے اور خطرے کے وقت متحرک ہو جاتی ہے
اگرچہ چھٹی حس کے بارے میں ابھی تک کوئی تحقیق اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی، تاہم ایک حالیہ ریسرچ اسٹڈی سے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چھٹی حِس خاص طور پر دماغ کے اندورنی حصے میں موجود ہوتی ہے
مذکورہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انسان کو لاحق خطرہ دماغ کے اس حصے میں موجود حس کو متحرک کرتا ہے، اور ایسے احساسات مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں
چھٹی حس دراصل پانچ حواس سے ہٹ کر واقعات کو دور سے سمجھنے کی صلاحیت ہے، یہ حس ہمیں بعض جذبات سے متعلق بھی معلومات فراہم کرتی ہے اور خبردار کرتی ہے
محققین نے چھٹی حس کی کئی اقسام بتائی ہیں، مثلاً کوئی واقعہ ہونے سے پہلے پیش گوئی کرنا، یا خیالات کو پڑھنا چھٹی حس کی اعلیٰ ترین سطح میں سے ایک ہے
واضح رہے کہ چھٹی حس کے بارے میں یہ حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ لوگوں میں چھٹی حس ایک دوسرے سے کتنی مختلف ہوتی ہے، عموماً لوگ اسے ایک اضافی حس سمجھتے ہیں جو انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رد عمل کے لیے تیار رہا جائے
چھٹی حس میں بہتری لائے جانے کے متعلق ماہرین
مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے لیے کسی چیز کا تجزیہ محض اپنی اندرونی جبلت سے کرنے کی مشق کرنی چاہیے، یعنی اس چیز کا عقلی تجزیہ نہ کریں، اس سے اندرونی جبلت کا شعور تیز ہوگا
دوسرا یہ کہ اپنے خوابوں کو یاد رکھنے کی کوشش کریں، کیوں کہ خواب وہ خیالات اور احساسات ہیں جو آپ کے لا شعور میں پوشیدہ ہیں
ماہرین یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ کسی کاغذ کا خالی ٹکڑا لیں اور کوئی بھی سوچ جو آپ کے دماغ میں گھوم رہی ہے اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے لکھ لیں، لکھنے سے آپ کا لا شعوری ذہن مضبوط ہوگا
اپنے اردگرد کے لوگوں اور بے جان اشیا کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر توجہ دینا سیکھیں تاکہ آپ کو باریک چیزیں سمجھنے میں آسانی ہو
اور جب آپ کسی سے بات کر رہے ہوں تو پوری توجہ مرکوز کریں، اور اس کی تبدیلیوں اور موڈ کو دیکھیں.