لوگ مرنے کے بعد دفنائے جاتے ہیں، ہم زندہ دفن ہو گئے۔۔ 69 روز تک ’زندہ دفن‘ رہنے والے چِلی کے 33 مزدوروں پر کیا بیتی؟

ویب ڈیسک

”لوگ مرنے کے بعد دفنائے جاتے ہیں مگر ہم زندہ دفن ہو گئے ہیں اور اب موت کا انتظار کرنا ہے۔“ یہ الفاظ اس دھماکے اور پھر مچنے والے شوروغوغا، چیخوں، کھانسنے اور کان پھاڑتی ’ہیلپ‘ کی آوازوں کے تھمنے کے تھوڑی دیر بعد ابھرے، تو سننے والوں کو اندازہ ہوا کہ وہ فورمین لوئس ارزوا کی آواز ہے، جس کے فوراً بعد ہی وہی آواز دوبارہ ابھری۔۔ وہ کہہ رہے تھے ”لیکن ضروری نہیں ایسا ہو۔۔“

شاید انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مایوسی کی بات کر گئے ہیں۔۔

لیکن حالات اس حد تک خطرناک تھے کہ امید بھی ماند پڑ گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی ایک اور کان کن نے لرزتی آواز میں کہا ”لگتا ہے میں اپنے بچے سے ملے بغیر ہی دنیا سے چلا جاؤں گا، کیونکہ اس کے (دنیا میں) آنے میں ابھی چند دن باقی ہیں“

لیکن امید ہی تو ہے، جو ہمیں زندہ رکھتی ہے۔۔ اس بات اگرچہ ایک سناٹا چھا گیا۔۔ لیکن جلد ہی ”جو مرضی ہو جائے، مرنا نہیں ہے!“ کی صدا کے ساتھ مایوسی کا یہ سناٹا ٹوٹ گیا۔ یہ ایک اور کان کن کی صدا تھی ، جو مایوسی کے اندھیرے میں امید کی روشنی بن کر جگمگائی

یہ کہانی ہے سنہ 2010 کی، جب جنوبی امریکہ کے ملک چِلی میں تینتیس کان کن مزدور ایک کان میں ڈھائی ہزار فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے تھے

اس کان میں ایسا کیا ہوا، جو کسی اناکونڈا کی طرح اپنے اندر کام کرنے والے مزدوروں کو نگل تو گئی تھی لیکن ہضم نہ کر پائی۔۔۔

وہ زندہ تھے اور زندہ رہنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا اور سب سے بڑی بات کہ کان کنوں کا کیا بنا؟ ویب سائٹ بریٹانیکا ڈاٹ کام پر اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ دی گئی ہے

یہ ایک ناقابلِ یقین واقعہ ہے، جو اگست 2010 میں پیش آیا اور 69 روز تک پھیلا۔ اس دوران چلی سمیت پوری دنیا دَم سادھے بیٹھی تھی۔ میڈیا خبروں پہ خبریں دے رہا تھا۔

ایک طرف سطحِ زمین پر کان کنوں کے خاندان والوں کی سانسیں گُھٹ رہی تھیں، جس کے ڈھائی ہزار فٹ نیچے ان کے پیارے سانس لے رہے تھے۔۔

ان کان کنوں کے لیے پریشان لوگوں میں خواتین اور بچے بھی تھے اور ملک کے صدر سیباستن پنیرا سمیت اعلٰی حکومتی حکام بھی، ان کے کپڑے اور چہرے ایک دوسرے سے الگ تھے لیکن تفکر کی لکیریں ایک سی۔۔ بلکہ کسی سوالیہ نشان سے مشابہہ تھیں

چلی کے قصبے کوپیاپو سے تقریباً اَسی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تانبے کی کان سان جوز میں دوپہر دو بجے کے قریب ایک بہت بڑی دھمک سنی گئی اور اس کے بعد پتھر اور مٹی کے بڑے بڑے تودے کان کے دہانے پر آن گرے، جبکہ کان کا بڑا حصہ بھی بیٹھ گیا، جس سے اس کا دہانہ بند ہو گیا، تاہم جس مقام پر کان کن کام کر رہے تھے، وہ نہیں گرا۔ اس وقت تینتیس کان کن اس کے اندر تھے، جن میں سے بتیس چِلین اور ایک بوویلین تھا۔

وہ سطحِ زمین سے دو ہزار چھ سو 25 (800 میٹر) نیچے پھنس چکے تھے۔۔

اگرچہ واقعے کے فوراً بعد مقامی انتظامیہ حرکت میں آ گئی، تاہم اس کے پاس وسائل کی کمی ہونے کے باعث رات گئے تک کچھ نہ ہو سکا کیونکہ کان کے دہانے پر گرنے والا ملبہ بہت زیادہ تھا اور کان کن بہت زیادہ گہرائی میں تھے، جبکہ یہ خدشہ بھی تھا کہ اندر موجود کان کنوں میں سے کچھ ہلاک بھی ہوئے ہوں گے

مقامی انتظامیہ سے حادثے کی خبر دارالحکومت میں بیٹھے حکام تک پہنچی اور ریاست کی مائننگ کمپنی کوڈیلکو کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ ریسکیو کے کام میں مقامی انتظامیہ کی مدد کرے

اس کے بعد کمپنی اپنی ہیوی مشینری کے ساتھ موقع پر پہنچی اور کھدائی کا کام شروع کر دیا

لیکن سات اگست کو اس وقت صورت حال مزید خوفناک رخ اختیار کر گئی، جب کان کا کچھ مزید حصہ بھی منہدم ہو گیا اور ہوا کے گزر کی وہ درزیں بھی بند ہو گئیں، جن کے بارے میں حکام کو امید تھی کہ ان کی بدولت مزدور سانس لے پا رہے ہوں گے

اس کے بعد کام کی نوعیت تبدیل کی گئی اور ساری توجہ اس جانب مرکوز کی گئی کہ کسی طرح سوراخ کیے جائیں تاکہ مزدوروں تک آکسیجن کی رسائی ہو سکے اور اس کے ذریعے رابطے کے آلات اندر پہنچائے جائیں

اس مقصد کے لیے کان کے نقشے نکالے گئے، جن کی مناسبت سے ڈرلنگ کی جاتی رہی، مگر نقشے پرانے ہونے اور کان کو مزید پھیلائے جانے کے باعث درست مقام کی نشاندہی نہیں رہی تھی کہ دراصل مزدور کہاں پر پھنسے ہیں

یہ بہت کٹھن شب و روز تھے لیکن گزرتے گئے اور بات پہنچی 22 اگست تک، جب ڈرلنگ کے ذریعے کچھ آلات اس ریکارڈ روم تک پہنچائے گئے، جہاں کسی بھی ہنگامی صورت میں پیغام ریکارڈ کرایا جا سکتا تھا

اس موہوم سے اور پیچیدہ ریکارڈ کو لفظی شکل دی گئی تو کچھ یوں عبارت ابھری ”ہم تینتیس افراد ہیں اور سبھی ’ٹھیک‘ ہیں“

اس کے بعد بھی یہ خدشات تھے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پیغام پہلے ریکارڈ کرایا گیا ہو اور اب تک ہلاکتیں ہو چکی ہوں، مزید تحقیقات کے لیے چھوٹی چھوٹی وڈیو ریکارڈ کرنے والی ڈیوائسز کو سوراخوں کے ذریعے کان کے مختلف حصوں میں پہنچایا گیا تاہم زیادہ تر مناظر اندھیرے کے تھے۔ صرف ایک نسبتاً دکھائی دینے والی وڈیو اور آوازوں سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ سبھی زندہ ہیں

اس سے اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی کہ وہ تقریباً ڈھائی ہزار فٹ کی گہرائی میں ہیں

ڈھائی ہزار فٹ کی گہرائی میں عجیب و غریب منظر تھا۔ سترہ روز تک کان کن گُھپ اندھیرے میں رہے اور اپنے ہیلمٹ میں لگے لائٹس کی بدولت ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے۔ جب تک وہ ایک دوسرے سے دور رہے، پریشان رہے۔۔ تاہم اکٹھے ہوئے تو حوصلہ بندھا۔ وہاں آکسیجن کی بھی کمی تھی، جس کے لیے ہال میں موجود سلینڈرز کی مدد لی گئی

وقت گزرنے کے ساتھ انہیں احساس ہوا کہ زندہ رہنے کے لیے کچھ کھانا پینا بھی ضروری ہے، اس لیے کان کے اس حصے کا جائزہ لیا گیا، جہاں مزدوروں کے لیے راشن وغیرہ رکھا جاتا تھا، وہ ایک دو یا چند روز کے لیے ہوتا تھا۔ اس لیے ملا تو سہی، لیکن بہت کم مقدار میں۔۔ یوں وہ کھاتے رہے، مگر بہت کم۔۔ اسی طرح پانی ختم ہو جانے کے بعد کان سے گزرتی نالیوں کے علاوہ ریڈی ایٹرز کا پانی نکال کر پیا جاتا رہا

اس دوران فورمین لوئس ارزوا ان کی قیادت کرتے رہے اور انہیں امید تھی کہ زمین کے اوپر کچھ نہ کچھ ہلچل تو ہوگی اور شاید مدد پہنچ جائے

لیکن اندر ایک اور مصیبت آن پڑی۔۔ آلودہ پانی اور ماحول میں بہت زیادہ نمی کی وجہ سے کئی مزدور بیمار پڑ گئے اور کم کھانے کے باعث کمزور بھی۔۔ کئی کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا شروع ہوا

لیکن بالآخر 23 اگست کو مقام کی نشاندہی ہو جانے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے نیچے کھانا وغیرہ پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ سوراخ کر کے پائپ اس مقام تک پہنچائے گئے، جہاں مزدور موجود تھے۔ پائپس کے ذریعے مائع شکل میں خوراک اور پانی کی سپلائی شروع کی گئی، جس سے زیرزمین موجود کان کنوں کو امید پیدا ہوئی کہ اوپر ان کو بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں

بعدازاں دوسرے مرحلے میں سوراخوں کو بڑا کیا گیا اور نارمل حالت میں خوراک کا سامان پہنچایا جانے لگا

دنیا بھر کا میڈیا کان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ پھنسے کان کنوں کے رشتہ دار مختلف ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے تھے۔ انتظامی مشینری کام کر رہی تھی۔ امید تو تھی، لیکن ناامیدی کے بادل بھی منڈلا رہے تھے

چلی کی حکومت کی جانب سے امریکہ کے خلائی ادارے ناسا سے رابطہ کیا گیا اور اس کی ٹیم بھی سائٹ پر پہنچی۔ اس کی جانب سے ایک کیسپول لفٹ قسم کا آلہ بھی فراہم کیا گیا، جو خلائی مشنز کے دوران استعمال کیا جاتا ہے

پھر سلسلہ شروع ہوا کان کنوں کو نکالنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ دینے کا۔۔ یہ عدالتی تاریخ نہیں تھی بلکہ وہ تھی جس کے بارے میں مختلف خیالات سامنے آتے کہ تب تک ریسکیو آپریشن مکمل ہو جائے گا، لیکن وہ گزرتی رہیں جو کہ زمین سے نیچے موجود مزدوروں اور ان کے رشتہ داروں کے لیے صدیوں سے کم نہ تھیں

چھوٹے سوراخوں کے بعد اب تین مقامات پر بڑے دہانوں کی ڈرلنگ شروع کی گئی اور دہانوں کو مزید کھلا کرنے پر بھی کام جاری رہا

اس کے لیے امریکہ اور کینیڈا کی مشہور ڈرلنگ کمپنیز سے مشینیں منگوائی گئی تھیں۔
پہلے بڑے دہانے کو پلان اے کا نام دیا گیا، جس نے 30 اگست کو کام شروع کیا

اس کے بعد پانچ ستمبر کو پلان بی پر کام شروع ہوا اور یہ سوراخ اے سے کچھ دوری پر تھا

اسی طرح پلان سی، جس کے لیے آئل ڈرل استعمال کی گئی، 19 ستمبر کو شروع کی گئی۔
اس دوران کان کنوں تک ایسی ڈیوائسز بھی کامیابی سے پہنچائی جا چکی تھیں، جن کے ذریعے وہ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کر سکتے تھے

19 ستمبر کو تینوں میں سے ایک بڑا سوراخ عین اس مقام پر نکلا، جہاں مزدور موجود تھے اور اس کے ذریعے ایک کپسول لفٹ نیچے اتارنے کی کوشش کی گئی۔۔ جس کی چوڑائی اتنی تھی کہ اس میں ایک آدمی کھڑا ہو سکتا تھا، جبکہ وہ آہنی رسی کے ذریعے کرین کے ساتھ منسلک تھی۔
ڈرلنگ کے باعث اس مقام پر بہت بڑی مقدار میں ملبہ بھی گرا، جہاں مزدور پھنسے ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے بڑی محنت کے بعد اس کو ہٹایا اور کیپسول لفٹ نیچے تک جانے میں کامیاب ہوئی

پھر بالآخر وہ دن آ ہی گیا۔۔ یعنی 12 اکتوبر۔۔ جب پہلا مزدور کیپسول میں سوار ہوا، جس کو رسی کی مدد سے کھینچ کر سطح زمین تک لایا گیا

اس کے بعد لفٹ آتی جاتی رہی۔ سب سے پہلے ان مزدوروں کو سوار کیا جاتا رہا، جن کی حالت بہتر نہیں تھی، جبکہ فورمین لوئس ازوا وہ شخص تھے، جنہوں نے اعلان کیا کہ وہ سب سے آخر میں جائیں گے اور ایسا ہی ہوا

صدر سیباستن پنیرا
اس آپریشن کی خاص بات یہ تھی کہ نہ صرف اس میں ملک کے صدر سیباستن پینرا نے غیرمعمولی دلچسپی لی بلکہ تب تک سائٹ پر موجود رہے، جب تک آپریشن مکمل نہیں ہو گیا، اس دوران انہوں نے کئی روز ایک کیمپ میں گزارے

اس آپریشن کی ایک اور اہم بات یہ بھی تھی کہ تمام تر خدشات کے باوجود تمام کے تمام یعنی تینتیس کان کنوں کو بچا لیا گیا، جنہیں بعدازں ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں سے بیشتر صحت یاب ہو کر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ گئے جبکہ بعض کے رشتہ داروں کی جانب سے ان کے ٹراما میں رہنے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں

آپریشن کے بعد ہسپتال کے بستر سے ٹیم کے فورمین چون سالہ لوئس ارزوا نے دی گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ہمیں جمہوریت نے زندہ رکھا۔‘

ان کا کہنا تھا ’میں نے سب سے کہا کہ اپنے بچاؤ کے لیے جو بھی کام کرنا ہے، صرف اسی پر اتفاق کیا جائے گا جس کے حق میں ووٹ زیادہ ہوں۔‘

’ہم 33 افراد تھے اس لیے وہی قدم اٹھایا جس طرف 16 پلس ایک ووٹ ہو جاتا۔‘

ریسکیو آپریشن کے بعد حادثے کی تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کا ذمہ دار کان کن کمپنی کو ٹھہرایا گیا کہ اس کی جانب سے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے اور اس کے مالکان پر کیس چلایا گیا۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close