مقبوضہ ملیر اور بحریہ ٹاؤن کا بھارت

امر گل

یہ اکیسویں صدی ہے اور ہم ایک مہذب دور میں جی رہے ہیں.. تہذیب کا ایک ایسا دور، جس میں قابضین اس  زمین پر بدمعاشوں کے اٹالے لے کر پہنچتے ہیں، جہاں کئی صدیوں سے غریب لوگ رہتے آئے ہیں… اور ان بیکس و لاچار لوگوں کا قصور یہ ہے کہ وہ اس زمین کو محض قطعہ زمین نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی دھرتی سمجھ کر اس کی مٹی سے محبت کرتے ہیں…

ان غریبوں اور بے کَسوں کا جرم یہ ہے کہ تہذیب کے اس دور میں زمینوں کو نگلتے بڑھتے ہوئے شہروں اور بڑھتے ہوئے انسانی لالچ اور حرص و ہوس نے ان کی اس زمین کو سونا بنا دیا ہے.. لیکن وہ غریب لوگ زمین کی حفاظت آج کے مہذب یاجوج ماجوج، آج کے تہذیب یافتہ فرعون اور آج کے سولائیزڈ نمرود سے زمین کے اچانک قیمتی ہوجانے کی وجہ سے نہیں کر رہے، بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اسے اپنی دھرتی ماں سمجھتے ہیں…

یہ قصہ نہیں، واقعہ ہے… روشنیوں کے میٹروپولیٹن شہر سے ملحقہ ملیر، گڈاپ اور کاٹھور میں ہونے والی ظلمتوں کا…. ایک طرف میڈیا کے سمندر میں خبروں کا طوفان بپا ہے… دنیا کے کسی دوسرے کونے میں کسی معروف ہستی کو چھینک بھی آجائے تو وہ خبر بریکنگ نیوز بن کر میڈیا کے اینکروں کی زبان پر کسی رقاصہ کا رقص بن کر ناچتی ہے… ہم اس مہذب دور میں جی رہے ہیں جہاں یہ بکاؤ  میڈیا اداکاراؤں کی سیلفی کے وائرل ہونے کی بھونڈی خبریں تو چلاتا ہے، لیکن اپنی ناک کے نیچے ہونے والے بحریہ ٹاؤن کے مظالم اسے صرف اس لیے نظر نہیں آتے، کیونکہ ایک جہان جانتا ہے کہ اس کی آنکھوں پر اس مہذب دور کے شداد ملک ریاض نے پلاٹوں کی پٹیاں باندھ دی ہیں اور وہ اس لیے نہیں بولتا کہ اس دور کے قارون نے اس کی زبان پر نوٹوں کی گڈیوں کا بھاری وزن رکھ دیا ہے…

دن دہاڑے ملک ریاض کی بھارت جیسے بحریہ ٹاؤن کے غنڈوں اور بدمعاشوں کے مسلح  جتھے رٹائرڈ اور حاضر سروس کیپٹنوں، میجروں اور کرنلوں کی سربراہی میں مقبوضہ ملیر پر چڑھ دوڑتے ہیں اور جاہلیت کے دور کے مظالم کی یاد تازہ کر دیتے ہیں… حد یہ ہے کہ لوگ اپنی زمین کی حفاظت کے لیے ڈٹ جائیں تو ان پر گولیاں برسا دی جاتی ہیں اور لہو بہاتے  شدید زخمیوں کو لے کر یہ غنڈے اٹھا کر ہسپتال لے کر جانے کے بجائے تھانوں میں پھینک آتے ہیں.. اس مہذب دور کی بد تہذیب میڈیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی… اور اس اسرائیلی طرز کے ظلم ایک خبر تک نشر نہیں ہوتی….!!!!

حد تو یہ ہے کہ پولیس اپنی ہی زمین کی حفاظت کرنے کے لیے مزاحمت کرنے والے نہتے لوگوں کے بجائے بحریہ ٹاؤن کے قابضین کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے…

حد تو یہ ہے کہ سوموٹو کی فیشن زدہ اس ملک کی مہذب عدالتیں خاموش ہیں… وہ کرتی بھی کیا ہیں…؟؟؟؟؟ جب انہی عدالتوں میں یہی بحریہ ٹاؤن مکمل طور پر غیر قانونی ثابت ہو جاتا ہے تو یہ عدالت کے اندر منڈی سجا کر پیسوں پر انصاف بیچ کر اس مکمل طور پر غیر قانونی بحریہ ٹاؤن کو قانونی ہونے کا پروانہ تھما دیتے ہیں…

حد تو یہ ہے کہ اس کیس کے چلتے عدالتی ٹیم کے جج صاحبان اس غیر قانونی بحریہ ٹاؤن کا وزٹ کرنے نکلتے ہیں، تو اس کے نا ختم ہونے والے وسیع و عریض روڈوں کو مٹی کی ہلکی سی تہہ سے چھپا دیا جاتا ہے، جو اندھوں کو بھی نظر آ جائیں لیکن جج صاحبان کو نظر نہیں آتے… بخدا یہ ایک ایسا منظر ہے، جسے اپنی فلم کا حصہ بناتے ہوئے ساؤتھ انڈین فلم کا تھرڈ کلاس ڈائریکٹر بھی شرم سے پانی پانی ہو جائے… لیکن یہ ہماری زندگی کا واقعہ ہے… یہ ہے ہمارا عدالتی نظام!!!

ہم ایک ایسے مہذب دور میں جی رہے ہیں جہاں عسکری ادارے اپنے شہیدوں کے نام پر لاکھوں ایکڑ اراضی حاصل کرتے ہیں اور اسے کمرشل بنیادوں پر پلاٹنگ کر کے بیچ دیتے ہیں… بالفاظ دیگر شہیدوں کا نام، شہیدوں کی قبریں اور شہیدوں کا لہو بیچ دیتے ہیں…. عدالتیں گونگی بہری اندھی… میڈیا چپ خاموش تماشائی… نہ کوئی قانون نہ کوئی شنوائی…

ہم ایک ایسے مہذب دور میں جی رہے ہیں، جہاں ہمارے ملک کے سب سے بڑے اور طاقتور آئینی عہدے پر بیٹھا شخص بھی بے بسی سے کہہ رہا ہے یہ ملک مافیاؤں کے چنگل میں ہے، یہاں مافیاؤں کا راج ہے.. وہ کہہ رہا ہے ہماری عدالتیں صرف غریب کو ہی سزا دے سکتی ہیں… ہمارے نظام میں طاقتور چور اور کسی مافیا ڈون کو سزا دینے کی اہلیت ہی نہیں ہے…. جب ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کی بے بسی کا یہ عالم ہو تو پھر کیا کیجیے…!!

جہاں ریاستی ادارے مافیا کے کارندے بن جائیں، مافیا کے پیچھے دم ہلاتے اور پیر چاٹتے کتے بن جائیں.. جہاں کی عدالتیں اور ایوان دولت اور مایا کی پوجا کے مندر بن جائیں… وہاں انصاف مر جاتا ہے اور جہاں انصاف مر جائے وہ معاشرہ بقا نہیں پاتا، ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے…!

تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر،
جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے!!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close